... loading ...
ب نقاب
ایم آر ملک
کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ دیکھتے ہیں ،سماجی اور سیاسی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے،کسی نے کہا تھا ”اُچے برج لہور دے ” جن کے سائے تلے لاکھوں انسانوں کااجتماع بے قراری کا اظہار تھا جس کا رد عمل تھا کہ 2024کا الیکشن عمران خان نے مافیا کے ہاتھوں سے چھین لیا ،پنجاب کارڈ اب عمران کے ہاتھ میں ہے،اب کان ”جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ نہیں ”جاگ پاکستان جاگ ”کا نعرہ سننا چاہتے ہیں۔ اس جلسہ پر ملک عزیز شلولی کا موقف ہے کہ یہ سونامی اب تھمنے والا نہیں لیپ ٹاپ ،پیلی ٹیکسیاں ،سولر لیمپ ،مخصوص طبقہ کیلئے بنائے گئے دانش ا سکولز ،میٹرو اور اورنج ٹرین کے ناٹک اب اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ سکتے۔ کیا کراچی صوبہ سندھ سے کوئی الگ شہر ہے جہاں جا بجافلتھ ڈپو بنے ہوئے ہیں ،فارم 47کی عوام پر مسلط جعلی قیادت نے روشنیوں کے شہر کی پیشانی پر اپنے دور اقتدار میں ایسی تقدیر لکھی ہے جس نے باقاعدہ ثابت کیا کہ کراچی جیسے صوبہ سندھ کا حصہ نہیں۔
خوشاب کے ملک عمر اسلم اعوان ،ملک مسعود کنڈان ،ڈھوکڑی کے سرفراز مبارکی ،راولپنڈی کے انجینئر افتخار چودھری کی اس نظام سے بغاوت کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں، تبدیلی کی خواہش لئے وہ اک عرصہ سے نوجوانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ان نظریاتی ورکروں کے فیصلے بڑے انسانوں اور وطن عزیز کیلئے وژن رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کے فیصلے ہیں ۔قصر زردار کے مکیں اور رائے ونڈ کے شریفوں نے اپنے طبقہ کے مفادات کے نظام کو بچانے اور مسلط رکھنے کیلئے معاشرے کو تاراج اور قبال کی دھرتی کے باسیوں پر اپنے دور ِ اقتدارمیں بے رحمانہ معاشی اور سماجی مظالم ڈھائے ،ان کی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار نے سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی میں سسکتے 25کروڑ بے یارو مدد گار انسانوں کیلئے کچھ نہیں چھوڑا ،باری کا کھیل جاری رکھنے والوں نے مہنگائی کو جان لیوا ،غربت کو اذیت ناک ،بنیادی ضروریات کو نایاب اور استطاعت سے باہر کر دیا آج بھی اسی کا شاخسانہ ہے کہ ان کی لے پالک بیوروکریسی عمران کے نظریاتی ورکروں کے خلاف 9مئی کی آڑ میں انتقامی روش اپنائے ہوئے ہے۔ حالیہ دور میں مہنگائی بھی شریفوں کی لوٹ مار کا شاخسانہ ہے ،25کروڑ عوام کی زندگی کو جہنم بنا نے والے ایک بار پھر مفادات کی پچ پر اکٹھے ہو چکے ہیں ،اُن کی ہوس ،اُن کی عادت ،اُن کی خصلت اور کردار بن چکی ہے ۔میثاق جمہوریت کے بعد ان کے اپنے دور اقتدار میں فرینڈلی اپوزیشن کی سر پرستی میں کرپشن معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں زہر کے انجکشن کی طرح سرائیت کر گئی ،کرپشن کے بغیر کسی صوبائی اور وفاقی ادارہ کے چلنے اور اُس کا وجود اور کار کردگی ممکن نہ رہی ،وطن عزیز میں محنت کشوں کے ارمان جل کر خاکستر ہوگئے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ،ماڈل ٹائون کے سانحہ سے عوام ابھی تک نہیں نکل سکے ۔مجرمانہ حکمرانی کو جواز بخشنے کیلئے پنجاب کے حکمرانوں کو پورا صوبہ صرف لاہور میں نظر آیا مگر لاہور تو کبھی بھی ایک نہیں رہا۔ گلبرگ ،ڈیفنس ،اور پوش آشیانہ اسکیموں کے بیچوں بیچ لاکھوں مفلوک الحال ،بے آسرا ،سماجی و معاشی بے بسی کے شکار محنت کشوں کی زندگیاں اتنی ہی سستی ہیں جتنی چوٹی ، روجھان ،کوٹ سلطان،راجن پور ،خان پور ،صادق آباد کی زندگیاں ، باری کا کھیل جاری رکھنے والی عوام پر مسلط دونوں پارٹیاں سیاسی نظریات تک سے عاری ہو گئیں۔ نظریاتی ورکروں کے انقلابی نظریات کو لکشمی دیوی کے چرنوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا،یہ اور بات کہ عمران خان نے بھی نظریاتی ورکروں کو اپنے دور اقتدار میں نظر انداز کیا مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں پارٹیوں کے جانثار ورکرز شدید مایوسی ،لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدوجہد اِن کی بے رحم جمہوری منڈی میں نیلامی کیلئے لیکر پھرتے رہے ،سسکتے ،آہ و بکا کرتے رہے مگر سرمائے کے اقتدار میں اُن کی دال نہ گل سکی ،اِن کے جرائم پیشہ وزیر ،مجرم حواری صاحب اقتدار رہے۔ جمہوریت کے نام پر سرمائے کی آمریت میں جبر پوری وحشت کیساتھ مظلوم عوام کامعاشی ،سماجی اور اقتصادی قتلِ عام کرتا رہا ،ان جمہوری حکمرانوں نے باری کے کھیل میںسرمائے کی جمہوریت ، اپنی طاقت ،اقتدار اور بالا دستی کو قائم رکھا ان کے اعمال وہی رہے ،منی لانڈرنگ کے ذریعے وطن عزیز کی دولت بیرون ملک منتقل ہوتی رہی ان کا استحصال وہی رہا ،باری کا کھیل جاری رکھنے کیلئے اسمبلیاں نورا کشتی کے اکھاڑے بنے رہے ، جس طرح آج ہیں آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں عوام پر من پسند مسلط کردہ آمر کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے شریف زادے عوام کی غربت ،ذلت ،اذیت ،محرومی ،بے بسی ،مجبوری ،عذابو ں سے بھری زندگی کے زخموں پر تضحیک آمیز ہنسی ہنستے رہے ،لے پالک میڈیا کے کوٹھوں کا کاروبار عروج پر رہا حتیٰ کہ شریفوں کے راتب پر پلنے والے منشیوں نے عوامی شعور کو رائے ونڈ کے محلات کی جانب موڑنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگارہے ہیں ،اپنے لفظوں سے مکروہ چہروں پر عوامی مسیحائی کا جعلی نقاب لگاکر پیش کررہے ہیں مگر قلم کی قسم تو ربِ ذوالجلال نے کھائی بخدا یہ کسی لٹیرے کیلئے ایک لمپن (غنڈہ گرد )کا کردار نہیں ہو سکتی۔ کسی کا گماشتہ اسے خواہ کسی بھی شکل میں استعمال کرے ۔یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے بیروزگاری کے ہاتھوں مفلوج ہوتی زندگی سے تنگ نوجوانوں کے کھولتے ہوئے غیض و غضب نے نام نہاد خادم اعلیٰ کی قیادت میں باری کے کھیل کو جاری رکھنے کیلئے دکھاوے کی اپوزیشن کے ظاہری جمود کو8فروری کے انتخابات میں اپنی قوت سے پاش پاش کرڈالا ،کاہنہ لاہور کے جلسہ میں شریفوں اور زرداریوں کی معاشی پالیسیوں کے خلاف انتقام کی آگ سے بھرے غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اکثریت متحرک ہوئی ہے ،سسکتی ہوئی انسانیت ، ہزاروں بچوں کی بھوک کی وجہ سے روزانہ اموات ،ادویات کی مہنگائی سے بزرگوں کی قبل از وقت زندگی چھیننے کا کھیل ، علاج کے فقدان سے لاکھوں مائوں کا دوران زچگی دم توڑ دینا ،بیروزگاری کی ذلت میں سلگتی جوانیاں ،غربت ننگ اور افلاس کی اندھی کھائی میں گری رعایا ،بجلی ،پانی اور دوسری سہولیات کی قلت سے مجروح زندگی پر ہونے والا بے ہودہ سیاسی مجرا اب عوام دیکھنے کے قابل نہیں رہے ،عمران خان نے پہلی بار یہ احساس اجاگر کیا ہے کہ غلامانہ سوچ ضمیر کی تجارت ہوتی ہے ،حاکم علی زردار ی کے بیٹے اور بھٹو کی پھانسی پر ماڈل ٹائون میں مٹھائیاں بانٹنے والے شریف کے بیٹوں کے جھانسے میں اب عوام نہیں آئیں گے۔ امریکہ سے فنڈنگ لینے والوں نے عوام کو بے وقوف بنا کر عوام سے بھٹو چھینا مگر اس بار ایسا شاید نہ ہوسکے ،ظلم جبر ،لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کو اب اس زعم سے نکلنا ہوگا کہ ایسا سب کچھ چلتا رہے گا ،زمیں یوں ہی جامد رہے گی ،سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش اُن کے اشاروں کی محتاج رہے گی ،نہیں اب ایسا نہیں ہوگا سماج میں رونما ہونے والے مظاہر کے اپنے اصول ہوتے ہیں جن کا اظہار کبھی کبھی غیر معمولی ہوا کرتا ہے،ماضی کے اندھیروں کی نحیف آوازوں کا شور بعض اوقات زیادہ اس لیئے آتا ہے کیونکہ اُس وقت معاشرے میں سیاسی جمود کا ایک ہولناک سناٹا ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ عرصہ پر محیط نہیں رہ سکتا برداشت جب ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے ،سوچیں بدلتی ہیں ،شناخت بدلتی ہے ،حوصلے اور جراتیں جاگتی ہیں ،ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران کے نظریئے کی للکار ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف ہے۔
عمران خان نے موجودہ نظام کے خلاف جس طرح انقلابی بغاوت اور عوامی سر کشی کی بنیاد رکھی اِ س کی اُمید بہت کم تھی مگر یہ بغاوت ،یہ عوامی سرکشی اس نہج پر آگئی کہ یہ دو نظریوں کی جنگ بن گئی وہ ساری قوتیں جو ”خاندانی سیاست بچائو ”کی حامی تھیں عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال پر جن کی سیاست کی سانسیں چل رہی تھیں اُن کو اپنی ”سیاست ”کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ایک جعلی فورم پر اکٹھی ہو گئیں اور ”اپنی سیاست”کو بچانے کیلئے اُن کا منافقانہ کردار اُبھر کر سامنے آیا ۔اِس دھرتی پر جہاں78برسوں میں ہر آس ٹوٹی ،ہر اُمید پامال ہوئی ، لاتعداد مرتبہ میدانِ کارزار لگے عوام اپنی حقیقی منزل سے محروم رہے 21ستمبر کو ایک ایسے پاکستان کی بنیادیں استوار ہوئیں،جنہوں نے 9مئی کے موجد مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف توڑ ڈالا ، عوامی طاقت سے زنجیریں ٹوٹ گریں گی ، محرومیاں ،مجبوریاں ،محتاجیاں ،ذلتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والی ہیں، انسانیت سرخرو ہونے والی ہے اور عمران کی قیادت میں ان ذلتوں کے باوجود عوام سچ پر کھڑے ہیں ،منظم ہیں کہ کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ محسوس کرتے ہیں ، سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر بر پا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔