... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
مہنگائی، غربت اورتشویش ناک حد تک خراب ہوتے ہوئے ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے عوام ذہنی مریض بنتی جارہی ہے۔ اس وقت حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 8کروڑ سے زائد لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔یہ انکشاف اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت صحت نے کیا ہے ۔اس خطرناک صورتحال کے باوجود ہماری حکومت اسمبلی سے آئینی ترامیم پاس کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔اتوار کا ساران دن ٹیلی ویژن کے سامنے اسی چکر میں گزرگیا کہ ابھی کچھ ہوتا ہے لیکن رات گئے معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نہیں مانے۔ جسکی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنے پڑے۔ خیر میں بات کررہا تھا ذہنی مریضوں کی جنکی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے جبکہ پہلے ہی ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف لوگ غربت کی پستیوں میں جارہے ہیں تو دوسری طرف ذہنی مریضوں کی تعداد بھی کروڑوں میںجارہی ہے ۔ورلڈ بینک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا40فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جتنی مہنگائی پچھلے تین چار سالوں میں ہوئی ہے خاص کر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے مڈل کلاس طبقہ بھی پس کررہ گیا ہے۔ اب گھریلو اخراجات پورے کرنا ایک عام آدمی کے بس میں نہیں رہا جبکہ پاکستانیوں کی تقدیر بدلنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عوام کے مسائل کو بھول کر آئینی ترامیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو عوام کا کوئی خیال ہو اگر سب مل کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اورغربت ختم کرنے کے لیے کوئی آئینی ترمیم لے آئیں تو شائد ملک میں ذہنی مریضوں کی کچھ کمی ہو سکے ۔کاش کوئی حکومتی رکن یہ کہہ کر ایک آئینی ترمیم لے آئے کہ ہماری مراعات اس وقت تک بند کردی جائیں جب تک ہم اپنی عوام کو غربت سے نکال نہ لیں کیونکہ ہم اربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو اپنے
ا لیکشن میں جھونک دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری تمام مراعات بند کردی جائیں لیکن یہ نہیں کرینگے کیونکہ جہاں پر انکے مفادات ہیں وہاں یہ سب اکٹھے ہیں اور جہاں عوام کا مفاد ہووہاں کسی نہ کسی آئینی ترمیم پر میدان سجا لیتے ہیں۔ انہیں عوام کے ساتھ ہمدردی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک الیکشن سیزن چلتا ہے۔ اسکے بعد یہ سیاستدان خود کو بھی نہیں پہچانتے بلکہ اپنے آنے جانے کے راستوں کو بند کروا کربڑے سکون سے شوں کرکے گزرجاتے ہیں ۔عوام بار بار انہیں ہی منتخب کرتی ہے تاکہ مزید پستیوں میںگرسکے شاید ہمارے ہاں تعلیم کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسی لیے تو حکومت نے ابھی تک یونیورسٹیوں میں چانسلرز نہیںلگائے تاکہ ان یونیورسٹیوں کا ماحول بھی خراب ہو اس وقت ملک کی 65 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر یا ریکٹر کے بغیر چل رہی ہیں جس کے باعث ملک بھر میں یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کا بحران بھی سراٹھانے لگا ہے۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن کے دوستوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی 29، خیبرپختونخوا کی 22، بلوچستان کی 5، سندھ کی 3 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے انتظامی اور تعلیمی معاملات متاثر ہورہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی اکثریت عارضی بنیادوں پر چلنے سے کئی اعلیٰ تعلیمی امور کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو مفت اور فوری انصاف فراہم کرنے والا صوبائی محتسب کا ادارہ بھی صوبائی محتسب سے محروم چلا آرہا جو ادارہ دوسروں کو بغیر پیسے کے فوری انصاف دے رہا تھا ، وہ ادارہ اب خود حصول انصاف کے لیے حکومتی ایوانوں کی طرف دیکھ رہا ہے ۔سنا ہے کہ یہاں بھی سیاسی کشمش چل رہی ہے پیپلز پارٹی اپنا بندہ لگوانا چاہ رہی ہے اور ن لیگ چاہتی ہے کہ انکا بندہ لگ جائے ۔اسی کھینچا تانی میں صوبائی محتسب کا سارا کام رکا ہوا ہے ۔
مجال ہے کہ عوام کے مسائل کی طرف بھی کسی کی توجہ ہو ہماری معیشت میںریڈھ کی ہڈی زراعت ہے۔ اس حکومت نے جو حشر کسانوں کا کردیا ،وہ وہ گندم کی فصل کاشت کرنے والوں سے پوچھ لیں جبکہ کپاس ہماری زراعت کا ایک اہم جز تھی جو اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں گزشتہ ماہ اگست میں کپاس کی پیداورا میں 60 فیصد تک کی خطرناک کمی سے ٹیکسٹائل کے شعبے کی بھی چولیں ہل گئی ہے۔ اس سلسلہ میںپنجاب کی کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس ) اور پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے) نے اعدادوشمار کی روشنی میں بتایاکہ 3لاکھ سے زائد بیلز کا فرق صنعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ فیصل آباد جسے ہم مانچسٹر بنانے نکلے تھے ۔وہاں خوشحالی کی بجائے غربت ناچ رہی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے گھر گھر انڈسٹری لگی ہوئی تھی۔ لوگ پر امید تھے کہ آہستہ آہستہ وہ خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ لیں گے لیکن یک دم آنے والی تبدیلی نہ صرف اس انڈسٹری کو بند کروانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس شہر میں بے روزگاروں کی انتہا کردی جہاں ایک وقت میںمزدور تلاش کرنا مشکل ہوچکا تھا۔ جب ایسی صورتحال ہو گی تب ذہنی مریضوں کی تعدا د میں اضافہ بھی ہوگا اور غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کا شمار بھی نہیں ہوگااور سب سے بڑھ کر ملک میںجرائم میں بھی اضافہ ہوگا ۔آج ہماری جیلوں کی حالت دیکھ لیں اپنی گنجائش سے تین گنا زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثریت ذہنی مریضوں کی ہی ہوگی جبکہ جیلوں کے ملازمین کم تنخواہ اور ذہنی مریضوں کے ساتھ رہ رہ کر خود بھی ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں میںبھی ذہنی مریض شامل ہیںجو اپنی کسی نہ کسی غیر قانونی حرکت سے پکڑے جاتے ہیں اور اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔اس وقت بھی دنیا بھر کے 88 ممالک کی جیلوں میں 20 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں جن میں سزائے موت کے 68 پاکستانی شامل ہیں جنہیں دہشت گردی، قتل اور منشیات اسمگلنگ پر سزائے موت سنائی گئی۔ متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار 292، سعودی عرب میں 10 ہزار 432، ملائیشیا میں 463 برطانیہ میں 321، عمان میں 578، ترکیہ میں 387، بحرین میں 371، یونان میں 598، چین میں 406، جرمنی میں 90، عراق میں 40، امریکا میں 114، سری لنکا میں 89، اسپین میں 92، افغانستان میں 85، ساتھ افریقا 48 اور فرانس میں 286 پاکستانی قید ہیں جو یقینا ذہنی مریض ہی ہونگے۔
ہم گدھوں کو خوشحالی کی آس دلا کر ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میںگم ہونے والے ہمارے حکمران پارلیمنٹ میں بھی گدھوں کی خریدوفروخت پر ہی غور کرتے ہیں نہیںیقین تو جمعرات پانچ ستمبر دن دو بجے پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر ایک میں چیئرمین سینٹر انوشہ رحمان خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی ہی دیکھ لیں جس میں گدھوں کے گوشت اور کھال کو بیرون ملک برآمد کرنے کے معاملے کا جائزہ لیاگیا کہ پاکستان دنیا میں گدھوں کی پیداوار میں تیسرا بڑا ملک ہے اور چین میں گدھوں کے گوشت اور کھال کی بہت زیادہ مانگ ہے اور اس کی بہت زیادہ قیمت بھی ادا کی جاتی ہے اوروزارت تجارت پاکستان سے بالخصوص چین کو گدھوں کا گوشت اور کھال برآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمانا چاہتی ہے۔ کاش گدھوں کے ساتھ ساتھ حکومت ذہنی مریض بنتی ہوئی قوم کے لیے بھی کوئی آئینی ترمیم لے آئے۔