وجود

... loading ...

وجود

کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر

پیر 23 ستمبر 2024 کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر

سمیع اللہ ملک
ایک ہاتھ سے ٹوپی سنبھالے بھاگتاہواآدمی سامنے شیڈمیں کھڑی چمکدارکارکے ڈرائیورکے کان میں سرگوشی کرتاہے توفوراباہر کے ماحول میں ایک سراسیمگی اورحرکت پیداہوجاتی ہے۔وہ چمکدارگاڑی جوکچھ دیرپہلے ایک شیڈکی چھاں میں دفترکے سامنے کھڑی تھی،جس پروقفے وقفے سے ڈرائیوراس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گرد صاف کررہاتھا،مکھی تک کو بیٹھنے نہیں دیتاتھا،وہ فوراگاڑی چوکس حالت میں ممکن حدتک دفترکے دروازے کے قریب لاکرکھڑی کردیتاہے اورڈرائیورباہرنکل نگاہیں نیچے کرکیمدب دفترکی طرف منہ کرکے کھڑا صاحب کاانتظارکرتاہے۔اتنے میں بڑے دفترکادروازہ کھلتاہے۔چپراسی بریف کیس اور صبح کی اخباریں ہاتھ میں لئے باہرآتاہے اوردوسراآدمی ہاتھ میں کچھ فائلیں لئے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ ڈرائیورکے پیچھے والی سیٹ کادروازہ کھول کرنہائت سلیقے سے پہلے فائلیں اوراس کے ساتھ بریف کیس کے اوپراخباریں رکھ دیں جاتی ہیں۔پھر ڈرائیورکے ساتھ والی سیٹ کوزورلگا کرآخرممکن حدتک آگے کردیاجاتاہے تاکہ پچھلی سیٹ کے سامنے کافی جگہ آرام سے ٹانگیں پھیلانے کیلئے میسرآجائے۔گرمی کاموسم ہوتو ائرکنڈیشن صاحب کے دفتر سے نکلنے سے بیس منٹ پہلے چلادیاجاتاہے ۔
صاحب بہادرایک شانِ بے نیازی سے برآمد ہوتے ہیں،اردگردموجودلوگ ایک دم ساکت وجامدہوجاتے ہیں،گفتگوکرنے والابات کرنابھول جاتاہے،بے ترتیب یونیفارم والا ٹوپی سیدھی کرلیتاہے اورسگریٹ پیتاہواشخص سگریٹ پھینک دیتاہے یاکہیں چھپا دیتا ہے۔ پچھلادروازہ جوڈرائیورسے دوسری سمت والاہے اسے کھول کرسرجھکائے کوئی شخص کھڑا ہوتاہے۔صاحب بہادرتشریف رکھتے ہیں، اشاروں کامنتظرگاڑی کوخراماں نکالتاہوامنظرسے غائب کردیتاہے۔پوراراستہ صاحب بہادریاتواخباروں کی ورق گردانی کرتے ہیں یا پھر اگرکوئی فائل ضروری محسوس ہوتواسے دیکھاجاتاہے۔وہ حتی الامکان کھانسنے سے بالکل پرہیزکرتاہے اوراگرایساہوجائے توکھانسنے کی تکلیف سے فارغ ہوتے ہوئے اپنی اس حرکت پربڑانادم اورشرمساردکھائی دیتاہے۔
اس پورے سفرمیں ڈرائیورکی حیثیت ایک کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔یوں لگتاہے کہ کہ کمپنی نے سٹیئرنگ،گیئریاسیٹ کی طرح اسے بھی فکس کردیاہے جسے صرف احکامات سننے اوراس پرعمل کرناہے۔وہاں روک دو،ادھر لے چلو،میرایہاں انتظار کرو،میں واپس آرہا ہوں، مجھے یہاں تین گھنٹے لگ جائیں گے اورڈرائیورروبوٹ کی طرح سرہلاکریا پھر منہ سے سعادت مندی کے الفاظ نکالتارہتاہے۔یہ منظرآپ کوہراس دفتریاادارے کے باہرملے گاجہاں کوئی صاحبِ اختیارتشریف رکھتاہے۔کسی سرکاری یاغیر سرکاری کاکوئی امتیاز نہیں۔ وزیر کادفتریاسیکرٹری کا،جرنیل کاہیڈکوارٹریاعدلیہ کی عمارات،کسی پرائیویٹ کمپنی کے دفاترہوں یا بینک کی شاندارعمارت،سب جگہ صاحبانِ طاقت اوروالیانِ حیثیت کیلئے ایک ہی سیٹ مخصوص ہے۔ان کی گاڑی کہیں پہنچے ،لوگ وہی دروازہ کھولنے کیلئے لپکتے ہیں۔
پاکستان میں جب میں یہ سارے مناظردیکھتاہوں تواکثرمیرے ذہن میں یہ سوال اٹھتاہے کہ یہ سب لوگ ڈرائیورکے ساتھ والی سیٹ پرکیوں نہیں بیٹھتے۔کیاوہ آرام دہ نہیں،کیا وہاں ائرکنڈیشن کی ہواصحیح طورپرنہیں پڑتی،کیاوہاں سے راستہ،اردگردکی عمارتیں یا لوگ ٹھیک طرح سے نظرنہیں آتے؟؟؟لیکن ان سب سوالوں کاجواب نفی میں ملتاہے۔یہ سامنے والی سیٹ زیادہ آرام دہ بھی ہے اور ائرکنڈیشن کی ہوا بھی اگلی سیٹ پرزیادہ لطف دیتی ہے،باہرکامنظربھی صحیح طورپرنظرآتاہے توپھراگلی سیٹ خالی کیوں رہتی ہے یاپھراس میں سٹاف آفیسریاپی اے کیوں بٹھایاجاتاہے؟
دراصل یہ کہانی اس نفرت اورتکبرکی ہے جس میں ڈرائیورکی حیثیت ایک انسان سے کم ہوکربادشاہوں کے رتھ اورمہاراجوں کی بڑی بڑی سواریاں چلانے والوں کی ہواکرتی تھیں ۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک اعلی مرتبہ اورمقام رکھنے والی شخصیت ڈرائیور کے برابرآکر بیٹھ جائے اوردیکھنے والے ان دونوں میں تمیزتک نہ کرسکیں کہ کون افسرہے اورکون معمولی حیثیت کا ڈرائیور۔ ایک زمانہ ان متکبر افسران، وزرا، جج،جرنیل اوراعلی عہدیداروں پرایساآیاکہ ان کو چھوٹی سوزوکی پرسفرکرناپڑاجس کی پچھلی سیٹ انتہائی بے آرام اورکم جگہ والی تھی لیکن تکبر اپنا راستہ خودبناتاہے۔اگلی سیٹوں کومکمل طورپرفولڈکیاجانے لگااورآقاومالک کی تمیزکوبرقراررکھنے کے نئے نئے طریقے دریافت کئے گئے۔
یہ رویہ ان ساری قوموں پرگزراہے جنہوں نے انسانوں کوغلام اورمحکوم بنانے کے ڈھنگ ایجادکئے تھے۔امریکامیں” جم کرو”کے قوانین کے تحت بسوں میں کالوں کی سیٹیں گوروں کی سیٹوں سے علیحدہ یعنی پچھلی طرف ہوتیں اوراگرکوئی کالااگلی سیٹ پر بیٹھ جاتاتواسے گولی ماردی جاتی اوراگرکوئی گوراپچھلی سیٹ پربیٹھنے کی جسارت کرتاتولوگ اسے طعنے مارمار کر ماردیتے ۔لندن شہرمیں آج بھی کالے رنگ کی ٹیکسیوں کارواج ہے جس میں ڈرائیورکی سیٹ اورسواریوں کے درمیان شیشے کی دیوار فکس ہے جس کی کھڑکی صرف مسافرکھول سکتا ہے تاکہ ڈرائیورکی حیثیت،مرتبہ اوراس سے بات کرنے کاتعین بھی وہی کرے جوپچھلی سیٹ پربراجمان ہے۔صدیوں تک فرعونوں، شہنشاہوں،آمروں،ڈکٹیٹروں اوران کے چھوٹے چھوٹے کارپردازوں کی سواریاں بھی ایسی تھیں کہ ان کاعام لوگوں سے کوئی تعلق نہ رہے۔ دھول اڑاتی یہ سواریاںجہاں عوام الناس کا مذاق اڑاتی تھیں وہاں ان سواریوں پرسفرکرنے والے بھی انسانوں کے درمیان تمیز، فرق اورآقااورغلام کے قانون میں بٹے ہوئے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی ایک مناظرایسے بھی یہاں دیکھنے کوملتے ہیں جس کو دیکھتی آنکھیں اپنے اندرصدیوں محفوظ کر لیتی ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان کے فوراسٹار جنرل میرے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک ٹریفک سگنل پرگاڑی کھڑی کی توساتھ والی لین میں برطانیہ کے وزیراعظم بھی اشارہ کھلنے کے منتظرتھے۔میں نے فوری طور پراپنے مہمان کو ساتھ والی لین کی طرف دیکھنے کی دعوت دی اور کہا” کیا آپ جانتے ہیں کہ اس گاڑی میں پچھلی سیٹ پربیٹھاہواشخص اس ملک کاوزیرِاعظم ہے ۔میں نے وزیراعظم کی طرف دیکھ کرجونہی ہاتھ ہلایاتواس کے جواب میں اس نے کئی مرتبہ ہاتھ ہلاتے ہوئے شکریہ اداکیااور اسی اثنا میں ٹریفک سگنل کھل گیااورہم دونوں اپنی اپنی راہ پرچل دیئے۔ میرے مہمان نے باقی ساراسفرنہائت خاموشی میں گزارا، پتہ نہیں اس خاموشی میں کوئی ندامت تھی یا میرے سوال کاان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ہمارے ہاں صدراوروزیراعظم اول توعوام سے کوسوں دورہیں لیکن اگرکبھی نکلناپڑے توسینکڑوں گاڑیوں کے سائرن بجاتے ہوئے قافلے کے جلومیں نکلتے ہیں۔اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس بھی بیس گاڑیوں کے سکواڈمیں آتے جاتے ہیں،ملک کے وزیرِداخلہ جن کے ذمے اس ملک کے شہریوں کی سلامتی کی ذمہ داری ہے،وہ اس وقت کہیں نہیں جاتے جب تک ایک بھاری سیکورٹی گارڈان کوچاروں طرف سیکورٹی فراہم نہیں کرتے۔اب تومعمولی وزرابھی سیکورٹی اورسائرن والی گاڑیوں کے بغیرسفرنہیں کرتے۔تکبر ،غروراور گھنٹوں ساتھ چلنے، آرام پہنچانے والے شخص سے کراہت اوردوری کے اس ماحول میں پتہ نہیں کیوں مجھے اپناماضی یاد آجاتا ہے اوراسلاف کے وہ معیار آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں ۔روم کے بادشاہوں کی طرح رہن سہن اورلباس پہننے والوں عیسائیوں کے بیت المقدس پرجب پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے مسلمانوں نے فتح حاصل کی توشہرحوالے کرنے کیلئے خلیفہ وقت حضرت عمرفاروق کاانتظارتھا۔ایک گھوڑاجس کے سم گِھس کربیکارہوچکے تھے،رک رک کرقدم رکھتاتھا،اس کے ساتھ خلیفہ وقت اورفاتح ایران وشام عمرابن خطاب اورغلام موجود۔طے ہوا کہ آدھاراستہ غلام سواری کرے گااورآدھاراستہ خلیفہ ۔بیت المقدس قریب آیاتوباری غلام کی آگئی اورپھرتاریخ نے انسانی احترام کا عجیب و غریب منظردیکھا۔غلام گھوڑے پرسواراور خلیفہ وقت باگ تھامے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔شاہی کروفراورلباس پہنے رومی عیسائی صرف ایک فقرہ بول سکے”ایساہی شخص عزت کا مستحق ہے اورایسے ہی شخص کوفتح نصیب ہواکرتی ہے”۔اس تاریخی فقرے کے بعد بھی اگر کوئی مجھ سے سوال کرتاہے کہ ہم دنیامیں ذلیل ورسواکیوں ہیں،بے آبرواوربے آسراکیوں ہیں،تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی!
ہمارے وزیراعظم امریکا21ستمبرکوبرطانیہ اورامریکاکے دورے پرروانہ ہورہے ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں عالمی مالیاتی اداروں سے بھی ہونی ہیں جن کے بارے میں ان کوکہناہے کہ یہ ادارے ناک کی لکیریں نکلوانے کے بعدسودی قرض جیسی لعنت دینے کاوعدہ کریں گے۔
رہے نام میرے رب کاجس کے ہاتھ میں عزت وذلت ہے۔
یہ آرزوتھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگروہ شخص تورستہ بدلتاجاتاہے
وہ بات کہہ،جسے دنیابھی معتبرسمجھے
تجھے خبرہے،زمانہ بدلتاجاتاہے


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر