... loading ...
معصوم مرادآبادی
اس وقت پوری دنیا ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرات سے دوچار ہے ۔سب سے بڑا اندیشہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کا ہے جس نے سب کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے ہیں۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل اس کی تیل ریفائنریز کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔ اندیشہ تو یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے نشانے پر ایران کا جوہری پروگرام ہو، لیکن یہ سب باتیں قیاس آرائیوں کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس وقت پوری دنیا شدید اعصابی دباؤ میں ہے اور جنگ کے خطرات نے شیئر مارکیٹ میں اتھل پتھل مچارکھی ہے ۔اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑی تو یہ محض دوملکوں کی جنگ نہیں ہوگی، بلکہ اس کے منفی اثرات پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہوں گے اور خطہ کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ غزہ میں جاری اسرائیلی وحشت وبربریت کو ایک سال مکمل ہوا چاہتا ہے ۔ اس دوران اسرائیلی افواج نے غزہ کو پوری طرح کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے ۔وہاں زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے ساتھ ہی اب اسرائیل کے نشانے پر لبنان ہے جہاں روز درجنوں ہلاکتیں ہورہی ہیں۔کئی اسرائیلی فوجیوں کو بھی حزب اللہ نے موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔ اس دوران مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے نماز جمعہ کے دوران لاکھوں ہم وطنوں کو خطاب کرتے ہوئے مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کو متحد ہونے کی کال دی ہے ۔انھوں نے اسرائیل کو امت مسلمہ کا مشترکہ دشمن قراردیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اتحاد واتفاق کے ساتھ طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کریں اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔واضح رہے کہ خامنہ ای نے پانچ سال کے بعد کسی عوامی جلسہ کو خطاب کیا ہے اور امت مسلمہ کے حوصلوں کو بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزکارروائیوں کے جواب میں گزشتہ ہفتہ ایران نے اس پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کردیا تھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہاسرائیل پرحملہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کی شہادت کا انتقام ہے ۔بیان میں اسرائیل کو خبردار کیا گیا ہے کہاگر صیہونی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی غلطی کی گئی تو دنداں شکن جواب دیا جائے گا۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار ہے تاہم انھوں نے مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کے چھڑنے کے امکانات کو مسترد کردیا ہے ۔لبنان میں حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے بعد اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوجائے گا، لیکن لبنان میں حزب اللہ اسے زبردست ٹکر دے رہی ہے اور اسرائیلی فوج کو وہاں لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں۔غزہ کے بعد لبنان اسرائیلی درندگی اور وحشت کا دوسرا مرکز ہے جہاں اب تک سیکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور لاکھوں لبنانی نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔اسرائیل کے خلاف ایران نے جو کارروائی کی ہے وہ ‘تنگ آمد بجنگ آمد’کے مصداق ہے ۔اسرائیل نے ایک سال قبل غزہ میں آگ برسانے سے پہلے حماس کے حملوں کا بہانہ بنایا تھا، لیکن لبنان میں جارحیت سے قبل اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے کرانے کے بعد اسرائیل احساس جرم میں مبتلا ہوگیا تھا اور اس نے حزب اللہ کے ممکنہ انتقام سے پہلے ہی وہاں بم برسانے شروع کردئیے ۔
ایران نے اسرائیل پر تقریباًدوسو میزائل داغے ہیں، جس کے نتیجے میں اسرائیل میں زبردست افراتقری مچی ہے ۔ ادھر یمن اور عراق سے بھی اسرائیل پر راکٹ اور ڈرون حملے کئے گئے ہیں۔حزب اللہ نے بھی متعددمیزائل اور راکٹ اسرائیل پر داغے ہیں۔جس وقت حملہ ہوا مقبوضہ بیت المقدس سمیت پورے اسرائیل میں خطرے کے سائرن بجنے لگے ۔ اسرائیلی فوج نے اپنے شہریوں کو تاحکم ثانی محفوظ مقامات پر چلے جانے کی ہدایت کردی۔حالانکہ اسرائیل نے اپنی چالاک فطرت کے سبب ان حملوں سے ہونے والے نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں، لیکن اندازہ ہے کہ وہاں بیلسٹک میزائلوں نے کافی تباہی مچائی ہے اور اس کا دفاعی نظام تہس نہس ہوگیا ہے ۔ایرانی پاسداران انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں پہلی بار ہائپر سونک میزائل استعمال کئے گئے ہیں اور نوے فیصد کے قریب میزائل اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس حملے میں اسرائیل کے تین دفاعی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔اس سے قبل رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے تھے ۔
اسرائیل پر تازہ حملہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حکم پر ہوا ہے ۔ابھی چندروزقبل ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ ایرانی عوام کو بنیاد پرست مذہبی قیادت سے آزاد کراکے انھیں کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے ۔ ان کا اشارہ ایران کی موجودہ قیادت کو ختم کرکے وہاں عراق جیسی کٹھ پتلی حکومت قایم کرنے کی طرف تھا۔مشرق وسطیٰ میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو اسرائیل سے لوہا لے رہا، باقی سب ملکوں نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال رکھے ہیں۔ وہ امریکہ کے اشاروں پر اپنی خارجہ پالیسی طے کرتے ہیں۔ اسرائیل کی پشت پر اصل طاقت امریکہ کی ہے جو اسے ہتھیار اور جنگی سازوسامان فراہم کرنے کے علاوہ سفارتی مددبھی فراہم کرتا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل سے برسرپیکارجن مزاحمتی گروپوں کو ایران کی عملی حمایت حاصل ہے ، ان میں حزب اللہ، حماس اور حوثی ملیشیا کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی تاریخ خاصی پرانی ہے ۔ رواں سال میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس نے اس کشیدگی کو اپنی انتہاؤں تک پہنچادیا ہے ۔ گزشتہ مئی کے اواخر میں ایران اور اسرائیل کے درمیان اس وقت کشیدگی اپنی انتہاؤں تک پہنچ گئی تھی جب اسرائیل نے تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایک ریموٹ حملہ میں شہیدکردیا تھا۔ وہ ایرانی وزیراعظم ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں شریک ہونے تہران گئے تھے ۔ ایران کی سرزمین پر حماس سربراہ کی ظالمانہ شہادت ایران کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ اس کے بعد مسلسل یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ ایران جوابی کارروائی انجام دینے والا ہے ۔
اس سے قبل کہ ایران کوئی جوابی اقدام کرتا اسرائیل نے بیروت میں گھات لگاکر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کردیا۔ اس واقعہ نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ غزہ میں اب تک اسرائیل اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکا ہے ۔ نہ تو اس کے یرغمالی رہا ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے دعوؤں کے مطابق حماس کا خاتمہ کرپایا ہے ۔ البتہ عام شہریوں کے لیے غزہ میں زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے ،لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی ہے ۔ دراصل ظلم وجبر کے خلاف مزاحمت کا جو جذبہ فلسطینی عوام میں پایا جاتا ہے ، اسے اسرائیل اپنی تمام تر فوجی اور شیطانی طاقت کے باوجود زیر نہیں کرسکاہے ۔23/لاکھ آبادی کی غزہ پٹی رہن سہن کے قابل نہیں رہ گئی ہے اور وہاں سب کچھ تہس نہس کردیا گیا ہے لیکن ایک جذبہ حریت ہے جو کسی بھی طورسرد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل نے اپنی توسیع پسندانہ اور ظالمانہ کارروائیوں سے پورے مشرق وسطیٰ کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے ۔ اگر ایرانی حملہ کے نتیجے میں اسرائیل اور ایران کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑی تو یہ انتہائی تباہ کن ہوگی۔ دونوں ملکوں کی فوجی طاقت پر نظر ڈالیں تو اس وقت جہاں اسرائیل کے پاس تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار سرکردہ فوجی ہیں اور چارلاکھ65 ہزار ریزروفوج ہے تو ایران کے پاس پانچ لاکھ پچیس ہزار سرگرم فوج ہے اور ساڑھے تین لاکھ ریزروفوجی ہیں۔ فوجی اعتبار سے ایران کا پلڑا بہت بھاری ہے ۔حالانکہ اسرائیلی فوج تکنیکی اعتبار سے ایران کے مقابلے میں زیادہ جدید ہے ، لیکن ایران نے بھی گھریلو ہتھیار بنانے میں کافی ترقی کی ہے ۔حالانکہ اسرائیل نے کبھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا اعلان نہیں کیا لیکن سمجھا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس 90سے 90 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایران نے بار بار کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے ۔ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تفصیل کا علم نہیں ہے ۔اسرائیل کے فوجی اخراجات کا تخمینہ 24بلین ڈالر کے آس پاس ہے ،جبکہ ایران کا اس سے کچھ زیادہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔