... loading ...
زریں اختر
خان صاحب جامعہ اُردو ، شعبہ ابلاغ ِ عامہ کی تاریخ اور میرے زندگی کا فراموش کردینے والا کردار نہیں۔ میری تحریر معروضی و موضوعی دونوں سطحوں پر قارئین کی بصیرتوں کی نذر ۔ معروضی حقیقتوں کا بیان پہلے ۔جامعہ کا درجہ ملنے کے بعد میقاتی نظام تعلیم (سمسٹر سسٹم ) کے لیے سالانہ نصاب کی جگہ میقاتی نصاب بنانے کا مرحلہ تھا ۔ خوش قسمتی سے شعبے کو ایک ایسے استاد میسر آگئے جو انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی خصوصی مہارت رکھتے تھے ، نصاب تشکیل پاگیا۔ شعبے کی پرانی عمارت میں سیمینار لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔عالمی کانفرنسیں ہوئیں،ان کی روداد بھی چھپیں، تحقیقی مجلے کااجراء ہوا، شعبے کا تعارف اور تاثر بنا۔ آگے چل کر شعبے کے نئی عمارت میں منتقلی کے بعد ٹی وی لیب اور ریڈیو لیب بنیں (اب ریڈیو لیب عملی طور پر ناکارہ ہوچکی ہے اور ٹی وی لیب میں کام کروانے والا کوئی نہیں)۔
اس کے بعد نصاب کی مارکنگ اسکیم میں تبدیلیاں کی گئیں ، پہلے نظری ٧٠ اور عملی ٣٠ نمبر کا ہوتا تھا ، پھر ٥٠ ، ٥٠ نمبر کا ہوا ، اس کی دلیل یہ پیش کی گئی کہ عملی زندگی میں داخل ہونے کے لیے اس پرطالب علم کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے ، اب مارکنگ اسکیم مضامین کی نظری اور عملی نوعیت کے پیش ِ نظر ٦٠ اور ٤٠ کی ہے ۔ نصاب کی تیاری سے لے کر اس کے نفاذ کے مراحل تک ، لگتا یہی تھا کہ سب شعبے کی پیشہ ورانہ کارکردگی میں بہتری کے لیے ہیں لیکن ”عمل کادارومدار نیتوں پر ہے”، اس کا مقصد اپنے لوگوں کی شعبے میں بھرتی تھا سو شعبے کی پیشہ ورانہ بہتری کا اس سے تعلق نہیںبنا۔
حالیہ سلیکشن بورڈ کے نتیجے میں ہونے والی بھرتیوں کے بارے میں اپنے سابقہ تجربے کی بناپر دھڑکے کی سرحدوں کو چھوتا ہوا اندیشہ تھا کہ ان کے پیچھے بھی خان صاحب کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہوں گے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں۔ اس پر بھی شکر کیا کہ خاتون استاد ماڈل نہیں لگتیں اور صاحب استادحالات زار کا احساس رکھتے ہیں۔ (وگرنہ شوقین ایسی خواتین اساتذہ کو شوق سے رکھ لیتے تھے جو استاد کم اور ماڈل زیادہ دکھتی تھیں)۔موجودہ تبدیلی بہر حال خوش آئند ہے۔
موضوعیت کی طرف آنے سے قبل بارے سماجی معروضیت کا کچھ بیاں ہو جائے ۔ پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کئی راہیں اس معاشرے میں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ ریاست اور قوم کی بد قسمتی کہ تعلیم کا شعبہ ان کے وجود سے پاک نہیںرہ سکا بلکہ اس شعبے اور پیشے سے وابستہ افراد اپنی کاروائیوں میں قانون کے تمام تقاضے پورے کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں، ہم جیسے تو بس ان پیشہ ورانہ اور قانونی قباحتوں کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہ راہیں سیاسی وابستگیاں ، اقربا پروری، لابنگ اور جسمانی تعلقات میں پیوستہ و اُستوار ہیں۔
اب معذرت کے ساتھ موضوعیت ، رب ِزِدنی علماََ(ترجمہ : اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما)، اخلاص کے ساتھ جاننے کی خالص خواہش روح میں تھی کہ شعور میں ( افلاطون روح پر یقین رکھتاہے ، یووال نوح ہراری نہیں رکھتا)لیکن میرا مسئلہ یہی تھا۔ پرسوںکی بات ہے١٩ ِستمبر بروز جمعرات جامعہ جاتے ہوئے راستے میں ایک خیالی سوال ذہن میں ابھرا جس نے اس تحریر کے لیے مہمیز کا کام دیا ، وہ یہ کہ خان صاحب نے ہر راہ کے مسافر کو راہ دی ، تو مجھے ہی کیوں نہیں؟ خان صاحب کے دور میں میں نے سوچا کہ دنیا میں جتنے لوگ ترقی کر رہے ہیں ان سب کے پیچھے خان صاحب ہی تھوڑی ہیں، لیکن اس خیال نے اس بڑی بُری حقیقت کو فراموش کردیا کہ جہاں میں ہوں وہاں وہی ہیں، ان کے بعد ان کے جانشین اور ان کی کی ہوئی بھرتیاں۔ مجھے اپنی ناکامی کا قلق ہے لیکن اپنی راہ پر قائم رہنے کی کامیابی بھی کم اطمینان کا باعث نہیں۔
دل نا امید نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر ،شام ہی تو ہے
خان صاحب شعبے میں سیاست کرنے والے ، کریں
خان صاحب تعلقات میں کسی بھی قسم کی حد بندی کے قائل نہیں، نہ سہی ، وہ جانیں
تو پیشہ ورانہ بنیادوں پر جاننے کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھنے والے ہی ان کو کیوں قبول نہیں؟
شعبے میں ہر طرح کی بھرتیاں ہوئیں، میری بھرتی تو ہوچکی تھی ، مجھ جیسے لوگ ہی شعبے کی ترقی اور تحقیق میں آگے بڑھنے کے لیے مضرتھے ؟
اگرتھے مضر ، تو اب بے ضرر کیاہے ؟
خان صاحب کی سیاسی فراست کے آگے پیشہ ورانہ ذکاوت پنپ نہ سکی ، دم توڑ گئی ، مشیر وں میں بھی کوئی ایسا نہیں کہ پوچھے کہ اسی کا رستہ کیوں کاٹنا ہے ؟
آپ نے لوگوں کو کسی کے بارے میںاس طرح کی رائے دیتے سنا ہوگا کہ”جی ! لوگ ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن میرے ساتھ تو انہوں نے بھلا ہی کیا تھا، تو میں انہیں براکیوں کہوں؟’۔ میں بھی اسی طرح سوچتی اور کہتی کہ’ خان صاحب نے اگرشعبے میں سیاست کی تو کی لیکن میری بھی معاونت کی ، باقی میں کیا کر سکتی ہوں؟’۔ میری سوچ کے آگے اخلاقی حد بندیاں قائم ہوجاتیں کہ ‘میں کیوں برا کہوں’؟ اب میرے پاس خان صاحب کے حصے کا وہ باقی بچا جس پر کہنے کو بہت کچھ ہے اور آگے بھی رہے گا، اور میں اُن اخلاقی حدبندیوں سے آزاد سو چتی ہوں کہ یہ زیادہ بہتر ہے یا وہ زیادہ بہتر ہوتا؟
شعبے کامستقبل ؟ اندیشے ہیں، توقعات نہیں ،بد گمانی نہیں کرتے ، خوش گمانی کرتے ہیں کہ خان صاحب کے پیش رو( لوگ ان کو موقع پرست سمجھتے ہیںاور ہر عقل مند یہی سمجھتا ہے کہ نظام کا پرزہ بننے میں فائدہ زیادہ ہے ، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ، شاعری بھی جا بے جا کتنا ساتھ دیتی ہے )خان صاحب سے بہتر اگر کوئی ایک کام کرسکتے ہیں تو وہ یہی کہ شعبے میں آنے والے اپنی اپنی راہوں کے مسافروں کے لیے جو آپ کی راہ کا ہو اسی کے لیے راہ ہموار نہ کریں ، علم کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو بھی راہ دیں۔
ادارے کی تاریخ یا شعبے کی تاریخ میں کس کا نام کن معنوں میں آتاہے ،اس کا انحصار تاریخ لکھنے والے پر نہیں فرد کے کردار پر ہے۔ کیا بہت دیر ہوچکی ہے؟ یا دیر کبھی نہیں ہوتی؟