وجود

... loading ...

وجود

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار

منگل 17 ستمبر 2024 آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار

میری بات/روہیل اکبر
مہنگائی، غربت اورتشویش ناک حد تک خراب ہوتے ہوئے ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے عوام ذہنی مریض بنتی جارہی ہے۔ اس وقت حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 8کروڑ سے زائد لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔یہ انکشاف اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت صحت نے کیا ہے ۔اس خطرناک صورتحال کے باوجود ہماری حکومت اسمبلی سے آئینی ترامیم پاس کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔اتوار کا ساران دن ٹیلی ویژن کے سامنے اسی چکر میں گزرگیا کہ ابھی کچھ ہوتا ہے لیکن رات گئے معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نہیں مانے۔ جسکی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنے پڑے۔ خیر میں بات کررہا تھا ذہنی مریضوں کی جنکی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے جبکہ پہلے ہی ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف لوگ غربت کی پستیوں میں جارہے ہیں تو دوسری طرف ذہنی مریضوں کی تعداد بھی کروڑوں میںجارہی ہے ۔ورلڈ بینک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا40فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جتنی مہنگائی پچھلے تین چار سالوں میں ہوئی ہے خاص کر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے مڈل کلاس طبقہ بھی پس کررہ گیا ہے۔ اب گھریلو اخراجات پورے کرنا ایک عام آدمی کے بس میں نہیں رہا جبکہ پاکستانیوں کی تقدیر بدلنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عوام کے مسائل کو بھول کر آئینی ترامیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو عوام کا کوئی خیال ہو اگر سب مل کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اورغربت ختم کرنے کے لیے کوئی آئینی ترمیم لے آئیں تو شائد ملک میں ذہنی مریضوں کی کچھ کمی ہو سکے ۔کاش کوئی حکومتی رکن یہ کہہ کر ایک آئینی ترمیم لے آئے کہ ہماری مراعات اس وقت تک بند کردی جائیں جب تک ہم اپنی عوام کو غربت سے نکال نہ لیں کیونکہ ہم اربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو اپنے
ا لیکشن میں جھونک دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری تمام مراعات بند کردی جائیں لیکن یہ نہیں کرینگے کیونکہ جہاں پر انکے مفادات ہیں وہاں یہ سب اکٹھے ہیں اور جہاں عوام کا مفاد ہووہاں کسی نہ کسی آئینی ترمیم پر میدان سجا لیتے ہیں۔ انہیں عوام کے ساتھ ہمدردی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک الیکشن سیزن چلتا ہے۔ اسکے بعد یہ سیاستدان خود کو بھی نہیں پہچانتے بلکہ اپنے آنے جانے کے راستوں کو بند کروا کربڑے سکون سے شوں کرکے گزرجاتے ہیں ۔عوام بار بار انہیں ہی منتخب کرتی ہے تاکہ مزید پستیوں میںگرسکے شاید ہمارے ہاں تعلیم کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسی لیے تو حکومت نے ابھی تک یونیورسٹیوں میں چانسلرز نہیںلگائے تاکہ ان یونیورسٹیوں کا ماحول بھی خراب ہو اس وقت ملک کی 65 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر یا ریکٹر کے بغیر چل رہی ہیں جس کے باعث ملک بھر میں یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کا بحران بھی سراٹھانے لگا ہے۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن کے دوستوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی 29، خیبرپختونخوا کی 22، بلوچستان کی 5، سندھ کی 3 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے انتظامی اور تعلیمی معاملات متاثر ہورہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی اکثریت عارضی بنیادوں پر چلنے سے کئی اعلیٰ تعلیمی امور کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو مفت اور فوری انصاف فراہم کرنے والا صوبائی محتسب کا ادارہ بھی صوبائی محتسب سے محروم چلا آرہا جو ادارہ دوسروں کو بغیر پیسے کے فوری انصاف دے رہا تھا ، وہ ادارہ اب خود حصول انصاف کے لیے حکومتی ایوانوں کی طرف دیکھ رہا ہے ۔سنا ہے کہ یہاں بھی سیاسی کشمش چل رہی ہے پیپلز پارٹی اپنا بندہ لگوانا چاہ رہی ہے اور ن لیگ چاہتی ہے کہ انکا بندہ لگ جائے ۔اسی کھینچا تانی میں صوبائی محتسب کا سارا کام رکا ہوا ہے ۔
مجال ہے کہ عوام کے مسائل کی طرف بھی کسی کی توجہ ہو ہماری معیشت میںریڈھ کی ہڈی زراعت ہے۔ اس حکومت نے جو حشر کسانوں کا کردیا ،وہ وہ گندم کی فصل کاشت کرنے والوں سے پوچھ لیں جبکہ کپاس ہماری زراعت کا ایک اہم جز تھی جو اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں گزشتہ ماہ اگست میں کپاس کی پیداورا میں 60 فیصد تک کی خطرناک کمی سے ٹیکسٹائل کے شعبے کی بھی چولیں ہل گئی ہے۔ اس سلسلہ میںپنجاب کی کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس ) اور پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے) نے اعدادوشمار کی روشنی میں بتایاکہ 3لاکھ سے زائد بیلز کا فرق صنعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ فیصل آباد جسے ہم مانچسٹر بنانے نکلے تھے ۔وہاں خوشحالی کی بجائے غربت ناچ رہی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے گھر گھر انڈسٹری لگی ہوئی تھی۔ لوگ پر امید تھے کہ آہستہ آہستہ وہ خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ لیں گے لیکن یک دم آنے والی تبدیلی نہ صرف اس انڈسٹری کو بند کروانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس شہر میں بے روزگاروں کی انتہا کردی جہاں ایک وقت میںمزدور تلاش کرنا مشکل ہوچکا تھا۔ جب ایسی صورتحال ہو گی تب ذہنی مریضوں کی تعدا د میں اضافہ بھی ہوگا اور غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کا شمار بھی نہیں ہوگااور سب سے بڑھ کر ملک میںجرائم میں بھی اضافہ ہوگا ۔آج ہماری جیلوں کی حالت دیکھ لیں اپنی گنجائش سے تین گنا زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثریت ذہنی مریضوں کی ہی ہوگی جبکہ جیلوں کے ملازمین کم تنخواہ اور ذہنی مریضوں کے ساتھ رہ رہ کر خود بھی ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں میںبھی ذہنی مریض شامل ہیںجو اپنی کسی نہ کسی غیر قانونی حرکت سے پکڑے جاتے ہیں اور اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔اس وقت بھی دنیا بھر کے 88 ممالک کی جیلوں میں 20 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں جن میں سزائے موت کے 68 پاکستانی شامل ہیں جنہیں دہشت گردی، قتل اور منشیات اسمگلنگ پر سزائے موت سنائی گئی۔ متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار 292، سعودی عرب میں 10 ہزار 432، ملائیشیا میں 463 برطانیہ میں 321، عمان میں 578، ترکیہ میں 387، بحرین میں 371، یونان میں 598، چین میں 406، جرمنی میں 90، عراق میں 40، امریکا میں 114، سری لنکا میں 89، اسپین میں 92، افغانستان میں 85، ساتھ افریقا 48 اور فرانس میں 286 پاکستانی قید ہیں جو یقینا ذہنی مریض ہی ہونگے۔
ہم گدھوں کو خوشحالی کی آس دلا کر ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میںگم ہونے والے ہمارے حکمران پارلیمنٹ میں بھی گدھوں کی خریدوفروخت پر ہی غور کرتے ہیں نہیںیقین تو جمعرات پانچ ستمبر دن دو بجے پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر ایک میں چیئرمین سینٹر انوشہ رحمان خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی ہی دیکھ لیں جس میں گدھوں کے گوشت اور کھال کو بیرون ملک برآمد کرنے کے معاملے کا جائزہ لیاگیا کہ پاکستان دنیا میں گدھوں کی پیداوار میں تیسرا بڑا ملک ہے اور چین میں گدھوں کے گوشت اور کھال کی بہت زیادہ مانگ ہے اور اس کی بہت زیادہ قیمت بھی ادا کی جاتی ہے اوروزارت تجارت پاکستان سے بالخصوص چین کو گدھوں کا گوشت اور کھال برآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمانا چاہتی ہے۔ کاش گدھوں کے ساتھ ساتھ حکومت ذہنی مریض بنتی ہوئی قوم کے لیے بھی کوئی آئینی ترمیم لے آئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر