وجود

... loading ...

وجود

لداخ میں چینی پیش قدمی

جمعه 27 ستمبر 2024 لداخ میں چینی پیش قدمی

ریاض احمدچودھری

لداخ دو بین الاقوامی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔ مغرب میں پاکستان اور مشرق میں چین۔ 1962 کے بعد چین نے اس خطے میں پہلی بار اتنی بڑی جارحیت کی ہے۔ انھوں نے اس دراندازی میں ہماری بہت سے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ پہلے انھوں نے اپنے چرواہوں کو ہماری چرا گاہوں میں بھیج کر کافی زمین ہڑپ کی۔ لیکن 2020 میں انھوں نے گلوان وادی، ڈیپسانگ، ہر جگہ زمینوں پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد پینگونگ سو میں اتنی مداخلت کی، اتنی زمین پر قبضہ کیا کہ اس جانب سے ان کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔
بھارت نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران لداخ کے بلند وبالا علاقوں میں دھرو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے رات کے آپریشن شروع کردیے ہیں۔ اس اقدام کو خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے تزویراتی ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے بھارت بوکھلا گیا ہے۔ بھارتی فوج کے پائلٹ اور تکنیکی ماہرین مشن کو یقینی بنانے کے لیے دھرو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر رہے ہیں۔بھارت کے ایک تکنیکی سپروائزر میجر آیوش دیولیال نے پرواز کے لیے ہیلی کاپٹر کوکلئیر کرنے سے پہلے تفصیلی معائنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ہر ٹیم اپنے مخصوص نظام کوچیک کرتی ہے اور اس کے بعدہی طیارے کو اڑان بھرنے کے لیے انجینئرنگ افسر سے تصدیق کی جاتی ہے۔ چیتا ہیلی کاپٹر کے پائلٹ میجر امریندر نے کہاکہ بلندو بالا پہاڑی علاقوں میں پرواز کرنا سنگین چیلنج ہوتا ہے۔ رات کے وقت آپ کو گہرائی کا ادراک کم ہو جاتا ہے ، اس لیے ہم اپنے آلات پرہی زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ رات کو ہوائیں بھی تیز چلتی ہیں اس لیے ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بھارتی فوج کا نائٹ آپریشن کرنے کا فیصلہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ خطے میں چین کی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ خطے میں چین کی پیش قدمی اور اروناچل پردیش پر اس کے دعوئوں کے بعد بھارت کے لئے اپنی علاقائی سالمیت کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔صورتحال پیچیدہ ہے جس میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ بھارت کے دفاعی ماہرین چین کے طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں وہ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ دشمن کی سرزمین پر پیش قدمی کرتا ہے۔ تاہم غیر جانبدار تجزیہ کار لداخ میں بھارت کی طرف سے سڑک کی تعمیر کو چینی اقدام کے محرک کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لداخ کے پہاڑی علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان سرحد کے قریب مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں متنازع علاقوں سے فوجیوں کو واپس بلانے پر رضامندی کے بعد اپنی زمین چین کے حوالے کردی ہے۔بھارت اور چین کی درمیان 2020 سے مغربی ہمالیہ میں سرحد پار تنازع جاری رہا، تاہم دونوں ممالک نے اعلیٰ سطحی فوجی اجلاسوں میں تناؤمیں کمی کے فیصلے کے بعد گوگرہ ہاٹ اسپرنگس کے متنازع علاقے سے فوجیوں کو واپس بلانا شروع کردیا۔جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بفر زونز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں کسی بھی فریق کے فوجیوں کو گشت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مقامی لوگوں اور علاقے کے منتخب نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ بفر زونز ان علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں جو پہلے بھارت کے زیر انتظام تھے۔ہماری فوج ان علاقوں کو خالی کر رہی ہے جو ہرگز متنازع نہیں تھے جبکہ چینی افواج ان علاقوں میں تعینات ہیں جہاں عموماً بھارتی افواج کا گشت ہوتا تھا۔ بھارت نے 2021 کے معاہدے کے دوران پینگونگ جھیل کے آس پاس کے علاقوں سے دستبرداری کے لیے پہلے ہی زمین چھوڑ دی تھی۔ ہم نے پہلے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا، پینگونگ تسو کے علاقے میں بھی ہماری فوج نے ایک بہت بڑا علاقہ کھو دیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہماری تشویش صرف چین کی دراندازی تھی لیکن اب ہماری حکومت خوشی سے ہماری زمین چین کے حوالے کر رہی ہے، اگر بھارت کا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم مزید علاقہ کھو دیں گے۔ مقامی لوگ بھی اس دراندازی سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ایسے علاقے کھو دیے ہیں جنہیں وہ اپنے مویشیوں کے چرانے کے لیے استعمال کرتے تھے، انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان کی روز مرہ زندگی کے اہم ذرائع متاثر ہوں گے۔
اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 1000 مربع کلومیٹر کا علاقہ بغیر لڑے چین کے حوالے کردیا ہے۔پینگونگ جھیل کے علاقوں میں پرتشدد جھڑپ کے بعد 5 مئی 2020 کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کا آغاز ہوا تھا، ایک ماہ بعد کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔تناؤ شدت اختیار کرنے کے بعد دونوں ممالک نے بھارے ہتھیار سے لیس دسیوں ہزار فوجی متنازع علاقے میں ایک دوسرے کے مقابل تعینات کرنا شروع کر دیے تھے۔ 2020 کا واقعہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ 1962 کے بعد اتنی بڑی تعداد میں فوج کا یہاں آنا لوگوں کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ سرحد پر چین کے ساتھ اس طرح کا ٹکراؤ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے صرف ڈیمچوک اور چومور ایریا میں چینی فوج کا کچھ سٹرکچر ہوتا تھا۔چوشول کے پاس جتنے بھی پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں ہر جگہ فوج ہی فوج دکھائی دے رہی ہے ۔ مشرقی لداخ میں جہاں جہاں بارڈر ہے وہاں چین نے فائیو جی ٹاور لگا دیے ہیں۔ یہی نہیں اس نے پینگونگ سو جھیل پر دو پل تعمیر کر دیے ہیں۔ چین 2020 کے بعد سے اس خطے میں بہت زیادہ فوجی تعمیرات میں لگا ہوا ہے۔ اس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس موڈ میں ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لداخ میں چینی پیش قدمی وجود جمعه 27 ستمبر 2024
لداخ میں چینی پیش قدمی

بس نکلنے کی دیر ہے ! وجود جمعه 27 ستمبر 2024
بس نکلنے کی دیر ہے !

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا! وجود جمعه 27 ستمبر 2024
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا!

ماضی کی گواہی: 1947کے سانحے کی عکاسی وجود جمعرات 26 ستمبر 2024
ماضی کی گواہی: 1947کے سانحے کی عکاسی

آبجیکشن می لارڈ:اب کلام نرک و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم وجود جمعرات 26 ستمبر 2024
آبجیکشن می لارڈ:اب کلام نرک و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر