وجود

... loading ...

وجود

گریٹر اسرائیل کی سرحدیں مزید پھیل سکتی ہیں؟

جمعرات 03 اکتوبر 2024 گریٹر اسرائیل کی سرحدیں مزید پھیل سکتی ہیں؟

ریاض احمدچودھری

جنوری میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے دعوٰی کیا کہ ایک ہماری سرحدیں موجودہ سعودی عرب سے نہرِ فرات یعنی عراق تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ دریدہ دہن اسرائیلی مصنف یہ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایک مکہ اور مدینہ بھی ہمارے زیرِنگیں ہوں گے۔کیا اسرائیل اپنے آپ کو گریٹر اسرائیل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے؟ کیا اسرائیل خطے کے دیگر ممالک کی سرزمین کے حصے ہڑپ کر ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہونا چاہتا ہے جس میں متعدد خطوں کے ٹکڑے ہوں۔یہ سوال ایک بار پھر سوشل میڈیا میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ کے بعد جنوبی لبنان اور بیروت میں اسرائیلی حملوں کے حوالے سے جو تصویریں سامنے آئی ہیں اْن میں بعض اسرائیلی فوجیوں کو گریٹر اسرائیل کے نقشے والے بیج لگائے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
گریٹر اسرائیل کا تصور نیا نہیں۔ اسرائیل کی طرف سے یہ بات ایک زمانے سے کہی جارہی ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور یہ ہے کہ یہودیوں سے آسمانی کتب میں جس سرزمین کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں اردن، مصر، فلسطین، عراق، شام اور لبنان کے علاقے شامل ہوں گے۔صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق یہودیوں کی ارضِ موعود میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب، مصر اور اردن کے علاوہ ایران اور ترکی کے علاقے بھی شامل ہوں گے۔ اقوامِ متحدہ نے 1947 میں فلسطین کو یہودی اور عرب ریاست میں تقسیم کرکے بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا تھا مگر سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بیگن کا کہنا تھا کہ فلسطین کی یہ تقسیم غیر قانونی ہے، بیت المقدس یہودیوں کا ہے اور یہودیوں ہی کا رہے گا۔
اسرائیل میں ہر دور میں گریٹر اسرائیل کے تصور کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کو باور کرایا گیا ہے کہ آسمانی کتب میں جن علاقوں کا ذکر ہے وہ سب کے سب اْن کے ہیں اور ایک گریٹر اسرائیل میں شامل ہوں گے۔ فی زمانہ اسرائیل میں گریٹر اسرائیل کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اس میں گولان کی پہاڑیاں، غرب اردن اور غزہ شامل ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر عمر کریم کہتے ہیں گریٹر اسرائیل کا تصور محض فسانہ ہے۔ یہودیوں کی مذہبی تعلیمات کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد سلطنتِ عثمانیہ کے وہ تمام علاقے ہیں جہاں یہودی آباد تھے۔ مصر سے نکل کر آنے پر یہودی فلسطین میں آباد ہوئے تھے اور اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے۔ گریٹر اسرائیل محض ایک تصور ہے جس کی عملی تعبیر ممکن نہیں۔ جب یہودی یوسف علیہ السلام کے دور میں مصر میں آباد ہوئے تب ان کی حکومت شام تک تھی اور وہیں سے گریٹر اسرائیل کا تصور آیا ہے۔
ہم بحیثیت قوم شرمسار ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ ہم نہیں کرسکے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھا جا رہا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جنوبی افریقا فلسطینیوں کا مقدمہ لے کر عالمی عدالت انصاف گیا لیکن یہ توفیق کسی مسلم ملک کو نہیں ہوئی۔ہر ایک شخص اور ملک کو اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے۔فلسطینیوں کی جنگ محض ایک جنگ نہیں بلکہ جہاد ہے۔اسرائیل کسی صورت کامیاب نہیں ہوگا۔فلسطینی مسلمانوں نے قربانیاں دے کر اپنا فرض پورا کردیا ہے۔مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا کامیابی مسلمانوں کا مقدر ہے۔
مسلم حکمرانوں کی غیرت امریکا اور یورپی ممالک کے حکمرانوں کی طرح ہونی چاہیے۔یورپی ممالک بھی اسرائیل کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں۔مسلم حکمران مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔دنیا میں اربوں مسلمان ہیں، مسلم ممالک وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن فلسطینی اس کے باوجود بے یارو مددگار ہیں۔انسانی حقوق کے ادارے مسلمانوں کے بہتے لہو پر خاموش ہیں۔ہم ہر سطح پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مدینے منورہ تک پہنچنے کا ہے، گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینہ بھی آتا ہے، اسرائیل اگر کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے کے کسی ملک کی خیر نہیں۔لہذا اس وقت تمام نفلی عبادات سے افضل عبادت غزہ کے لوگوں اور مجاہدین کی مالی امداد ہے۔مٹھی بھر مجاہدین نے اسرائیل اور اس کے حواریوں کا غرور خاک میں ملادیا ہے۔عالم اسلام میں بہت سی زمینوں پر غیروں کا قبضہ ہے، لیکن یہاں مسئلہ زمین کا نہیں نا اس بات کا ہے کہ غیروں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اصل مسئلہ بیت المقدس کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ مسجد اقصیٰ کا ہے۔ جب سے صہیونیوں کا قبضہ ہوا ہے تو امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اسے یہودیوں سے آزاد کرائے۔
ہمسایہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ‘ایرٹز اسرائیل’ یا ‘لینڈ آف اسرائیل’ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر