وجود

... loading ...

وجود

مت سمجھو ہم نے بھلا دیا !

پیر 23 ستمبر 2024 مت سمجھو ہم نے بھلا دیا !

زریں اختر

خان صاحب جامعہ اُردو ، شعبہ ابلاغ ِ عامہ کی تاریخ اور میرے زندگی کا فراموش کردینے والا کردار نہیں۔ میری تحریر معروضی و موضوعی دونوں سطحوں پر قارئین کی بصیرتوں کی نذر ۔ معروضی حقیقتوں کا بیان پہلے ۔جامعہ کا درجہ ملنے کے بعد میقاتی نظام تعلیم (سمسٹر سسٹم ) کے لیے سالانہ نصاب کی جگہ میقاتی نصاب بنانے کا مرحلہ تھا ۔ خوش قسمتی سے شعبے کو ایک ایسے استاد میسر آگئے جو انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی خصوصی مہارت رکھتے تھے ، نصاب تشکیل پاگیا۔ شعبے کی پرانی عمارت میں سیمینار لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔عالمی کانفرنسیں ہوئیں،ان کی روداد بھی چھپیں، تحقیقی مجلے کااجراء ہوا، شعبے کا تعارف اور تاثر بنا۔ آگے چل کر شعبے کے نئی عمارت میں منتقلی کے بعد ٹی وی لیب اور ریڈیو لیب بنیں (اب ریڈیو لیب عملی طور پر ناکارہ ہوچکی ہے اور ٹی وی لیب میں کام کروانے والا کوئی نہیں)۔
اس کے بعد نصاب کی مارکنگ اسکیم میں تبدیلیاں کی گئیں ، پہلے نظری ٧٠ اور عملی ٣٠ نمبر کا ہوتا تھا ، پھر ٥٠ ، ٥٠ نمبر کا ہوا ، اس کی دلیل یہ پیش کی گئی کہ عملی زندگی میں داخل ہونے کے لیے اس پرطالب علم کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے ، اب مارکنگ اسکیم مضامین کی نظری اور عملی نوعیت کے پیش ِ نظر ٦٠ اور ٤٠ کی ہے ۔ نصاب کی تیاری سے لے کر اس کے نفاذ کے مراحل تک ، لگتا یہی تھا کہ سب شعبے کی پیشہ ورانہ کارکردگی میں بہتری کے لیے ہیں لیکن ”عمل کادارومدار نیتوں پر ہے”، اس کا مقصد اپنے لوگوں کی شعبے میں بھرتی تھا سو شعبے کی پیشہ ورانہ بہتری کا اس سے تعلق نہیںبنا۔
حالیہ سلیکشن بورڈ کے نتیجے میں ہونے والی بھرتیوں کے بارے میں اپنے سابقہ تجربے کی بناپر دھڑکے کی سرحدوں کو چھوتا ہوا اندیشہ تھا کہ ان کے پیچھے بھی خان صاحب کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہوں گے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں۔ اس پر بھی شکر کیا کہ خاتون استاد ماڈل نہیں لگتیں اور صاحب استادحالات زار کا احساس رکھتے ہیں۔ (وگرنہ شوقین ایسی خواتین اساتذہ کو شوق سے رکھ لیتے تھے جو استاد کم اور ماڈل زیادہ دکھتی تھیں)۔موجودہ تبدیلی بہر حال خوش آئند ہے۔
موضوعیت کی طرف آنے سے قبل بارے سماجی معروضیت کا کچھ بیاں ہو جائے ۔ پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کئی راہیں اس معاشرے میں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ ریاست اور قوم کی بد قسمتی کہ تعلیم کا شعبہ ان کے وجود سے پاک نہیںرہ سکا بلکہ اس شعبے اور پیشے سے وابستہ افراد اپنی کاروائیوں میں قانون کے تمام تقاضے پورے کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں، ہم جیسے تو بس ان پیشہ ورانہ اور قانونی قباحتوں کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہ راہیں سیاسی وابستگیاں ، اقربا پروری، لابنگ اور جسمانی تعلقات میں پیوستہ و اُستوار ہیں۔
اب معذرت کے ساتھ موضوعیت ، رب ِزِدنی علماََ(ترجمہ : اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما)، اخلاص کے ساتھ جاننے کی خالص خواہش روح میں تھی کہ شعور میں ( افلاطون روح پر یقین رکھتاہے ، یووال نوح ہراری نہیں رکھتا)لیکن میرا مسئلہ یہی تھا۔ پرسوںکی بات ہے١٩ ِستمبر بروز جمعرات جامعہ جاتے ہوئے راستے میں ایک خیالی سوال ذہن میں ابھرا جس نے اس تحریر کے لیے مہمیز کا کام دیا ، وہ یہ کہ خان صاحب نے ہر راہ کے مسافر کو راہ دی ، تو مجھے ہی کیوں نہیں؟ خان صاحب کے دور میں میں نے سوچا کہ دنیا میں جتنے لوگ ترقی کر رہے ہیں ان سب کے پیچھے خان صاحب ہی تھوڑی ہیں، لیکن اس خیال نے اس بڑی بُری حقیقت کو فراموش کردیا کہ جہاں میں ہوں وہاں وہی ہیں، ان کے بعد ان کے جانشین اور ان کی کی ہوئی بھرتیاں۔ مجھے اپنی ناکامی کا قلق ہے لیکن اپنی راہ پر قائم رہنے کی کامیابی بھی کم اطمینان کا باعث نہیں۔
دل نا امید نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر ،شام ہی تو ہے
خان صاحب شعبے میں سیاست کرنے والے ، کریں
خان صاحب تعلقات میں کسی بھی قسم کی حد بندی کے قائل نہیں، نہ سہی ، وہ جانیں
تو پیشہ ورانہ بنیادوں پر جاننے کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھنے والے ہی ان کو کیوں قبول نہیں؟
شعبے میں ہر طرح کی بھرتیاں ہوئیں، میری بھرتی تو ہوچکی تھی ، مجھ جیسے لوگ ہی شعبے کی ترقی اور تحقیق میں آگے بڑھنے کے لیے مضرتھے ؟
اگرتھے مضر ، تو اب بے ضرر کیاہے ؟
خان صاحب کی سیاسی فراست کے آگے پیشہ ورانہ ذکاوت پنپ نہ سکی ، دم توڑ گئی ، مشیر وں میں بھی کوئی ایسا نہیں کہ پوچھے کہ اسی کا رستہ کیوں کاٹنا ہے ؟
آپ نے لوگوں کو کسی کے بارے میںاس طرح کی رائے دیتے سنا ہوگا کہ”جی ! لوگ ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن میرے ساتھ تو انہوں نے بھلا ہی کیا تھا، تو میں انہیں براکیوں کہوں؟’۔ میں بھی اسی طرح سوچتی اور کہتی کہ’ خان صاحب نے اگرشعبے میں سیاست کی تو کی لیکن میری بھی معاونت کی ، باقی میں کیا کر سکتی ہوں؟’۔ میری سوچ کے آگے اخلاقی حد بندیاں قائم ہوجاتیں کہ ‘میں کیوں برا کہوں’؟ اب میرے پاس خان صاحب کے حصے کا وہ باقی بچا جس پر کہنے کو بہت کچھ ہے اور آگے بھی رہے گا، اور میں اُن اخلاقی حدبندیوں سے آزاد سو چتی ہوں کہ یہ زیادہ بہتر ہے یا وہ زیادہ بہتر ہوتا؟
شعبے کامستقبل ؟ اندیشے ہیں، توقعات نہیں ،بد گمانی نہیں کرتے ، خوش گمانی کرتے ہیں کہ خان صاحب کے پیش رو( لوگ ان کو موقع پرست سمجھتے ہیںاور ہر عقل مند یہی سمجھتا ہے کہ نظام کا پرزہ بننے میں فائدہ زیادہ ہے ، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ، شاعری بھی جا بے جا کتنا ساتھ دیتی ہے )خان صاحب سے بہتر اگر کوئی ایک کام کرسکتے ہیں تو وہ یہی کہ شعبے میں آنے والے اپنی اپنی راہوں کے مسافروں کے لیے جو آپ کی راہ کا ہو اسی کے لیے راہ ہموار نہ کریں ، علم کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو بھی راہ دیں۔
ادارے کی تاریخ یا شعبے کی تاریخ میں کس کا نام کن معنوں میں آتاہے ،اس کا انحصار تاریخ لکھنے والے پر نہیں فرد کے کردار پر ہے۔ کیا بہت دیر ہوچکی ہے؟ یا دیر کبھی نہیں ہوتی؟


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر