... loading ...
ب قاب /ایم آر ملک
ہم تاریخ کے ایک مضحکہ خیز دور اہے پر ہیں !
تاحد ظر ظریاتی اور اخلاقی دبائو کا زوال ہے ،سچ کا قحط ہے ،ضمیر اور احساسات کی ارزا ی ہے میڈیا کی صفوں میں ”آئیڈیالوجی ” کا چہرہ مسخ ہورہا ہے، سچائی پر جھوٹ کا غلاف چڑھا کر اسے اپ ے حق میں استعمال کرکے قوم کو گمراہ کر ے کی اکام کوشش کی جارہی ہے۔ہادی برحقۖ سے پوچھا گیا م افق کی پہچا ؟فرمایا جھوٹ بولتا ہے اور اس کا بار بار ارتکاب کرتا ہے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ے اپ ے اس بیا کی فی کردی ہے کہ وہ توسیع ہیں چاہتے ،ازل روز کی حقیقت یہی تھی کہ اجائز اثاثوں کا حق ملکیت پلیٹ لیٹس کی جعلسازی پر فرار ہو ے والے شخص کا تھا ایک برس سے زائد عرصہ تک یہ معاملہ پارلیم ٹ کی راہ داریوں میں اپ ا وجود تلاشتا رہا ،پارلیم ٹ کے فلور پر عدالتی ااہل شخص کے یہ الفاظ ابھی تک معلق ہیں کہ میرے پاس جائیداد کے تمام ثبوت موجود ہیں لیک آج تک یہ جعلی ثبوت حقیقت کا روپ ہیں دھار سکے، عدالت ے جے آئی ٹی ب ائی تو اقتدار کے ایوا وں میں خوشی کے شادیا ے بجائے گئے جب جے آئی ٹی کی تحقیقات شروع ہوئیں تو گاڈ فادر سے لیکر اس کے حواریوں تک کو جا کے لالے پڑ گئے اور جے آئی ٹی کو مت ازع ب ا ے کی کوشش کی گئی ۔مبی ہ موت سے دوچار ہو ے والے مرحوم واجد ضیا کا تب یہی موقف تھا کہ واز شریف ے اپ ے خلاف کوئی ثبوت ہیں چھوڑے لیک ات ی کم عمری میں بچوں کے پاس کو سا سخہ کیمیا تھا کہ اربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک ب گئے ۔ا بچوں کا پشتیبا کو تھا ؟ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرا تو شریفوں ے عوامی اذہا کو یرغمال ب ا ے کیلئے ایک یاا سکرپٹ لکھوایا ،آج بھی جھوٹ کی بہتی گ گا ہے اور موروثیت کی ب یادوں پر کھڑا اقتدار جس کے پائوں تلے ریت کلتی جارہی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب مفادات کے آزادا ہ کھیل میں حب الوط ی ہار رہی ہے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداربکائو اور ضمیر فروش ت گ ظر تعصبات قوم کے شعور پر زبردستی مسلط کر ے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ ظریاتی طبقہ میں بد گما یا یوں اور ا حرافی رحجا ات کو تقویت دی ے کی اکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔10ستمبر کے سا حہ میں اسٹیبلشم ٹ کا کوئی کردار ہیں۔ اپ ے گ اہ کا بوجھ دا ستہ حکمرا اس کے ک دھوں پر ڈال ے کے درپے ہیں ۔کیا پاک فوج کے ادارے کے خلاف ڈا لیکس کے آئی ہ میں اُبھر ے والے چہروں کو بھلایا جاسکتا ہے ؟اسکرپٹ لکھ ے والوں سے ہر محب وط آش ا ہے۔ تیز رفتار تبدیلیاں کسی پر رحم ہیں کھاتیں ،جمہوریت میں عوامی شمولیت ظر آتی ہے۔۔۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہے ؟
اخلاقی گراوٹ کے پس م ظر میں عوامی رائے عامہ کے برعکس سروے کر ے والی ”پلڈاگ ” امی ت ظیم ے ماضی میں ایک شخص کی لوٹ مار کو قا و ی ب ا ے کی کارستا ی خوب بھائی جو اقتدار والوں کی تخلیق ٹھہری مگر اب یہ تضاد مستقل ہیں چل سکتا تاریخی عمل امکا ات کو ج م ضرور دیتا ہے مگر ا امکا ات کو ٹھوس حقائق کی شکل خود ا سا دیا کرتے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سچائی کا پرچار کر ے والی شعوری مداخلت تاریخ کی کایا پلٹ ے کے لیے کہیں ہ کہیںموجود ضرور ہے ایسے وقت میں جب صحافت کا چہرہ دھ دلا چکا ،اس شعوری مداخلت سے طاقت اور فیصلہ سازی کو سماج کے رگ و پے کی طرف م تقل کر ے کی کوشش بھی جاری ہے۔ ایک متروک ظام کی حتمی شکست یہی شعور مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ سات بار پ جاب اور پا چ بار وفاق میں کرشماتی سیاسی اتھارٹی کا شہ ٹوٹ ے کا آغاز ہو ا چاہتا ہے۔ آپ بیہودہ قالی کو عوام کی خدمت کا ام ہیں دے سکتے۔ جرائم کا دفاع ہٹ دھرمی سے ہمیشہ ہیں کیا جاسکتا ۔عمرا کو عوامی حمایت اور پزیرائی سے ا قوتوںکو اعصاب شک کیفیت کا سام ا ہے جو اسٹیٹس کو ٹوٹتا دیکھ رہی ہیں۔ مگر اُس کے عزم ،حوصلے اور مستقل مزاجی کے ساتھ جدو جہد کو داد دیے بغیر چارہ ہیں کہ وہ ایک تاریخی فریضے کی تکمیل کو ممک ب ا ا چاہتا ہے یہ کریڈٹ کپتا کو ہی جاتا ہے کہ 76برس بعد چہروں سے قاب اتر ے کا معاملہ بتدریج سام ے آتا چلا گیااور حاوی ہوتا گیا۔ ایک لمبے عرصے تک دو پارٹیوں کی فریب زدگی سے کل ے کیلئے عرصہ درکارتھا ۔شعوری برتری ،جرأت م دا ہ موقف ،بے لوث کمٹ م ٹ آخری تجزیئے میں آبرو م دا ہ فتح کی ضما ت ہوتی ہے۔ فیصلہ ک تاریخی لمحات میں مستعد اور دور ا دیش افراد کبھی ہ دیکھی گئی ایسی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں جو تاریخی عمل کا رخ موڑ دیتی ہے۔ بے لاگ احتساب اور ا صاف کا موقف تحریک ا صاف کا ذاتی معاملہ ہیں ۔حکومتی حواریوں کے بے ہ گم اور لغو شور وغل میں 25کروڑ لوگوں کا سکتہ ٹوٹا تو لفظ جمہوریت گالی ب گیا ،عمرا کے خلاف 200مقدمات سچائی کے چہرے پر ایک رقیق اور زہریلا وار ہے، توشہ خا ہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھوائے گئے چ د الفاظ کو ٹھوس اور اقابل تردید ثبوت تصور کر لیا گیا ،10ستمبر پارلیم ٹ پر حملہ تھا جو ملکی تاریخ کا یوم سیاہ ہے ۔
بھٹو کی پارٹی اب دو زرداریوں کے شک جے میں ہے جہاں تاحد ظر باپ بیٹے ے مفادات کی بساط بچھا رکھی ہے۔ ایک جعلی قیادت کی بے بصیرتی ہے جس ے بھٹو کی پارٹی کو مفاہمت ،مفادات کی بھی ٹ چڑھا دیا۔ پارٹیوں پر جب زوال آتا ہے تو اس زوال کی اپ ی خصلتیں اور خصوصیات ہوا کرتی ہیں۔ یہی خصلتیں ،یہی خصوصیات اس زوال کی شدت اور اثرات کا تعی کرتی ہیں۔ فطرت کی طرح سیاست بھی خلا کو پس د ہیں کیا کرتی ۔دو پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست میں اُبھر ے والے خلا کو تحریک ا صاف ے پر کر ے میں دیر ہیں لگائی ۔مفاہمت کے کچے دھاگے کو اکتاہٹ ے توڑ کر رکھ دیا ۔عوام خصوصاً ئی سل مایوسیوں سے اُمید کی طرف سفر کرتے جمود کی آخری سطح کو کراس کر ے کی کوشش میں رواں دواں ہیں۔ عوام ایک متحرک قوت کے طور پر روایت کو بدل ے کے خواہاں ہیں۔ فخر ایشیاء کی پارٹی ایک شاہا ہ اور مطلق الع ا سیاسی ڈھا چے کے سوا کچھ ہیں عوامی تحرک کے سام ے کبھی بھی کوئی ہ ٹھہر سکا یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے ۔