... loading ...
سمیع اللہ ملک
علامہ محمد اقبال بیسویں صدی عیسویں کی ابتدامیں ملتِ اسلامیہ کے افق پرابھرنے والے ایک ایسے درخشاں ستارے تھے جس کی روشنی نے زمان ومکاں کی حدبندیوں سے بالاتر ہو کرامت کیلئے راہ منزل کی نشاندہی کافریضہ انجام دیا۔آج علامہ اقبال کورخصت ہوئے 80 برس سے زیادہ عرصہ گزرچکاہے لیکن اقبال کی فکراورگہری دوراندیش نظرنے حالات کاتجزیہ کرکے امت کودرپیش مسائل اوران کے جوحل پیش کیے وہ آج بھی100فیصدصحیح ثابت ہورہے ہیں۔حکیم الامت نے خبردار کیاتھاکہ لادین قوتیں مغرب کی امامت میں ظلمت کالشکربن کرہرمحاذپرسرگرم رہیں گی۔امت مسلمہ کی جڑیں کھودنے کیلئے انسانیت سوزہتھکنڈے اپنائیں گی،ظالم کومظلوم اورظلم کوانصاف کانام دیکرآزادی فراہم کرنے کا فخریہ نعرہ لگائیں گی۔علامہ نے ان حالات کانقشہ برسوں پہلے یوں کھینچاتھا۔
باطل کے فال وفرکی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیادوش تاکمر
لیکن اقبال اس سب کے باوجودپرامیدتھے کہ نوجوان نسل محنت اورعملِ مسلسل سے حالات کوتبدیل کرسکتی ہے۔اقبال نے اپنی بہت سی نظموں میں نوجوانوں کومخاطب کیاہے مثلاً خطاب بہ نوجوانانِ اسلام،جاویدکے نام،جاویدسے خطاب۔علی گڑھ کے طلبہ کے نام، عبدالقادر کے نام،ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے ناماپنے اشعار میں نوجوانوں کیلئے والہانہ اندازمیں دلی تمنا کااظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں:
جوانوں کوسوزجگر بخش دے
مراعشق میری نظربخش دے
امت مسلمہ کوعروج وترقی کی بلندیوں پرپہنچانے کیلئے نوجوانوں کے دلوں میں دل سوزی اورجذبہ صادق کی بیداری کیلئیاقبال نے اپنے اشعارمیں تاریخ اسلام کے واقعات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سمویاہے۔کہاجاسکتاہے کہ اقبال کی شاعری میں اسلامی تاریخ یوں سموئی ہوئی ہے جیسے پھول میں خوشبو۔اقبال نے اسلامی تاریخ کے بہت سے ناقابل فراموش واقعات کوشاعرانہ حسن کے ساتھ بیان کیاہے کہ جوادب عالیہ کے افق پرہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔اوپرپڑھنے والوں کے دلوں میں ایک جوش وولولہ پیداکرتے رہیں گے۔اپنی نظم طارق کی دعامیں وہ مشہورمسلم جنرل طارق بن زیادکے بارے میں کہتے ہیں:۔
یہ غازی یہ تیرے پراسراربندے
جنہیں تونے بخشاہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکرسے صحراودریا
سمٹ کرپہاڑان کی ہیبت سے رائی
طارق بن زیادبربرقبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔مشہورمسلم سپہ سالارموسی بن نصیرنے اپنی سرپرستی میں ان کی تربیت کی تھی۔اندلس کے لوگوں نے شاہ ہسپانیہ کے ظلم وستم کے خلاف اپنی شکایات خلیفہ ولیدبن عبدالملک کوپیش کیں۔خلیفہ کے حکم پران کی دادرسی کیلئیطارق بن زیاد سات ہزارمجاہدین کے ساتھ ہسپانیہ کے ساحل پراترااورتمام جہازجلاڈالنے کاحکم دیاتاکہ کسی کے دل میں واپسی کاخیال پیدانہ ہو۔شاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں طارق کے پاس صرف7ہزارکی نفری تھی۔اس موقع پرطارق نے ایک پرجوش خطبہ دیااورپھراللہ تعالی کے حضورفتح کیلئیدعاکی۔”طارق کی دعا”کے عنوان سے اقبال نے نوجوانان اسلام میں ان مجاہدین اسلام کے جذبہ جہاداورشوق شہادت کوبیدارکرنے کی کوششیں کی ہیں،کہتے ہیں:
دلِ مردہ مومن میں پھرزندہ کردے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذرمیں
عزائم کوسینوں میں بیدارکردے
نگاہِ مسلماں کوتلوارکردے
اسی طرح15ھ میں ہونے والے معرکہ یرموک کاذکراقبال نے اپنی نظم جنگ یرموک کاایک واقعہ میں کیاہے۔یوں تواسلامی تاریخ ایسے واقعات سے معمورہے کہ جس میں ایک مختصرجمعیت نے اپنے سے کئی گنابڑی فوج کوشکست سے دوچارکیا لیکن جنگ یرموک کے جس واقعے کاذکراقبال نے کیاہے وہ نوجوانوں کے دل کوشوق شہادت سے لبریزکردیتا ہے کہ جب ایک نوجوان فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتاہواسیدناابوعبیدہ کے پاس آتاہے اورکہتاہے کہ اس میں اب مزیدانتظارکی تاب نہیں ہے اورآپ مجھے اب جنگ کی اجازت دیجیے، ہاں اگرآپ کوئی پیغام بارگاہِ رسالت میں بھیجناچاہتے ہیں تومیں حاضر ہوں۔اقبال نوجوان مجاہدکے جذبہ شوق شہادت کااظہارکچھ اس طرح کرتے ہیں:
اے بوعبیدہ رخصتِ پیکاردے مجھے
لبریزہوگیامرے صبروسکوں کاجام
بے تاب ہورہاہوں فراقِ رسول میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
جاتاہوں میں حضوررسالت پناہ میں
لے جاں گاخوشی سے اگرہوکوئی پیام
امیرلشکرابوعبیدہ اس سے کہتے ہیں
بولاامیرفوج کہ وہ نواں ہے تو
پیروں پہ تیرے عشق کاواجب ہے احترام
پوری کرے خدائے محمدۖتری مراد
کتنابلندتیری محبت کاہے مقام
اقبال اپنی ولولہ انگیزنظموں میں تاریخی واقعات کے ذریعے نوجوانوں کوان کاماضی اوراسلاف کے کارناموں سے روشناس کراتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس گئے گزرے دورِزوال میں بھی تمہارے سامنے ایسی مثالیں موجودہیں کہ جب مسلم افواج نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجودحق اورانصاف کادامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔محاصرہ ادرنہ کے عنوان سے اقبال1912میں ہونے والے اس معرکہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جب بلقان کی ریاستوں بلغاریہ،سربیہ،رومانیہ اوریونان نے ترکی پرحملہ کیا اور اس کے ایک یورپی شہرادرنہ کامحاصرہ کرلیا۔اس وقت ترک فوج کی قیادت ان کے سپہ سالارغازی شکری پاشاکررہے تھے۔جنہوں نے انتہائی بے جگری سے ایک لاکھ سے زیادہ فوج کامقابلہ کیا ہے وہ تقریبا5ماہ تک قلعہ بندہوکران کے سامنے ڈٹے رہے۔اس دوران مسلمان افواج کی رسداورخوراک ختم ہوگئی۔شکری پاشانے شہرمیں عوام کے پاس موجودخوراک کے ذخائرقبضے میں لینے کاحکم صادرکیا۔شہرمیں غیرمسلم بھی آبادتھے۔چوں کہ وہ جزیہ ادا کرتے تھے جس کے بدلے مسلم ریاست پران کے جان ومال کاتحفظ لازم ٹھہرتاہے،مفتی شہرنے سپہ سالار کے حکم کے خلاف غضب ناک ہوکرفتوی جاری کیاکہ ذمی کامال مسلم حکومت اورفوج پرحرام ہے۔پھردنیانے دیکھاکہ ایسے گئے گزرے دورمیں بھی مسلم افواج نے خداکے حکم کے آگے سرِتسلیم خم کردیا۔زندگی وموت کے اس امتحان کے باوجودذمیوں کے مال کوہاتھ تک نہ لگایاگیا۔
چھوتی نہ تھی یہودونصاری کامال فوج
مسلم،خداکے حکم سے مجبورہوگیا
نوجوان خواتینِ اسلام کے جذبہ حریت کااظہاراقبال اپنی نظمفاطمہ بنتِ عبداللہمیں کرتے ہیں۔یہ عرب لڑکی1912میں ہونے والی طرابلس کی جنگ میں مجاہدین کوپانی پلاتے ہوئے میدان جنگ میں شہیدہوئی تھی۔فاطمہ کے جذبہ جہادکاذکرکرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں۔
یہ جہاداللہ کے رستے میں بے تیغ وسپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
نوجوانانِ امت کیلئے اپنی امیدوں کااظہارکرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں۔
اپنے صحرامیں بہت آہوابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں
وہ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم اپنے آپ کودریافت کرو۔تمہارافرض منصبی ایک داعی اورایک مبلغ کا
ہے۔تمہاراکام بدی کومٹانااورنیکی کوقائم کرناہے۔تم ایک ایسے دین کے علمبردارہوجوپوری دنیاپرغالب آنے اورپوری دنیاسے ظلم شرک اوربے انصافی کاخاتمہ کرنے اورانسانیت کونجات دلانے کیلئے آیاہے۔ہرمسلمان کیلئے لازم ہے کہ اگروہ اسلام سے وابستگی کادعویٰ کرتا ہے توپھراس دین کواپنے آپ پر،اپنے گھرپر،اپنے گردوپیش پر،اپنے معاشرے پرقائم کرنے کیلئے جدو جہدکرے،اس کے نظام حیات کو اجتماعی طورپرنافذکرنے کیلئے مکمل کرنے کیلئے اپنی ہرصلاحیت اورقوت کواستعمال کرے۔ اقبال کہتے ہیں:
بند حق وارثِ پیغمبراں
او نہ گنجددرجہانِ دیگراں
بندہ حق پیغمبروں کاوارث ہوتاہے۔یعنی وہ اپنے دین کے مطابق اپنی دنیاتعمیرکرتاہے۔اگرگردوپیش اس کے مطابق نہیں ہوتاتو وہ انقلاب لاتاہے اورایک نیاجہان بناتاہے، جہاں وہ اللہ کے دین کوغالب کرنے اوراس کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہوتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔