وجود

... loading ...

وجود

محسن پاکستان کی تیسری برسی اور ہماری بے حسی

جمعه 11 اکتوبر 2024 محسن پاکستان کی تیسری برسی اور ہماری بے حسی

میری بات/روہیل اکبر
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم سے بچھڑے ہوئے تین سال گزر گئے اور ہم نے اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی بھلا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بچپن میں جو مٹی کی خوشبو اپنے اندر بسا لی تھی وہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہی اور مرنے کے بعد بھی اسی مٹی میں دفن ہوئے، جس کی محبت میں انہوں نے ایک خوشحال زندگی کو لات مار کر اپنے ملک کی خدمت کا فیصلہ کیا جو ان کاایک خواب بھی تھا۔ بلاشبہ ان کے اس خواب کو پورا کرنے میں سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو ،سابق انٹرنیشنل اسمگلر سیٹھ عابد اور سابق سفیر میاں عبدالوحید سمیت بہت سے کردار ہیں شاید ہی کوئی پاکستانی ہوگا جو ڈاکٹر صاحب سے محبت،پیار اور عقیدت نہ رکھتا ہو۔ انہی میں سے میں بھی ڈاکٹر صاحب کا عقیدت مند تھا اور اب بھی ہوں ۔ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے اور ملنے کا بہت شوق تھااور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں اپنے ہیرو کے ساتھ ان کے گھر کے برآمدے بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے انکی باتیں سنتا۔ اس دوران ہمارے درمیان کوئی تیسرا شخص نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ہر وقت ان کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا ہوا آرمی کا میجر بھی نہیں ہوتا تھا ۔ڈاکٹر صاحب ہوتے تھے میں ہوتا تھا یا پھر سامنے کی دیوار پھلانگ کر آنے والے بندر ہوتے تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتے بھی دیکھا ۔
ڈاکٹر صاحب سے میری قربت اس وقت بنی جب انہوں نے تحریک تحفظ پاکستان (ٹی ٹی پی ) ایک سیاسی جماعت بنائی اور اس پارٹی کے سیکریٹری جنرل خورشید زمان خان جو پاکستان کے سب سے کم عمر پارلیمنٹیرین بھی تھے انہوں نے مجھے اس پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات بنا دیا اور ساتھ میں انچارج میڈیا سل پنجاب کی ذمہ داری بھی دے ڈالی۔ الیکشن قریب تھے خوب تیاری کی پارٹی کو انتخابی نشان میزائل بھی الاٹ کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک قریبی دوست نواب کیفی نے اسلام آباد میں ایف 6 سپر مارکیٹ کے سامنے اپنی کوٹھی الیکشن آفس کے لیے دے دی جہاں ہم نے ڈیرے لگالیے۔ الیکشن کی گہما گہمی شروع ہوئی تو پورے ملک سے ٹکٹ لینے والوں کی لائن لگ گئی۔ اسی دوران شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے گھر میٹنگ وغیرہ بھی ہوتی اور مختلف سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ خیر الیکشن ہوئے اور ہماری پارٹی کا کوئی ایک امیدواربھی جیت نہ سکا بلکہ سب کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیکر تحریک تحفظ پاکستان کو ختم کردیااور وہ خبر بھی اخبارات میں میرے ہی نام سے چلی ۔پارٹی ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا ترجمان رکھ لیا اور ان کی مشاورت سے ملکی صورتحال پرکبھی کبھی ان کابیان جاری کردیتا۔ میں جب کبھی اسلام آباد جاتا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ضرور ہوتی جس میں کوئی تیسرا فرد نہیں ہوتا تھا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ڈاکٹر صاحب ننگے پائو ں سرحد پار کرکے پاکستان داخل ہوئے تو اس وقت ان کے قدموں نے اپنی مٹی کا جو لمس محسوس کیا وہ پھر ساری زندگی ان کے جسم سے نکل نہ سکا۔ ڈاکٹر صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے اور ابھی تو ہمارا پہلا الیکشن تھا پھر پارٹی بند کرنے کی وجہ کیا تھی جس پر ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ملک اور قوم کے لیے سب کچھ قربان کردیا اور قوم بھی مجھے محسن پاکستان سمجھتی ہے ۔میں جہاںجاتا ہوں لوگ ہاتھ چومتے ہیں اور عقیدت کی انتہا کردیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے حالانکہ میں عوام کی غربت دور کرنے ملک میں ایٹمی بجلی گھر بنا کرسستی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا ۔ملک کو قرضوں کے جال سے نکال کر چوروں اور ڈاکوئوں کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔ غربت،پستی اور جہالت کی دلدل میں غرق ہوتی ہوئی قوم کو ترقی کی بلندیوں تک لے جانا چاہتا تھا۔1947سے لیکر اب تک اندھیروں میںگم ہونے والی پریشان قوم کو روشنیوں کے سفر میں لانا چاہتا تھا۔ جھوٹے وعدے کرکے عوام پر حکمرانی کرنے والوں سے جان چھڑوا کر محب وطن ،ایماندار اور وعدوں پر پہرہ دینے والے حکمران لانا چاہتا تھالیکن ہماری قوم ایک پلیٹ بریانی اور چند پیسوں کے عوض انہیں ووٹ دیکر اپنے سروں پر سوار کرلیتے ہیں جو پھر ساری عمر ان کے سروں پر جوتے برساتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا جتنا وقت ڈاکٹر صاحب کے قریب گزرا وہ زندگی کا ایک انمول اور نایاب وقت تھا۔
میں اپنے ہیرو کے ساتھ بیٹھ کر ان کی سنتا اور اپنے دل کی کہتا تھا ڈاکٹر صاحب ملک میں بہتر اور معیاری نظام تعلیم لا کر قوم کا شمار مہذب قوموں میں کرا نے کی سوچ رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو اگر قوم ایک موقع دیتی تو وہ غربت اور جہالت کا خاتمہ کر کے ریاست کو خوشحال بنا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جو اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑا چلاتے ہیں اور اسی شاخ کو کاٹتے ہیںجس پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔اوپر میں نے دو شخصیتوں کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں مجھے ڈاکٹر صاحب نے ہی بتایا تھا ایک تو سیٹھ عابد جسے لوگ ا سمگلر کے نام سے جانتے ہیں، اسی کی بدولت ہم ایٹمی قوت بنے ۔کیونکہ انہوں نے جن جن طریقوں سے ایٹمی مواد پاکستان پہنچایا وہ اسی کا کام تھااور دوسرے میاں عبدالوحید ہیں جو اس وقت وہاں سفیر تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے خط لکھا ۔میاں عبدالوحید سفارت کاری کے بعد لاہور سے دو مرتبہ ایم این اے بنے۔ میری ان سے ملاقات شیخ رشید کے قریبی ساتھی اور متحرک سیاسی ورکر امجد گولڈن نے کروائی تو میں نے انہیں تحریک تحفظ پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی جس پر انہوں نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے خط کا قصہ سنایا کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے خطوط آتے رہتے ہیں جسے ہم خاطر میں نہیں لاتے اور ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں لیکن اس خط میں نہ جانے کیا بات تھی میں نے وہ خط سیدھا وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا دیا۔ جس کے بعد بھٹو صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو ملاقات کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ یوں پاکستان میں ایٹمی پاور پلانٹ کا کام شروع ہوا ۔جب میں نے میاں صاحب کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے اس شرط پر آنے کی ہامی بھری کہ ڈاکٹر صاحب خود ان کے گھر تشریف لائیں۔ میں نے جب ڈاکٹر صاحب سے میاں صاحب کا ذکر کیا تو انہوں نے فورا ہامی بھری اور ڈاکٹر صاحب لاہور میں مال روڈ اور نہر کے قریب ان کی کوٹھی میں آئے جہاں میاں صاحب نے اپنے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ تحریک تحفظ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔کھانے کے دوران میں نے میاں صاحب کی خط والی بات ڈاکٹر صاحب سے کی تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ایسا ہی ہوا تھا ۔میں نے پاکستان کی خدمت کا فیصلہ کیا تو خط سفارت خانے کو ہی لکھا تھا اور اس وقت میاں عبدالوحید ہمارے ہاں سفیر تعینات تھے۔ میاں صاحب نے بھی میزائل کے نشان پر الیکشن لڑا لیکن وہ بھی ہار گئے۔ کیونکہ ہم اپنے ہیروز کا حشر ایسا ہی کرتے ہیں کیونکہ ہم من حیث القوم محسن کش اور جاہل ہیں۔ ہمیں کھوٹے اور کھرے کی پہچان نہیں۔ آج بھی ملک کی سمت درست ہوسکتی ہے لیکن اس پہلے ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں چلتے چلتے میں ڈاکٹر صاحب کے نہایت قریبی اور اعتماد والے ساتھی رائو نعمان صاحب کا بھی مشکور ہیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی برسی کے حوالے سے اہم اقدامات کیے اور جن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو ان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خوشبو آتی ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر