... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
نبی کریم حضرت محمدۖ کا یوم ولادت ہم نے پورے دھوم دھام سے منایا بطور مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم آپ کی بتائی ہوئی باتوں پر مکمل عمل کریں۔ انکی زندگی ہمارے لیے ضابطہ حیات ہے لیکن ہم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپ ۖ نے جھوٹ اور چوری سے منع کیا لیکن ہم تو کیا ہمارے حکمران بھی جھوٹے وعدے کرنے سے باز نہیں آتے۔ الیکشن سے پہلے جتنے بھی وعدے کیے جاتے رہے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا۔اور بطور مسلمان ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم جھوٹ پر جھوٹ بول کر دھوکہ دہی سے اقتدار حاصل کرلیں اور پھر اپنے وعدوں سے مکر جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں سے خودکشی کی خبر نہ آتی ہو۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر پریشان ہیں کہ انہیں سوائے موت کے اور کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ خاص کر جب سے ملک میں بجلی کی قیمتیں بے قابوہوئی ہیں تب سے لوگ اپنی جان دینے پر تلے ہوئے ہیں۔شکر ہے کہ وہ کسی اور کی جان نہیں لے رہے ۔وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ ریلیف کے معاملے پربھی مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بجلی کے بلوں میں14 روپے فی یونٹ ریلیف صرف سنگل فیزمیٹر صارفین تک محدود ہوکر رہ گیا۔ تھری فیزمیٹرصارفین اس ریلیف سے محروم ہیں۔ مہنگائی کا عذاب تو ہمارے گلے پڑا ہی ہوا ہے، ساتھ میں ہماری جہالت بھی اپنے عروج پر ہے۔ ہم جتنے مرضی پڑھ لکھ جائیں لیکن جو معاشرہ ہم نے تشکیل دیدیا ہے اس میں رہ کر جاہل ہی رہیں گے۔ ہمارے ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لوگ جب کسی ترقی پزیر ملک میںجاتے ہیں تو وہ بھی انہی کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ پھر جب وہ کچھ عرصہ بعد پاکستان واپس آتے ہیں تو انہیں ہمارا یہ معاشرہ عجیب سا لگتا ہے جبکہ حکومتی خرچ پر باہر سے پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان آنے والاڈاکٹر بھی کچھ عرصے بعد ہمارے معاشرے کے رنگ میں ڈھل کر جاہلوں کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں رہنے والے تمام کے تمام پی ایچ ڈی اورپروفیسرصاحبان کی کارکردگی اور خدمات کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ یہ پڑھے لکھے ذہن بھی یہاں رہ کر بانجھ بن جاتے ہیں جن سے ملک کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی قوم کو کچھ ملتا ہے ہاں ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور پروفیسر کا اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہر شخص تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں ہوگا کیونکہ تعلیم انسان کو مہذب بناتی ہے۔ حضور پاک ۖکی تعلیمات ہمیں اخلاقیات، خود احتسابی اور مساوات کا درس دیتی ہیں جبکہ ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق علم کے بغیر متوازن معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے اسلام میں علم حاصل کرنے پر بہت اہمیت دی گئی ہے تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آج پاکستان میں ہمیں تعلیم کے شعبے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے ملک میں تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کا نظام سیرت النبی کی روشنی میں ترتیب دیا جائے تاکہ ہماری نسلیں نہ صرف علم سے بہرہ مند ہوں بلکہ ان کی تربیت بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہو زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقیات کا نفاذ کسی بھی معاشرے کے علمی لیول اور نظام تعلیم کی کامیابی کا تعین کرتی ہے، جس سے ہم ابھی تک بہت دور ہیں ۔سیرت النبی ۖ ہمارے نصاب اور زندگی کا حصہ ہونی چاہیے ،یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ہمیں آپ ۖ کی زندگی کا علم ہوگا اورعلم ہی وہ روشنی ہے جو ہدایت کی راہ دکھاتی ہے۔ علم اور تقویٰ کی دولت سے مزین لوگوں کو ہی قرب الہٰی نصیب ہوتا ہے۔ علم کا حصول دینی فرض ہے۔ آپ ۖ پر نازل پہلی وحی میں تعلیم کی فضیلت اور اہمیت کو واضح کیا گیا۔ علم ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو نیکی اور بدی میں تمیز سکھاتی ہے ۔بنیادی دینی تعلیم ہر مسلمان کیلئے لازم ہے۔ تعلیمی نظام کو جدید سائنسی علوم پر مبنی ہونا چاہیے۔ ماضی میں عرب سے چین جانا تو ایک خواب ہی ہوتا ہوگا، نبی پاک ۖ نے فرمایا تھا علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اسلام نے ہمیں بہترین نظام زندگی دے رکھا ہے۔ لیکن ہم نے اس پر عمل کرنے کی بجائے دوسروں کے نظام اپنا رکھے ہیں۔ جبکہ غیر اسلامی ممالک میں انصاف پر عمل کیا جاتا ہے جہاں انصاف کی وجہ سے ترقی،خوشحالی اور کامیابیوں کے راستے کھلے ہوئے ہیں ہمیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر رہتے ہوئے اس خلا کو پر کرنا ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔
سرکار دو عالم ۖ کی حیات پاک کا مل نمونہ ہے دینی تعلیم کے ساتھ نبی کریم نے دنیاوی تعلیم کو بھی خاص اہمیت دی اسلامی ریاست میں تعلیم صرف ایک نعمت ہی نہیں بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بھی سماجی حیثیت سے رکھتا ہو یہ ریاست کا کام ہے کہ اسلامی اصولوں پر مبنی تعلیمی نظام کو یقینی بنائے کہ ہر فرد کو معیاری تعلیم حاصل ہو اور جو اسے ایک ذمہ دار شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے ریاست کا تعلیمی نظام قرآن کی تعلیمات اور حضرت محمد ۖ کی سیرت سے اخذ کرنا چاہئے ۔علم کے حصول کو بنیادی حق کے طور پر فروغ دینا چاہئے۔ تعلیم کے جامع نظریے کو اپنا نصب العین بنانا چاہئے۔ اخلاق اور ترقی کو ترجیح دینی چاہئے، سماجی مساوات و انصاف کو فروغ دینا چاہئے، نبی کریم ۖ کی پیروی کرتے ہوئے ایک اسلامی ریاست ایک ایسی تعلیم یافتہ منصفانہ اور اخلاقی طور پر مضبوط معاشرے پر قائم ہونی چاہئے، جہاں جھوٹ ،منافقت ،ریاکاری ،فراڈاور دھوکہ دہی کا تصور بھی نہ ہو۔لوٹ مار کا رواج نہ ہو اپنے ملک کا سرمایہ کسی دوسرے ملک میں چوری کرکے لے جانے کا خیال تک نہ ہو۔ سیاست کو عبادت سمجھ کر کر نے کا رواج ہو یہ نہ ہو کہ کل کسی کو یہودی ایجنٹ کہنے والے بعد میں اسے ایک سیاسی بیان کہہ کر اپنی جان جھڑوا لیں۔ اگر ہمیں ایک باوقار قوم بننا ہے تو پھر جھوٹ ، منافقت اور دوغلی سیاست کو دفن کرنا پڑے گا یا پھر ایسی سیاست کرنے والوں سے جان چھڑوانی پڑے گی تب کہیں جاکر ہم ایک خوشحال معاشرے کا روپ دھار سکتے ہیں۔ ورنہ بہروپیوں کے درمیان رہ رہ کر ہم خود بھی بہروپیے ہی بن جائیں گے جن پر اپنے گھر والے بھی اعتبار نہیں کرتے تو دنیا کیا کریگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔