... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
عدالت عظمیٰ نے بلڈوزر ناانصافی میں دلچسپی لی تو اس بابت حقائق منظرِ عام پر آنے لگے ۔ یہ پتہ چلا کہ وہ تو صرف ڈبل انجن کمل چھاپ سرکار وں میں ہی چلتے ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے گھر وں کو اجاڑنے کی ضرورت انہیں لوگوں کو کیوں پیش آتی ہے ؟ دوسروں کو کیوں نہیں ؟ اس کاایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نفرت کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور خالی زمینوں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرکے اپنے وارے نیارے کرنے میں یہ لوگ نہایت بے حیا ہیں ۔ اسباب سے قطع نظریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے سات سالوں میں مرکزی حکومت کی پشت پناہی سے ظلم و استبداد کا یہ ننگا ناچ چلتا رہا اور عدلیہ گہری نیند میں سوتا رہا ۔ دیر آید درست آید کی ماننداب بیدار ہوا تو اتر پردیش کے بابا ، مدھیہ پردیش کے ماما اور اتراکھنڈ کے چاچا متفکر ہوگئے ۔ یوگی حکومت نے لکھنؤ کے اکبر نگر میں 1,169 مکانات اور 101 تجارتی اداروں کو کوکریل ریور فرنٹ یعنی تفریح گاہ کے نام پر اجاڑ دیا گیا اور یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ وہاں لینڈ مافیا کے ساتھ ساتھ روہنگیا اور بنگلہ دیشی دراندازوں کی غیر قانونی تعمیرات تھیں حالانکہ ان میں ایک بڑی تعداد مقامی ہندووں کی بھی تھی ۔ جون 2024 کو مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے 11گھروں کو ریفریجریٹرز میں گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر توڑدیا جبکہ اب تو ترپتی کے لڈو میں بھی گائے کی چربی اور مچھلی کا تیل پایا گیا ہے تو کیا وہاں بھی بلڈوزر چلے گا؟
ایک غیر سرکاری تنظیم ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی تحقیق کے مطابق اس سرکاری غنڈہ گردی میں جملہ 7,38,438سے زیادہ افراد کو جبری طور پر بے دخل کیا گیا ہے ۔ 2017سے 2023 تک 16لاکھ08ہزار سے زیادہ لوگ بلڈوزر کارروائی سے متاثر ہوئے ۔ 2019 تک 1,07,625گھروں کو مسمار کیا گیا تھا مگر 2022 میں یہ تعداد دوگنا ہوکر 2,22,686 تک پہنچی 2023 میں تو 5,15,752 تک پہنچ گئی ۔ گزشتہ دو سالوں میں، 59 فیصد بے دخلیاں کچی آبادیوں میں تجاوزات ہٹانے یا شہر کی خوبصورتی کی آڑ میں ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے علاوہ الہ باد ہائی کورٹ میں اس طرح کا ایک معاملہ زیر سماعت ہے جس میں اعظم گڑھ کے سنیل کمار نے عدالت میں عرضی داخل کی کہ ، زمین تنازع کے کیس میں اعظم گڑھ کے ایڈیشنل کلکٹر نے اس کاموقف سنے بغیر 22 جولائی کو گھرگرانے کا حکم جاری کردیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے ان کے گھرکوبلڈوزرسے گرا بھی دیا۔ سنیل کا الزام ہے کے بغیرسماعت کا موقع دیئے جلد بازی میں ان کے مکان پربلڈوزرچلا دیا گیا۔اس تنازع میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش میں بلڈوزرکارروائی پرسوال اٹھایا۔
جسٹس پرکاش پڑیا کی سنگل بینچ نے اس معاملے میں سماعت کے دوران سخت ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے اترپردیش حکومت سے پوچھا کہ ایسی کون سی مجبوری تھی کہ جس کے سبب قانونی طریقہ کارپرعمل کئے بغیرعرضی گزارکے گھرکومنہدم کردیا گیا؟ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ناانصافی کی تلافی کرکے آئندہ اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوتا ہے مگر اس کے بجائے جج صاحبان پروچن (پندو نصیحت) پر اکتفا کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ 10نومبر 2023 کو بھی پیش آیا تھا۔ اس وقت الہ آباد ہائی کورٹ نے پریاگ راج کے جھونسی تھانہ علاقے میں رہنے والے ایک وکیل کے گھر کو منہدم کرنے پر سماعت کے دوران پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے ) کو پھٹکار لگائی تھی ۔ ایڈوکیٹ ابھیشیک یادو کی شکایت پر دورانِ سماعت ہائی کورٹ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی من مانی کے لیے نہیں ہے ۔پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے ) کے وائس چیئرمین سے جواب طلب کرنے والے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ گھر کی ایک اینٹ لگانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور حکام اسے توڑنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے ۔ اس معاملے میں اگر عدالت نے بی ڈی اے اتھارٹی یا اس کے آقاوں کو کوئی سزا دی ہوتی تو ممکن ہے اس طرح کی دھاندلی پر لگام لگتی کیونکہ یوگی جیسے بے حس و سفاک انتظامیہ سے متعلق خواجہ منظر حسن منظر کا کہنا ہے
اب کلام نرم و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم
پھول کی پتی نہ ہیرے کا جگر پاتے ہیں ہم
وطن عزیز میں انتظامیہ فی الحال اس قدر خود سر ہوگیا ہے کہ اسے عدالتی احکامات کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے ۔ اس کی تازہ مثال گیان واپی مسجد کے حوالے سے الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اس کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ وان کے ہمنواوں کے احمقانہ تبصرے ہیں ۔ وارانسی کی سیول عدالت میں گیانواپی محلے کے اندر واقع جامع مسجد کے حوالے سے ہندو فریق نے عرضی داخل کرکے یہ مطالبہ کیا کہ ویاس جی تہہ خانہ کی چھت پر مسلموں کو نماز پڑھنے سے روکا جائے ۔ عدالت نے جب ہندو فریق کی عرضی خارج کردی تو اس نے مایوس ہوکر اس فیصلہ کے خلاف ضلع عدالت میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔اس سے قبل عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے کر جو فتنہ کھڑا کیا ہے اس کا فائدہ اٹھاکر ہندو فریق نے کمزور چھت کے کسی بھی وقت ٹوٹنے پھوٹنے کو بنیاد بناکر عدالت میں دلیل دی تھی کہ اگر بڑی تعداد میں مسلمان ویاس جی کے تہہ خانہ کی چھت پر نماز ادا کرتے رہیں گے تو اس بات کا قوی امکان رہے گا کہ چھت منہدم ہو جائے ، یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے لہٰذا مسلم طبقہ کے وہاں نماز پڑھنے پر روک لگا دی جائے ۔۔ وہ لوگ بھول گئے کہ اس مسجد کو مودی انتظامیہ نے رشوت لے کر تعمیر نہیں کیاجو چند ماہ میں ٹوٹنے پھوٹنے لگے ۔ سیول جج (سینئر ڈویژن) ہتیش اگروال کی عدالت نے اس دلیل کو مسترد کرکے نماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔
عدالت کے ان احکامات والے دن ہی اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پنڈت دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی میں ‘ہم آہنگی پر مبنی سماج کی تعمیر میں ناتھ پنتھ کی شراکت’ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا، ”یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ لوگ گیان واپی کو مسجد کہتے ہیں جبکہ بھگوان وشواناتھ خود ایک اوتار ہیں”۔انہوں نے اسے یعنی مسجد کی عمارت کو “بھگوان وشوناتھ کا اوتار قرار دے دیا۔ اسے کہتے ہیں ‘جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ‘۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایس پی کے ترجمان عباس حیدر کو کہنا پڑا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے آئین پر حلف اٹھایا اس کے باوجود وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے ۔ حیدر کے مطابق ، عوام نے بی جے پی کو جو مینڈیٹ دیا ہے ، اس کو نظر انداز کرکے انہوں نے عوام سے جڑے مسائل پر بات نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے لیے وہ سماج کو تقسیم کر رہے ہیں”۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق اترپردیش بی جے پی کے ترجمان منیش شکلا نے تو آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ ، ”تاریخی، آثار قدیمہ اور روحانی شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ گیانواپی ایک مندر ہے ”۔ اس بابت ایودھیا میں ہنومان گڑھی مندر کے مہنت راجو داس اور چار قدم آگے نکل گئے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ، ”یہ صرف بدقسمت لوگ ہیں جبکہ گیان واپی خود وشوناتھ کا مندر ہیں۔ اس مہنت کے مطابق ، ”ہم مسلسل کہتے رہے ہیں کہ یہ مندر ہے ، اسے صرف بے وقوف ہی مسجد کہتے ہیں”۔ یعنی مہنت راجو داس کی نظر میں عدالتیں احمق ہیں۔ کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے ۔عدالت میں زیر سماعت معاملے پرجولوگ ایسی بدزبانی کرتے ہیں ان سے بھلا بلڈوزر سے متعلق کیا توقع کی جائے ؟ سپریم کورٹ نے تو حال ہی میں بلڈوزر انصاف کے حوالے سے سخت تبصرے کیے مگر اپنے بلڈوزر استعمال کا دفاع کرتے ہوئے یوگی نے کہہ دیا بلڈوزر دل اور دماغ سے چلایا جاتا ہے حالانکہ جس کے پاس قلب سلیم اور ٹھیک ٹھاک دماغ ہو وہ بلڈوزر کے بجائے اپنی کارکردگی عوام کا اعتماد اور ووٹ حاصل کرتا ہے اور جو اس میں ناکام ہوجائے اسے بلڈوز کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ویسے عدالت اگر چاہے تو حکمرانوں کی عقل ٹھکانے لگا سکتی ہے مگر وہاں بھی خوف اور لالچ کے بلڈوزر تلے انصاف کو روند دیا جاتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے مثبت تبصروں کے بعد سب سے بڑا یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے آخری فیصلے میں متاثرین کے تباہ آشیانوں کو پھر سے تعمیر کرکے دینے حکم ہوگا یا صرف وعظ و نصیحت کرکے اپنی تعریف کروائی جائے گی ۔ان بے گھر ہونے والے متاثرین کو جب تک دوبارہ چھت مہیا نہ کی جائے اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا نہ ملے اس وقت باتیں تو ہوں گی انصاف نہیں ہوگا اور نہ ہی بلڈوزر چلانے والوں پر لگام لگے گی۔ اس دورِ پر فتن میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر سرمایہ داروں کے مفادکی خاطر غریبوں کا گھر اجاڑنے والے حکمرانوں سے جب لوگ سوال کرتے ہیں تو ان کو میکش اکبر آبادی کا یہ شعر سننے کو ملتا ہے
میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے
ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے