وجود

... loading ...

وجود

اقبال:تصوروطنیت وقومیت

جمعرات 19 ستمبر 2024 اقبال:تصوروطنیت وقومیت

سمیع اللہ ملک
وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت و یگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرم ۖ کی احادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔”اے مکہ!توکتناپیاراپیاراشہرہے،تومجھے کس قدرمحبوب ہے،اگرمیری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تومیں تیرے سواکسی دوسرے مقام پرسکونت اختیار نہ کرتا”۔کسی چیزکے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔اگرکسی مرغوب جگہ یاچیزکے ساتھ محبت والہانہ ہوتوفوقیات وترجیحات اورہوجاتی ہیں۔
اقبال کے اشعارسے ہی اس کاآغازکرتاہوں جہاں وہ فرماتے ہیں:
اس دورمیں مے اورہے،جام اورہے اورجم اور
ساقی نے بِناکی روشِ لطف وستم اور
مسلم نے بھی تعمیرکیااپناحرم اور
تہذیب کے آزرنے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداوں میں بڑاسب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کاہے،وہ مذہب کاکفن ہے
موجودہ نظریہ قوم پرستی کومغربی طاقتیں ایک ہتھیارکے طورپراستعمال کرتی ہیں۔یایوں کہاجائے کہ وہ دیرینہ خواب جس کی تعبیرصلیبی جنگوں سے ان کوحاصل نہیں ہوسکی،وہ قوم پرستی سے حاصل کرناچاہتی ہیں۔ملتِ اسلامیہ کوتوڑنے میں استعماری قوتیں کافی حدتک کامیاب ہوگئی ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ دنیامیں بہت سی ایسی قومیں گزری ہیں جن کی مادی شان وشوکت سے دوسری قومیں لرزتی تھیں،مگربایں ہمہ گردشِ ایام انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔اس کی وجہ دین سے بیزاری اورنسلی و جغرافیائی طریقہ زندگی کوفوقیت دیناہے۔اس لیے کہ وطنیت،چاہے رنگ ونسل کی بنیادپرہو یا علاقائی حدبندی کی بنیادپر،انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے ہوس پرست بنادیتی ہے۔علامہ اقبال مسلمانوں کے ملی تصورکواجاگرکرنے فرماتے ہیں:
فردقائم ربطِ مِلت سے ہے،تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریامیں اوربیرونِ دریاکچھ نہیں
اپنی اصلیت سے ہوآگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحربے پایاں بھی ہے
یقین افرادکاسرمایہ تعمیرِملت ہے
یہی قوت ہے جوصورت گرِتقدیرملت ہے
قوم پرستی کا آغازمغرب میں انقلابِ فرانس یعنی1789کے بعدہوا۔مشہورقوم پرست جان جیک روسواس بات پرمصرتھا کہ انسان کوسب سے زیادہ تعلق اپنے گھراورملک سے ہوناچاہیے۔اس کاعقیدہ تھاکہ فردیاگروہ کی محبت اوروفاداری کامرکزومحوراس کا وطن ہوناچاہیے۔اس نے نوعِ انسانی کی اجتماعی،دینی اورسماجی نظام سے وابستگی کی شدید مخالفت کی۔مغربی مصنفین کی تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ قوم پرستی،زبان،ملک اورنسل کووحدت کی بنیادقراردیتے تھے۔ان کااصرارہے کہ غیرکے مقابلے میں وطن کادفاع کرنازیادہ ضروری ہے،چاہے اس کاموقف صحیح ہویاغلط۔ چنانچہ قوم پرستی عوام کے جذبات سے کھیلنے، فوجوں کوحرکت میں لانے،ہمسایہ ملکوں کواپنی جارحیت کانشانہ بنانے،توسیع پسندی،قتل وغارت گری،بدعنوانی اورظلم وجبرکا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔لیکن اس کے مقابلے میں اسلام اپناایک مستقل نظامِ فکررکھتاہے۔وہ انسان کی عملی،سیاسی،اجتماعی اورروحانی زندگی پرمحیط ہے۔اسی وجہ سے قوم پرستی کاملتِ اسلامیہ کے ساتھ ٹکراناناگزیرہے۔دونوں نظریات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ملتِ اسلامی کی وحدت کی بنیادایک بین الاقوامی تصور پر مبنی ہے اوراس کی تشکیل عقیدے کی بنیادپرہوئی ہے۔اسی وجہ سے علامہ اقبال نے مذہب کوریڑھ کی ہڈی قراردیاہے۔
قوم مذہب سے ہے،مذہب جونہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جونہیں،محفلِ انجم بھی نہیں
پھرایک اورجگہ فرماتے ہیں:
مذہب سے ہم آہنگیِ افرادہے باقی
دِین زخمہ ہے،جمعیت مِلت ہے اگرساز
پانی نہ مِلازمزمِ مِلت سے جواس کو
پیداہیں نئی پودمیں الحادکے انداز
جب مختلف قومیں کسی خاص مقام یاکسی ایک مرکزمیں اپنی قدرتی اورمناسب ترکیب وترتیب کے ساتھ مل جاتی ہیں توایک اجتماعیت وجودمیں آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جابہ جااجتماعیت کوقومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاداورانسانوں کیلئیاللہ تعالی کی جانب سے بڑی رحمت و نعمت قراردیا ہے۔ ارشاد فرمایا: سب مل کراللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑلواورتفرقہ میں نہ پڑو،اوراللہ کی اس نعمت کویادکروکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیداکردی اوراس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔(آل عمران:103)
دورِجدیدمیں لوگوں نے قوم پرستی(یاوطن پرستی)سے متاثرہوکراخوت کے رشتے کوبری طرح پامال کیاہے۔اس کے نتیجے میں بنی نوع انسان قبیلوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔علامہ اقبال نے جب اس تصورکو مسلمانوں میں پنپتادیکھاتوانہوں نے وطنیت پرزبردست تنقید کی:
گفتارِسیاست میں وطن اورہی کچھ ہے
ارشادِنبوت میں وطن اورہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تواسی سے
تسخیرہے مقصودِتجارت تواسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدابٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تواسی سے
کمزورکاگھرہوتاہے غارت تواسی سے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِکاشانہ دینِ نبوی ہے
میں یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ جدید مغربی افکار میں وطنیت اورقومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصورکوجس بناپرردکیاتھاوہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیادبنی۔ان کاخیال تھاکہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاغیرانسانی اقدارپرمشتمل ہے۔اوراس کی بنیادپرایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کررہ جاتاہے۔ اوربلاوجہ تنازعات کی بنیادپڑجاتی ہے جوبعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اوربلاخیزتباہی پرمنتج ہوتی ہے۔اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کیلئیخاص طورپرایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھااورجب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مددکی توانہیں یقین ہوگیاکہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کیلئیزہرقاتل سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصورکے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کاتصورپیش کیااوریہ ثابت کیاکہ مسلمانانِ عالم کیلئے بنیادی نظریات اوراعتقادات کی روسے ایک وسیع ترملت کاتصورہی درست ہے اورقومیت کے مغربی نظریہ میں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔اقبال قوم اورملت کومترادف الفاظ کے طورپراستعمال کرتے ہیں اور مسلمان قوم سے ان کی مرادہمیشہ ملت اسلامیہ ہوتی ہے۔اس بارے میں وہ اپنے مضمون میں تحریرفرماتے ہیں۔میں نے لفظ ملتقوم کے معنوں میں استعمال کیاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اوربالخصوص قرآن مجید میں شرع اوردین کے معنوں میں استعمال ہواہے لیکن حال کی عربی،فارسی اورترکی زبان میں بکثرت سندات موجودہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ ملت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔آگے چل کرلکھتے ہیں: ان گزارشات سے میرا مقصدیہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکاہوں،قران کریم میں مسلمانوں کیلئیامت کے سواکوئی لفظ نہیں آیا۔ قوم ”رجال” کی جماعت کانام ہے۔یہ جماعت بااعتبارقبیلہ،نسل،رنگ، زبان،وطن اوراخلاق ہزارجگہ اورہزاررنگ میں پیداہوسکتی ہے۔لیکن ملتسب جماعتوں کوتراش کرایک نیااورمشترک گروہ بنائے گی۔گویا ملت یاامتجاذب ہے اقوام کی۔خودان میں جذب نہیں ہوتی۔
اقبال قومیت کے اس تصورکے خلاف ہیں جس کی بنیادرنگ،نسل،زبان یاوطن پرہو کیونکہ یہ حدبندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب،وحدت تمدن وتاریخ ماضی اورپرامید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کاتعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے اوراسلام کاسب سے بڑااوربنیادی اصول توحید خداملی وحدت کا ضامن ہے۔اس کادوسرارکن رسالت ہے اوریہی دونوں اساس ملت ہیں۔نہ کہ وطن جوجنگ اورملک گیری کی ہوس پیداکرتاہے۔اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم کوبپاکرکے انسان کورنگ ونسل،نام ونسب اورملک وقوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدوددائروں سے نکال کرایک وسیع ترہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔اقبال کے نزدیک یہہیئت اجتماعیہ قائم کرنا اسلام ہی کانصب العین تھامگربدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اورمسلمان مختلف فرقوں،گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔اقبال مسلمانوں کوپھراسی اخوت اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے ہیں اورایک ملت میں گم ہو جانے کاسبق سکھاتے ہیں۔وہ ایک عالمگیرملت کے قیام کے خواہشمندہیں جس کاخدا،رسول،کتاب،کعبہ،دین اورایمان ایک ہو:
منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
یہاں یہ بتادینابھی ضروری ہے کہ علامہ اقبال امت اسلامیہ کے اتحادمیں مغربی تصورِقومیت کونہایت تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ان کے ہاں کارواں سے مرادمسلمانوں کی عظمت گزشتہ ہے وہ کہتے ہیں کہ رنگ،نسل،وطن،ذات اوربرادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔انہوں نے امت کوعالمگیریت کادرس دیا۔امت اسلامیہ کااتحادوحدت مذہب وتمدن پرقائم ہے۔علامہ اقبال جس قومیت کے قائل ہیں،اس کادائرہ اسلام کے اندرہے اوراس کی بنیادوہ دینی معتقدات پررکھتے ہیں۔لہذا وہ کہتے ہیں
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ارادی طورپران پرعمل پیراہوناتاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے۔ دراصل کاروان سے مرادملت اسلامیہ ہے جوہرطرح کے جغرافیائی تصورسے بالاترہے۔ متاع کارواں دراصل تہذیب اسلامی ہے اوریہ تہذیب خدامرکزتہذیب ہے اوراسی وجہ سے یہ انسان مرکزتہذب بھی ہے۔دنیاکواسلام بطورمذہب قبول ہے لیکن بطورنظام زندگی قبول نہیں ہے۔اقبال کافلسفہ خودی اوراسلام کاتزکیہ نفس کاتصور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
سفریورپ کے بعدعلامہ کی شاعری نے قوم کوبیدارکردیا۔علامہ اقبال مسلمانوں کورنگ وخون کے بتوں کوتوڑکر ایک ملت کی شکل میں متحد ہونے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپناوجودبرقراررکھ سکتے ہیں ۔ ملک،قوم،نسل اور وطن کی مصنوعی حدبندیوں نے نوعِ انسانی کاشیرازہ منتشرکرکے رکھ دیاہیاوراس کاعلاج سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ اسلامی معاشرے کے تصور کورائج کیاجائے اورکم ازکم مسلمان خودکواسی معاشرے کاحصہ بنالیں،یہی مقصودِفطرت ہے،یہی رمزمسلمانی اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی ہے اقبال کاتصورِملت ایک انقلابی نعرہ یاجذباتی فیصلہ نہیں جسے اقبال کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو۔اورنہ ہی اقبال ملت کے اس تصورکاخالق ہے۔
جب اقبال کے ذہن میں ملت کاتصورابھرا،اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمارجسم کی سی تھی۔پہلی عالمی جنگ کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاداورخودمختارریاستیں نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک مڑے تڑے تاش کے پتے کی سی تھی۔ایران کے شمالی حصوں پرروس اورجنوبی حصوں پربرطانیہ کی حکمرانی تھی۔افریقااورمصرپریورپی اقوام قابض تھیں ۔افغانستان کے والی یوں توامیر کہلاتے تھے،مگران کی حیثیت وظیفہ خوار اور نوابینِ اودھ سے زیادہ نہ تھی۔انڈونیشیاولندیزیوں کے زیرسایہ سیاسی بیداری سے بے خبرتجارتی کاموں سے زیادہ مصروف تھا۔اورہندمیں مسلمان اقلیتوں کی زندگی بسرکررہے تھے۔اس حالت میں اقبال کاتصورِ ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کاحامل ہے۔
وطن دوستی کے شیدائی اقبال نے دیکھاکہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پرظلم کررہی ہیں۔علامہ اقبال کے عمرانی اورسیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پرپہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کواس کے سیکولراورمادرپدرآزادہونے کی وجہ سے ناپسندکرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکراورآزادی رائے عام ہے کوقبول کرتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ توسیکولر جمہوریہ آئے نہ لبرل ازم کے نام پربے راہ روی پیداہومگرعصرِحاضرمیں مسلمان جمہوری روح سے استفادہ کرکے خوداپنے نظام خلافت اجتہادکے ذریعہ ایک ایسے منتخب نظام میں بدل دیں جس میں فردسے زیادہ جماعت مقتدرہو۔ریاستِ اسلامی کی سیاسی،عمرانی اورمعاشی معاملات چلانے کیلئیایک منتخب ایوان تشکیل پائے جو ہماری عظیم فقہی روایات سے اصولی رہنمائی لے کرجدید عصری تقاضوں کے مطابق خودایک جدیدفقہی نظامِ مدنیت یانظامِ حیات متشکل کرے۔یہ ایک ایسا اصول ہوجس سے فردکاروحانی استخلاص ہوسکے اوراس بنیادی اصول کی عالمگیریت سے انسانی معاشرے کاارتقابھی روحانی اساس پرہوتا رہے ۔فردکے روحانی استخلاص اور انسانی معاشرے کے ارتقاکے اس بنیادی اصول کااستخراج اقبال کے ہاں کائنات کی روحانی تعبیر پرہے جومادے کے بارے میں جدیدطبیعات کے اس انکشاف کے بعدکہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اورقابلِ فنابھی۔اقبال نے قرآن کے تصورِتوحیدپرایک نئی مابعدالطبیعات کو ایقان دیتے ہوئے اپنائی۔
ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ اقبال اخوت کے قائل ہیں لیکن اس کی بنیاداسلام پررکھتے ہیں کیونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کے پاس وسیع انسانی مسائل کا حل موجود ہے وہ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پرعمل پیراہونے سے وجودمیں آسکتاہے چنانچہ ان کے تصورقومیت کی بنیاد اسلامی معتقدات پرہے۔اس لئے جب انہوں نے تمام عرب کوخلافتِ عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی مددکی توانہیں یقین ہوگیاکہ وطنیت اورقومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کیلئے زہر قاتل ہیں۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصورکے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کاتصورپیش کیااوریہ ثابت کیاکہ مسلمانانِ عالم کیلئے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی روسے ایک وسیع ترملت کاتصورہی درست ہے۔آج ہم جن مشکلات کاشکارہیں،ان سے نکلنے کایہی طریقہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امہ اقبال کے وسیع ترملت کواپناایمان اورایقان بنا لیں۔پھرہمیں امریکاجیسی سپرپاورسے خطرہ ہو گانہ معاشی مسائل کاسامناہوگابلکہ مسلم امہ خودایک سپر پاؤربن کرابھرے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اقبال:تصوروطنیت وقومیت وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
اقبال:تصوروطنیت وقومیت

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار وجود منگل 17 ستمبر 2024
آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار

بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب وجود منگل 17 ستمبر 2024
بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر