... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
حسین سلیمان ایک لائر ہے ۔وہ قانون کے پلیٹ فارم پر مظلوم طبقات کی جنگ لڑتا ہے ۔قانون کے ایوانوں میں اس کا ایک بڑا نام ہے۔ حسین سلیمان نے قانونی کی ڈگری پاکستان کالج آف لاء سے حاصل کی ۔پاکستان کالج آف لاء وطن عزیز کا ایک ایسا ادارہ ہے ۔ہمایوں احسان جیساقدآور قانون دان اور محب وطن فرد جس کا بانی ہے سال 2000ء میں لاء کے اس ادارہ میں ایک بڑا سیمینارہوا ۔چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اس سیمینارمیں بطور چیف گیسٹ مد عو ہوئے ۔مقررین آئے اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا اور چلتے بنے۔ عمران جب خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے الفاظ کا نچوڑ یہ تھا کہ ”پاکستان کالج آف لاء ایک بااعتماد اور معتبر ادارہ ہے اور بلا شبہ اس ادارے کے بانی پروفیسر ہمایوں احسان کسی تعریف اور تعارف کے محتاج نہیں ۔یہاں کے طالب علم نہ صرف مستقبل کے لائر ز ہیں بلکہ وطن عزیز کا مستقبل ہیں۔یہ طالب علم وطن عزیز کے ہر گوشے ہر کونے ہر قریے سے اس ادارہ کے ساتھ منسلک ہیں۔میں اس توقع کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں کہ آج وطن عزیز کی بقاء کے کچھ تقاضے ہیں جو وہ ہم سے قربانی کی شکل میں مانگتا ہے۔تحریک انصاف وطن عزیزکی بقاء کا نام ہے ۔اور آپ جیسے متحرک نوجوان اس کاہر اول دستہ ہیںآپ یقینا تحریک انصاف کے پیغام کو وطن عزیز کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے میرے دست و بازو بنیں گے ۔عمران یہ توقع لے کر عازم سفر ہوگئے مگر حسین سلیمان جیسے سینکڑوں طالب علموں کے دل میں ان کے الفاظ کندہ ہوگئے ۔ازراہ تفنن بعد ازاں پرنسپل پاکستان کالج آف لاء پروفیسر ہمایوں احسان نے لاء کے زیر تعلیم طلبہ سے پوچھا مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب مانگنا ہے کہ عمران اور پروفیسر ہمایوں احسان دونوں میں سے بہترین شخصیت کون؟ اگر دونوں میں کوئی ایک بہتر تو کیسے اور کیوں؟کئی ایک طلبہ نے پروفیسر ہمایوں احسان کو بہترین شخصیت قرار دیا اور جواز یہ پیدا کیا کہ وہ لیڈر شپ (قیادت)تیار کرتا ہے اور یہ قیادت اپنے اپنے حلقہ میں جا کر کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کو مضبوط کرنے کا سبب بنتی ہے ۔حسین سلیمان ابھی تک عمران کی سچائی کے سحر میں کھویا ہوا تھا ۔اس سحر سے وہ آج تک نہیں نکل سکا ۔وہ پروفیسر ہمایوں کے سامنے کھڑا ہوا اور اپنے جذبات کو ان الفاظ کی شکل دی۔کہ ”عمران خان ،پروفیسر ہمایوں احسان سے قدآور شخصیت ہیں کیونکہ عمران خان گراس روٹ لیول پر لوگوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے ۔عمران انٹرنیشنل سناریو میںپاکستان کا امیج بہتر کرنے کے لیے متحرک ہے اور ایک ایسی تحریک کا روح رواں ہے جو انصاف عام احتساب سرعام اور اقتدار میں عوام کا عظیم مقصد لے کر رواں دواں ہے وطن عزیر کی غریب پسماندہ اکثریت کاجذبہ ہمدردی عمران کے اندر موجزن ہے اور ملک میں معاشی اقتصادی فکری ذہنی انقلاب لانے کے پروگرام پر عمران عمل پیرا ہے ۔جبکہ پروفیسر ہمایوں احسان ان احساسات اور جذبات سے عاری ہیں پاکستان کالج آف لاء کے ماحول سے باہر اس نے جھانکا ہی نہیں ۔نتیجتاًعمران بصورت موازنہ پروفیسر ہمایوں احسان سے قد آور اور پاکستانی قوم کا درد رکھنے والا سپوت ہے۔
حسین سلیمان پاکستان کالج آف لاء کے واحدطالب علم تھے جنہوں نے کالج کے بانی اور سینکڑوں لاء کے طلباء کے سامنے زمینی حقائق کو بیان کر کے ایک لائر ہونے کے ناطے عمران خان کا پہلا مقدمہ لڑا۔ ان کے بعد کوئی طالب علم ان مدلل حقائق کو سن کر کھڑا نہیں ہوا بلکہ لاء کے طلباء نے حسین سلیمان کی تائید میں ہاتھ اُٹھادیئے عمران خان نے تحریک انصاف کی پہلی اینٹ رکھی تو اس نعرے کے ساتھ کہ انصاف عام احتساب سر عام اور اقتدار میں عوام ہوں گے ۔ عمران کا کارواں شہروں سے نکل کر دیہاتوں میں داخل ہوا تو اس کارواں کے روح رواں احسن رشیدمرحوم انجینئر افتخار چوہدری میانوالی کے سلیم گُل مرحوم ،زاہد کاظمی تھے ۔ تنظیم سازی کا عمل شروع ہوا تو ایسے افراد کا چنائو کیا گیا جن کے دامن پر کرپشن کاکوئی دھبہ نہ تھا ۔ احباب پوچھتے تو عمران کہتا : احتساب سرعام مقدم ہے ۔97ء کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو میاں برادران کی طرف سے کثیرنشستوں کی آفر ہوئی عمران نے ٹھکرا دی کہ ” تمہارے ساتھ میرا اتحاد اس لیے نہیں ہوسکتا کہ تم خود قابل احتساب ہو”۔
12اکتوبر 1999ء کے اقتدار کو ایک آمر نے انقلاب کانام دیا اور 7نکاتی ایجنڈے کے ساتھ جن میں قابل احتساب لوگوں کا احتساب بنیادی ایجنڈا تھا بھاری بوٹوں کی دھمک کے ساتھ میدان میں اترا۔ عمران چونکہ سرعام احتساب کو مقدم لیے کھڑا تھا سو عسکری حکمرانوں کے ساتھ آکھڑا ہوا عمران کی ذہنی کیفیت صرف یہ تھی کہ عوام کو لوٹنے والے قابل احتساب لوگ قانون کی گرفت میں آجائیں گے اور آئندہ چنائو میں عوامی امنگوں کی آبیاری ہوسکے گی۔
9/11 کا واقعہ ہوا عوامی جذبات کا قتل جب طالبان پر بمباری کی شکل میں ہوا اور صہیونیت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ایک آمر نے امریکہ کی صرف ایک کال پر اپنی غیرت و حمیت سب کچھ خاک میں ملادی تو غیرت و حمیت کا مجسمہ عمران ضمیر کی آواز کو نہ دبا سکا ۔ اس نے ایک آمر سے اپنی راہیں جدا کر لیں سترہویں ترمیم اور ایل ایف او پر جب ایم ایم اے نے عمران خان کو ایک آمر کی خاطر قائل کرنا چا ہا تو عمران بھڑک اٹھا اور کہا یہ جرم آ پ کریں میں تو پہلے گناہ کا کفارہ ادا نہیں کر پارہا حتیٰ کہ ایک آمر کی چھتری تلے ہونے والے انتخابات میں بھی عمران نے حصہ لینے سے انکار کردیا ،عدلیہ کو پابند سلاسل کیا گیا تو عمران کا کارواں وکلاء کے شانہ بشانہ تھا ۔عمران نے اقوام متحدہ کے فورم پر مسلم امہ کا مقدمہ جس انداز میں لڑا اسے تاریخ صدیوں یاد رکھے گی ،اسلامو فوبیا کا دن عمران کا مرہوں منت ہے ، اسٹیٹس کو کی ساری قوتیں عمران کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں ،اور عدلیہ کے ایک بار پھر پر کاٹنے کی ناکام خواہش جنم لے رہی ہے ،عمران ایک محب وطن پاکستانی ہے جسے پابند ِ سلاسل کردیا گیا۔ عمران ہی آنیوالے وقت میں عوام کا حقیقی مسیحا ہے،لاہور کے جلسہ میں فارم 47کی حکمرانی نے فسطائیت کی انتہا کردی لیکن عوام نے عمران اور عدلیہ سے اپنی انمٹ محبت ثابت کردی ،28ستمبر کو راولپنڈی میں جلسہ ہے مگر اس کے لیے عوام کے کارواں کو پھر پہلے کی طرح قریہ قریہ گائوں گائوں نکلنے کی ضرورت ہے حسین سلیمان جیسے لائرز اورضوان چوہدری، جیسے نوجوان عوام کے د لوں کے اندر عمران خان کے جذبات منتقل کرنے کے لیے دن رات مصروف ہیں بس نکلنے کی دیر ہے، کارواں کے ہر اول ہر شہر ہر گائوں میں موجود ہیں۔