... loading ...
ریاض احمدچودھری
اسلام دین فطرت ہے جو اپنے پیروکاروں کو راہ راست پر رہنے کا درس دیتا ہے یعنی صراط مستقیم پر چلنے اور مل جل کر معاشرے میں رہنے اور حقوق العباد پر رہنے کا سبق دیتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ انسانی جان کی حرمت کو قائم رکھیں اور معاشرے کو امن و آشتی پر چلائیں’ مگر حالیہ چند سالوں میں نام نہاد مسلمان جن کا فلسفہ ہی قتل و غارت گری ہے دین اسلام میں ایک ناسور اور نئے فتنہ کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور ابوجہل کی طرح جاہلیت پر مبنی فلسفہ پر گامزن ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اسلام کی غلط ترجمانی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں امت مسلمہ کو ان نام نہاد جہادیوں کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے’ مگر یہ لوگ تو اسلام کو اور مسلمانوں کو اس حد تک بدنام کر رہے ہیں کہ پوری مغربی دنیا اسلام کو ایک خوفناک مذہب سمجھنے لگی ہے اور اپنے ممالک میں موجود مسلمانوں کو جو وہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں کو اس طرح شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جیسے القاعدہ اور تحریک طالبان کا تعلق ہر اس مسلمان سے ہوسکتا ہے جو کہ نماز پڑھتا ہو اور دین اسلام پر سختی سے کاربند ہو۔ مغربی دنیا ہر ایسے مسلمان کو دہشت گردوں کا ساتھی یا خود دہشت گرد سمجھتے ہیں۔
ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اندر سے کمزور کرنے کا بھارتی طریقہ کار آج کا نہیں بلکہ بھارتی حکمران 1947ء سے ہی اس پر کاربند ہیں خصوصاً پاکستان کے معاملے میںتو وہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حالانکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کا ریکارڈ کبھی شاندار نہیں رہا۔ سکھ خالصہ تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے اقدام سے لے کر بھارتی ریاست میزورام، ناگا لینڈ اور منی پور میں اٹھنے والی علاقائی تحریکوں کیخلاف بھارت نے جس وحشیانہ انداز میں طاقت کا استعمال کر کے عام انسانوں کا خون بہایا ، تاریخ ان واقعات کو کبھی نہیں بھلا سکے گی جبکہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین و کارروائیوں کے ذریعے ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا بھارتی ریاستی اداروں کا وطیرہ ہے۔
بلوچستان سے گرفتار خودکش حملہ آور عدیلہ بلوچ نے کہا ہے کہ دہشت گرد بلیک میل کرکے بلوچ خواتین کو ورغلاتے ہیں، جس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں ایک کوالیفائیڈ نرس ہوں اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک پروجیکٹ چلا رہی ہوں۔ میرا کام لوگوں کی مدد کرنا اور زندگیاں بچانا ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں ایسے عناصر کے ساتھ رہی جنہوں نے مجھے صحیح راستے سے بھٹکایا۔عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مجھے ایسے بہکایا گیا کہ میں خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میرے خودکش حملے کرنے سے کتنے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان چلی جائے گی۔ مجھے دہشتگردوں کی جانب سے ایک نئی اور خوشگوار زندگی کے سبز باغ دکھائے گئے۔گرفتار خودکش حملہ آور کے مطابق میں اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر دہشت گردوں کے پاس پہاڑوں میں چلی گئی۔ وہاں جا کر مجھے احساس ہوا کہ یہاں مشکلات اور سخت زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے علاوہ وہاں اور بھی بہکائے ہوئے بلوچ نوجوان موجود تھے۔ دہشتگردوں کی جانب سے یہ تاثر دینا کہ بلوچ خواتین اپنی مرضی سے خود کش حملہ کرتی ہیں سراسر جھوٹ ہے۔ دہشتگرد بلیک میل کرکے بلوچ خواتین کو ورغلاتے ہیں جس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ مجھے اپنے غلط راستے پر چلنے کا احساس تک نہیں ہوا۔عدیلہ بلوچ نے ا بلوچ نوجوانوں کے لیے پیغام دیا کہ جو غلطی میں نے کی ہے آپ نہ کریں۔ اس میں صرف ہمارا نقصان اور نہ ہی ایسے کاموں سے کوئی آزادی ملتی ہے۔ جن لوگوں سے میں ملی ہوں، اگر ایسے لوگ آپ کو ملیں تو اپنے والدین کو ضرور بتائیں۔ یہ بربادی کا راستہ ہے، اپنے آپ کو خود کش حملے میں استعمال کرکے مارنا حرام راستہ ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ بلوچ نوجوان غلطی کریں جو میں نے کی۔واضح رہے کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے، جس میں انہوں نے ضلع کیچ کے شہر تربت سے خاتون خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا ہے، جس کی شناخت عدیلہ بلوچ کے نام سے ہوئی ہے۔ عدیلہ بلوچ گرفتاری کے وقت تربت ٹیچنگ اسپتال میں نرس کے طور پر کام کررہی تھی۔ عدیلہ بلوچ کی گرفتاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور فعال انٹیلی جنس کا ثبوت ہے۔عدیلہ بلوچ کا گرفتار ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کیلئے بلوچ خواتین کا استعمال کررہے ہیں۔ عدیلہ بلوچ کی جانب سے کی جانے والی گفتگو بلوچ نوجوانوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی کا راستہ اپنائیں نہ کہ دہشت گردی کا یا بربادی کا راستہ اختیار کریں۔ اس موقع پر عدیلہ بلوچ کی والدہ نے کہا کہ دہشت گرد ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، خواتین کو دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اللہ جانتا ہے کہ ہم نے کن مشکل حالات میں وقت گزارا ہے، بیٹی کے لاپتہ ہونے کے بعد ایک دن کرب اور مصیبت میں گزارا۔عدیلہ بلوچ کے والد نے کہا کہ میں بینک ملازم ہوں، کراچی میں نوکری کرتا ہوں، اپنی تنخواہ سے گھر کا خرچ اور بچوں کو تعلیم دلا رہا ہوں، پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں سے کہتا ہوں آپ کیسے بلوچ ہیں، ایک بلوچ کی بیٹی کو ورغلا کر لے گئے۔ میری بیٹی لاپتہ ہوئی میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر اور اہلخانہ پر کیا گزری، جو پہاڑوں میں جاتے ہیں ان کا واپس آنا مشکل ہوتا ہے، پہاڑوں پر لے جانے والے آزادی کے نام پر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ میں نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا کہ میری بیٹی لاپتہ ہے، بلوچستان حکومت سے درخواست کی کہ میری بیٹی کو بازیاب کرائیں، حکومت پاکستان اور بلوچستان کی وجہ سے میری بیٹی بازیاب ہوئی، ہم یہاں پر اپنی مرضی سے آئے ہیں، سوشل میڈیا پر جو دیکھتے ہیں وہ پروپیگنڈا ہے۔اس موقع پر فرح عظیم شاہ نے کہا کہ بلوچ اپنی عزت پر جان دینے والی قوم ہیں، حیرانی ہوئی کہ ان کے ہاتھوں ہماری بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں، پاکستان ایک نور ہے اور نور کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔