وجود

... loading ...

وجود

انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہے!

جمعرات 12 ستمبر 2024 انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہے!

جاوید محمود

پاکستان کے سابق نگراں وزیراعظم نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جب بیان دیا تھا کہ ایسی مہنگائی نہیں کہ احتیاط کی جائے، نے مجھے اور بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ بیان فرانس کی ملکہ میری انٹونیٹ سے منسوب مشہور فقرے سے واضح مشابہت رکھتا تھا۔
1789 کے دوران فرانس کے عوام جب مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے پہ مجبور ہوئے تو ملکہ نے کہا کہ ان سے کہو روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔ ملکہ کا یہ بیان جلتی پرتیل ڈالنے کے کام آیا، جب فرانس سب سے زیادہ مہنگائی ،بے روزگاری، طبقاتی تقسیم اور معاشی عدم استحکام کے مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔ یہ مسائل کنگ لوئیس کی حکومت اور حکمران اشرافیہ کے خلاف عام لوگوں کی بغاوت کا سبب بنتے ہیں۔ انقلاب کو دہشت کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کے دوران عام لوگ فرانس کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرنے پر کھڑے ہو گئے تھے انہوں نے اس کے خاندان کو پھانسی دے دی اور 1793سے 1794تک سینکڑوں افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔اس انقلاب کو اس دنیا کی تاریخ میں سب سے خونی سیاسی انقلاب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تاہم جب ہم فرانسیسی انقلاب کے پیچھے بنیادی وجوہات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے میں کچھ مشترکہ عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میںسیاسی جبر اور سماجی عدم مساوات ،معاشی مشکلات ،سیاسی نمائندگی کا فقدان، بدعنوانی اور بند انتظامی نظریاتی اور ثقافتی تبدیلیاں قیادت متحرک اور بیرونی عوامل شامل ہیں۔تا ہم یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان ، فرانسیسی انقلاب کے دہانے پر ہے کیونکہ یہ ملک ان تمام مسائل سے دوچار ہے جس کا سامنا فرانس کر رہا تھا۔
پاکستان کی حالت انقلاب کے لیے تیار ہے ۔سیاسی جبر اور سماجی عدم مساوات پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو انقلاب ِ فرانس کے حالات کا آئینہ دار ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ طبقے کو قانون سے بالاتر سمجھ کر تمام سماجی وقار اور مراعات حاصل ہیں ۔انہوں نے ملک کی حکمرانی اور نظام عدل کو ہائی جیک کر لیا ہے ۔پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقے کے شہری بنیادی ضروریات قانون کی حکمرانی سماجی مساوات اور انصاف کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور مالیاتی بحران ملک کو انقلاب کی طرف لے جا رہا ہے۔ معاشی پالیسیوں نے ملک کو مالی بحران اور معاشی بدحالی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سیاست دانوں ،وزیروں، تاجروں، مذہبی علماء ،سول اور ملٹری بیوروکریٹس کا بے دریغ خرچ اور کرپشن اور غریبوں سے رجعتی بالواسطہ ٹیکس بھی انتشار کا بیج بونے والا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر اہم اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نے ایندھن چینی آٹا اور بجلی کے بلوں میں اضافے سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور انہیں مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اس سے انقلاب پسندی کے ساتھ طبقاتی تقسیم بھی بڑھنے والی ہے۔ عوام کی اکثریت اب دو فیصد اشرفیہ کو پاکستان کا مافیا سمجھ رہی ہے۔ اشرافیہ میں سول اور ملٹری بیوروکریٹس جاگیردار اور تاجر سیاستدان اور مذہبی علماء شامل ہیں۔ کرپشن اور بد انتظامی بھی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ اس نے اس ملک کو بدعنوانی اور بد انتظامی کے انڈیکس کے حوالے سے دنیا میں بدترین بنا دیا ہے۔ پاکستان کے اہم ادارے کرپشن کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ یہ ادارے اکثر پاکستان کے طاقتور لوگوں اور ان کے کرپشن کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ ان اداروں نے کبھی بھی طاقتور لوگوں کے خلاف کسی قسم کی کرپشن کی تحقیقات کا نتیجہ نہیں نکالا بلکہ ان اداروں کو پاکستان کی کمزور غریب اور پسماندہ لوگوں کو نشانہ بنانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آئینی بحران، ناانصافی اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈی فیکٹو بادشاہ کے طور پرعروج کہاں موجودہ ماحول قوم کو انقلاب کی طرف دھکیل رہا ہے۔
عمران خان کا پاکستان کے ایک مثالی سیاسی رہنما کے طور پر ابھرنا ،ان کا سیاسی بیانیہ حقیقی آزادی اور ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے منفی طریقوں کا استعمال کرنا، یہ وہ محرکات ہیں جس کے باعث پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی اکثریت موجودہ حکومت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کر رہی ہے ۔ موجودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری کشمکش بھی ممکنہ انقلاب کا منظر نامہ تشکیل دے رہی ہے۔ نو مئی 2023 کے ہولناک واقعے نے انقلاب کی ایک اور جھلک پیش کی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی۔ نو مئی کے بعد کے واقعات اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور عمران کی غیر قانونی قید اور جبری گمشدگی بھی ملک میں نفرت کو بڑھا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے صف اول کے سیاسی رہنماؤں کا لاپتہ ہونا پاکستان کے لیے تشویش ناک صورتحال ہے ۔مستقبل میں کوئی بھی ہلچل پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آئینی بحران، ناانصافی اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے اہم اداروں کا نظریں چرانا انقلاب کو دعوت دے رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی طور پر باشعور نوجوان اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ان کے مایوس کن خیالات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ان تمام اداروں کے خلاف پرتشدد اور جارحانہ خیالات کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو پاکستان میں ان کے تاریک مستقبل کے ذمہ دار ہیں۔ آخر میں یہ بات ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اب ان تمام مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جب فرانس نے 1789 کے انقلابی دور میں ایسے مشکلات کا سامنا کیا ۔فیس بک ،یوٹیوب ،ٹیوٹر اور ٹک ٹاک جیسے بے قابو سوشل ایپ خیالات کی تشہیر اور ذہنوں کی ہیرا پھیری کے لیے سب سے آسان پلیٹ فارم ہیں۔ پاکستان میں 71ملین سوشل میڈیا اور 191ملین فعال سیلولر موبائل کنیکشنز کے ساتھ 21ویں صدی میں رابطے کا آسان ترین طریقہ اس ملک میں سیاسی انقلاب کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ بحران میں علیحدگی پسند طاقتیں غیر ملکی حمایت کے ساتھ ملک میں انارکی پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ کچے کے ڈاکو بھی ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس انتہائی کشیدگی کے دوران پوری قوم کی نظریں حقیقی قیادت کا انتظار کر رہی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر