وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں بغاوت اور لندن گروپ

منگل 01 اکتوبر 2024 بلوچستان میں بغاوت اور لندن گروپ

ریاض احمدچودھری

بلوچستان کے سردار میر ہزار خان مری کی زندگی پر تحریر کردہ کتاب”میر ہزار خان مری…مزاحمت سے مفاہمت تک” بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں لکھی ایک بائیو گرافی ہے جس میں ہزار خان کی زندگی کے تغیر و تبدل کے حوالے سے بلوچستان کی سیاست اور موجودہ حالات کی کشیدگی کا ذکر ملتا ہے۔ کتاب میں ان کی سیاسی جدوجہد، ریاست کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی اور ان کے خاندان کے فوج سے جڑنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جہاں ان کے پوتے آج فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔بلوچ سردار میر ہزار خان مری ایک عرصے تک ریاست کے خلاف مزاحمت کرتے رہے اور آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ روس کی جارحیت سے متاثر ہو کر مری قبیلے کے لوگ افغانستان چلے گئے اور بیس سال تک پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں میں ملوث رہے۔ تاہم، روس کے زوال کے بعد یہ لوگ بے یار و مددگار رہ گئے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا، جس کے بعد وہ وطن واپس آئے اور احساس ہوا کہ ان کی جدوجہد بے سود رہی۔ واپسی کے بعد، میر ہزار خان مری نے ریاست سے مفاہمت کا سفر شروع کیا اور بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کیا۔
بلوچستان کی مزاحمت کی تاریخ میں لندن گروپ بہت اہم ہے۔ اس میں بہت سے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے ذہن کے دانشور شامل تھے جن کے بین الاقوامی رابطے بھی تھے۔ ان کی اپنی شناخت بھی تھی۔ یہ مالی طور پر مستحکم تھے اور ان میں سے بہت سوں کا تعلق بلوچستان سے بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود یہ سوشلزم کے نظریے کے زیر اثر بلوچستان میں جاری جنگ کا حصہ بن گئے۔ انہو ں نے اپنے آرام و سکون کو تج دیا۔ اپنی پرآسائش زندگیوں کو خیر باد کہا اور بلوچستان کے خشک و بے آباد پہاڑوں کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ لندن گروپ کا قیام 1969ء میں لندن میں عمل میں آیا۔ یہ سب نوجوان لوگ تھے اور کمیونسٹ تحریک سے بہت متاثر تھے۔ ان کی عمر اکیس سے پچیس سال تھی۔ ان میںمیر محمد تالپور، نجم سیٹھی، احمد رشید، اس رحمان ، راشد رحمان اور دلیپ داس شامل تھے۔
میر ہزار خان ‘لندن گروپ ‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران لندن سے چند لوگ ہمارے پاس آئے۔جنہیں نواب خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل نے بھیجا تھا۔ وہ پڑھے لکھے تھے اور پاکستان کے خلاف بلوچ مزاحمت کے حامی تھے۔ یہ تمام لوگ ہمارے ساتھ تھدڑی میں رہنے لگے اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ لوگ طب میں مہارت رکھتے تھے اور پڑھے لکھے تھے۔ ابتدائی دنوں میں انہوں نے مقامی دستیاب کیمکلز سے دھماکہ خیز مواد تیار کیا۔ ہم سب ان لوگوں کو بم تیارکرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ میر محمد علی تقریباً بیس سال تک ہمارے ساتھ رہے جبکہ دیگر افراد کا ساتھ بارہ سال تک رہا۔ بارہ سال بعد وہ اچانک واپس لوٹ گئے۔
لندن گروپ کے بیرون ملک رابطے تھے جن کی وجہ سے ہماری جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ جو ممالک پاکستان کے خلاف تھے انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ ہندوستان، عراق، افغانستان ، روس اور پاکستان کے دوسرے دشمن ممالک نے ہمیشہ ضرورت کے وقت ہماری مدد کی۔ یہ لندن گروپ ہی تھا جس نے ہمیں سہولت فراہم کی اور تمام فنڈز اور مدد لندن گروپ کی مدد سے ہمارے پاس پہنچی۔ ادویات ، اسلحہ اور گولہ بارود کے علاوہ بڑے پیمانے پر گھریلو استعمال کی اشیاء اور رقم بھی لندن گروپ نے فراہم کی تھی۔ واضح رہے کہ اسی لندن گروپ میں شامل ہو کر معروف صحافی نجم سیٹھی بھی فراری کیمپس کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا منشاء بلوچستان کو آزادی دلانا اور وہاں روسی انقلاب برپا کرنا تھا۔ ان کے خیال میں گریٹر بلوچستان نامی ایک ریاست ہوگی جو کمیونسٹ نظام کے تحت چلے گی۔ ان کے حوالے سے میر ہزار خان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ نجم سیٹھی لاہور سے ہمارے پاس آئے اور کچھ دن ہمارے ساتھ رہے۔ انہوں نے خود ارادیت کیلئے ہماری کوششوں کی حمایت کو یقینی بنایا۔
تاریخ میں لندن گروپ کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا لیکن بغور جائزہ لیں تو اس گروپ نے بلوچوں کیلئے جو کیا، خلوص دل سے کیا۔ اس گروپ نے اس مزاحمت کو منظم کیا اس کو نام دیا۔ بلوچستان کی مزاحمتی تحریکوں کا ذکر جب آئے گا تو ہم جان پائیں گے کہ کس مزاحمتی تحریک کو کس نام سے موسوم کیا گیا۔لندن گروپ نے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا۔ جوانوں کو فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ دی۔ اسلحے کے استعمال کے طریقے بتائے۔ میڈیا تک ان کی رسائی تھی ۔ یہ انگریزی میں روانی سے گفتگو کر سکتے تھے۔ یہ پہاڑوں میں ایک عام بلوچ کی طرح رہے۔ وہی کھاتے پیتے پہنتے جو ایک عام بلوچ کھاتا، پہنتا تھا۔ بلوچستان میں مزاحمت کرنے والے اس گروپ کے لوگوں کا بہت احترام کرتے تھے کہ یہ اپنا آرام و سکون چھوڑ کر ہمارے لئے سب کچھ قربان کرنے آئے ہیں۔ اس گروپ کا بنیادی نعرہ بلوچستان کی آزادی تھا۔ وہ لوگوں کو آزادی کی جانب راغب بھی کرتے اور انہیں مزاحمت کے طریقے بھی بتاتے تھے۔ ان دانشوروں نے بلوچوں میں اس سوچ کو اجاگر کرنا شروع کیا کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ ریاست پاکستان ان کے وسائل پر قابض ہو رہی ہے انہیں اس یلغار سے اب ایک انقلاب ہی بچا سکتا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں سب لوگ برابر ہوں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر