وجود

... loading ...

وجود

لبنان:اسرائیل کا نیا میدانِ جنگ

جمعه 04 اکتوبر 2024 لبنان:اسرائیل کا نیا میدانِ جنگ

معصوم مرادآبادی

غزہ کے بعدلبنان، اسرائیل کا نیا میدان جنگ ہے ، جہاں گزشتہ چند روز کی وحشیانہ بمباری کے دوران تقریباً ایک ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔بمباری سے خوفزدہ ہزاروں لبنانی باشندے سرحد پار کرکے سیریا میں داخل ہوچکے ہیں۔لبنان میں بھی اسرائیل غزہ جیسی تباہی وبربادی کی داستان رقم کرنا چاہتاہے ۔اسرائیل کے جنگی جنون نے اس وقت مشرق وسطیٰ کوبارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے ۔جنگی جنون میں مبتلا اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے گزشتہ جمعہ کو اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولا۔ انھوں نے کہا کہوہ امن چاہتے ہیں اور دنیا ان سے نفرت کرتی ہے ۔ عالمی عدالت میں جنگی مجرم قرار دئیے جاچکے اسرائیلی وزیراعظم کے اسٹیج پر آتے ہی شورشرابہ شروع ہوگیا۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں نعرے بلند ہونے لگے ۔ اس کے بعد مختلف ملکوں کے سفارتکار وں نے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف واک آؤٹ کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت نتن یاہو جنرل اسمبلی میں امن کا نعرہ لگا رہے تھیتو ٹھیک اسی وقت ا سرائیلی فوج بیروت کے جنوبی ٹاؤن میں بم برسا رہی تھی۔ اس کا نشانہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ تھے ۔
غزہ کو مکمل طورپر تباہ وبرباد کردینے کے بعد وحشی درندے لبنان پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ یہاں بھی جام شہادت نوش کرنے والے عام شہری ہیں،جن میں کثیر تعدادعورتوں اور بچوں کی ہے ۔پچھلے ہفتہ لبنان میں پیجر دھماکوں کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آئی تھی۔غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مہم شروع کرنے سے پہلے اسرائیل نے خود پر حماس کے حملوں کا بہانہ تراشا تھا، لیکن لبنان پریلغارسے پہلے اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔اچانک گزشتہ ہفتہ لبنان کے باشندوں کے موبائل پر یہ پیغام دیا گیا کہ وہ حزب اللہ کے ٹھکانوں کے آس پاس سے محفوظ مقامات پر چلے جائیں۔ یہ پہلی اور آخری وارننگ تھی اور اس کے بعد لبنان کے مختلف علاقوں میں بموں کی بارش شروع ہوگئی۔ یہ حملے اتنے اچانک اور غیر متوقع تھے کہ لوگوں کو جان بچانے کی مہلت بھی نہیں ملی۔
اسرائیل نے 18 سال بعد لبنان پر اتنا خوفناک حملہ کیا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ اسرائیل پر حملے کرنے والی تھی، جسے روکنے کے لیے اس نے وہاں حملے شروع کئے ہیں۔ ان حملوں میں حزب اللہ کے 1600سے زیادہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف حزب اللہ نے بھی جوابی کارروائی کی ہے ۔ اس نے شمالی اسرائیل میں دوفوجی اڈوں، ایک اڈے اور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے والی والی فیکٹری کو نشانہ بناتے ہوئے میزائل حملے کئے ہیں۔اس طرح مشرق وسطیٰ میں جنگ کا ایک اور محاذ کھل گیا ہے ۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل غزہ میں ایک سال کی وحشت ودرندگی کے بعد بھی اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
اسرائیل کے مسلسل حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں یہودیوں کے جان ومال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ صحیح سوچ رکھنے والے یہودی اس جنگ کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو کے جنگی جنون کے خلاف اسرائیل میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ لاکھوں یہودیوں نے نتن یاہو کو امن کا دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ نتن یاہو کا جنگی جنون بڑھ رہا ہے اوروہ تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایک ساتھ جنگ کے کئی محاذ ایک ساتھ نہیں کھولتا۔ لیکن نتن یاہو نے اس وقت کئی محاذوں پر جنگ شروع کررکھی ہے ۔لبنان نتن یاہو کے جنگی جنون کا دوسرا نشانہ ہے ۔
غزہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران صہیونی فوج نے درندگی، بربریت اور وحشت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کے نتیجے میں محدود اندازوں کے مطابق اب تک 42ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہیں اور غزہ کا 95فیصد علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے ۔حالانکہ بعض دیگر ذرائع نے غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد دولاکھ کے قریب بتائی ہے ۔23/لاکھ آبادی کی غزہ پٹی اس وقت ایک کھنڈر کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے ۔ نسل کشی کی اتنی بھیانک داستان حالیہ انسانی تاریخ میں کہیں رقم نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں محض قراردادیں پاس کرکے اسرائیل کے ظالم ہاتھوں کو روکنے کی کوشش کرتی رہیں۔ حالانکہ اسرائیل اپنے ناجائز قیام سے لے کراب تک ایسی سیکڑوں قراردادوں کو پیروں تلے روند چکا ہے ۔ہمیں شکایت مغربی طاقتوں سے نہیں ہے ۔ ان کا تو ایجنڈا ہی اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی ہے ، شکایت مشرق وسطیٰ کی ان مسلم مملکتوں سے ہے جو محض زبانی جمع خرچ کرکے غزہ میں نسل کشی روکنے کی تمنائی ہیں۔ یہ طاقتیں غزہ کے مظلومین کے لیے انسانی امداد تو بھیجتی ہیں، لیکن اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتیں اور نہ امریکہ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ یہ طاقتیں سمجھتی ہیں کہ شاید تباہی صرف غزہ اور لبنان کے باشندوں کا مقدر ہے ، لیکن جس تیزی کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں بارود بچھائی جارہی ہے ، اس سے پورے خطہ کا وجود خطرے میں ہے ۔
مغربی دنیا کی منافقت کا حال یہ ہے کہ وہاں بڑے بڑے چمپئن انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہیں۔وہ بار بار اس بات کو دوہراتے ہیں کہ وہ ایک مہذب سماج کا حصہ ہیں، لیکن جب اسرائیل کی درندگی اور وحشت کا سوال آتا ہے تو ان میں سے بیشتر بزدل چوہوں کی طرح اپنے اپنے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ کچھ کمزورممالک ضرور اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی رشتے ختم کرنے کا جوکھم اٹھاتے ہیں، لیکن امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ انسانیت کو زیادہ وسیع پیمانے پر تاراج کرسکے ۔ اس وقت بھی جبکہ اسرائیل نے لبنان پر آگ اور خون کی بارش شروع کی ہے ، امریکہ نے اسرائیل کی مدد کے لیے چالیس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔اس کے علاوہ امریکہ نے اسرائیل کو آٹھ ارب70کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بھیجی ہے ۔یہ امداد دراصل خطہ میں اسرائیل کی فوجی برتری کی کوششوں کے لیے ہے ۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ امداد اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے فولادی عزائم کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس دوران ایران نے اسرائیل کو لبنان پر حملوں کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا ہے ۔ایرانی وزیرخارجہ ناصر کنعانی نے اسرائیلی حملوں کو پاگل پن قراردیتے ہوئے کہا ہے اسرائیل اس نئی مہم جوئی کے خطرناک نتائج سے خبردار رہے ۔ کنعانی نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے جرائم اور لبنان میں توسیع علاقائی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرے کی واضح مثال ہے ۔واضح رہے کہ لبنان میں حزب اللہ ایران کی
حمایت یافتہ ایک نہایت منظم جماعتہے ، جو اسرائیل کو ناکوں چنے چباسکتی ہے ۔
لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا آغاز گزشتہ ہفتہ اس وقت ہوا جب لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھمکاکوں کے بعد پورا علاقہ دہل اٹھا۔ اس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی اور سیکڑوں بے گناہ شہری زخمی ہوگئے۔لبنان نے ان حملوں کے لیے اسرائیل کومورد الزام قراردیا۔موبائل فون کو غیر محفوظ قرار دینے کے بعد حزب اللہ نے پیجر کا استعمال شروع کیا تھا۔ پیجر کی فراہمی کے آرڈر تائیوان کی گولڈ اپولو کمپنی کو دیا گیا تھا۔ شبہ ہے کہ حزب اللہ کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے اسرائیل نے ان پیجرز میں چھیڑچھاڑ کرکے دھماکہ خیز مواد داخل کردیا تھا۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر پیجر میں دویاتین گرام دھماکہ خیز مادہ تھا، اس میں ایک سوئچ بھی نصب کیا گیا تھا، جسے دھماکہ کرنے کے لیے دور سے آن کیا جاسکتا تھا۔ لبنان میں ان پیجر پر گزشتہ منگل کی دوپہر ساڑھے تین بجے ایک میسیج آیا اور دھماکے شروع ہوگئے ۔ لبنان میں ہوئے پیجر حملوں کے بعد پوری دنیا میں تشویش کی لہر ہے ۔فی الحال اس قسم کے حملوں کے لیے کوئی ملک تیار نہیں ہے ۔غزہ کے بعد لبنان کا جنگی محاذ اسرائیل کو بہت بھاری پڑسکتا ہے ۔اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ سنگھرش سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ۔اسرائیل اپنی شمالی سرحد کو مضبوط بنانے کے لیے جنوبی لبنان میں زمینی حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوگا کیونکہ حزب اللہ گوریلا جنگ میں مہارت رکھتا ہے اوروہ اس جنگ میں اسرائیل کو زمین پر آسانی سے زیر کرسکتاہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر