... loading ...
جاوید محمود
کوا چلا ہنس کی چال مگراپنی چال بھی بھول گیا ۔بھارت نے ہالی وڈ سے متاثر ہو کر بالی وڈ کا وجود رکھا۔ بالی وڈ میں ہالی وڈ طرز کی فلمیں بننا شروع ہو گئیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑے اور نوجوان نسل تیزی سے بے لگامی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں عصمت دری معمول بن گئی ہے۔ بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ میں ایک ہسپانوی سیاح کی وحشیانہ اجتماعی عصمت دری نے غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو اجاگر کیا ہے اور خواتین کے بہتر تحفظ کے مطالبات نے زور پکڑ لیا ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک نے ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں اپنے شہریوں کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ بھارت جانے میں احتیاط کریں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2022 میں بھارت میں ہر روز اوسطا ًتقریبا 90 ریپ کیس رپورٹ ہوئے ۔بھارت کی مشرقی ریاست جھار کھنڈکے ضلع ڈمکا میں 7افراد پر ایک ہسپانوی سیاح کووحشیانہ گینگ ریپ کرنے کا الزام ہے۔ 28سالہ بلاگر اور اس کا 64 سالہ شوہر کئی سالوں سے اپنی موٹر سائیکلوں پر دنیا کا سفر کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یکم مارچ کو ریاستی دارالحکومت رانچی سے تقریبا 200 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ واقعہ ہوا جہاں پر جوڑا ایک خیمے میں رات گزار رہا تھا ۔انہوں نے شہر میں کیمپ ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ انہیں رات گزارنے کے لیے کوئی ہوٹل نہیں ملا تھا۔ عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات راجستھان مہاراشٹر اتر پردیش کریلا اور چھتیس گڑھ میں ہوتے ہیں۔ 2018میں مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ 5,433واقعات رونما ہوئے اسی طرح راجستھان میں 2019 میں سب سے زیادہ 5,997 کے کیس ہوئے اور 2020میں 5130تھے ۔اگرچہ اتنے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں مگر سزا کی شرح بہت کم ہے۔ 2018 میں سزا کی شرح 27.2 اور 2019 میں 27.8فیصد تھی۔ پچھلی چند دہائیوں میں ہندوستان نے غیر معمولی ترقی دیکھی ہے۔ تمام تر ترقی اور ترقی کے باوجود خواتین اب بھی بھیانک جرائم کی شکار ہیں۔
1980 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین دنیا کی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ تقریباً دو تہائی کام کے اوقات انجام دیتی ہیں دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ اور دنیا کی جائیداد کا 100 فیصد سے بھی کم حاصل کرتی ہیں۔ ہندوستان میں لڑکیوں کی حیثیت تاریخی اور سماجی دونوں لحاظ سے عزت و احترام کی رہی ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی تشدد بھارتی حکام کے لیے تشویش ناک صورتحال کا حامل ہے۔ حالیہ دنوں میں تمام حکومتوں نے خواتین کے خلاف جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد پر توجہ مرکوز کی ہے اور تعداد میں آتش فشاں اضافے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم میں عصمت دری غیرت کے نام پر اشتعال انگیزی جہیز کی وجہ سے اموات ہراساں کرنا تیزاب پھینکنا اور اغوا کے واقعات شامل ہیں۔ اس کی پیدائش کے وقت سے یا اس سے پہلے بھی لڑکی کسی جرم کا شکار ہو سکتی ہے یا کسی جرم کا نشانہ بن سکتی ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ جب وہ پیدا ہوتی ہے تو اس کی زندگی اس کے باپ کے زیر کنٹرول ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اس کے شوہر کی موت کے بعد اس کا بیٹا اگرچہ عصمت دری کی صحیح تعریف خود ایک تنازع کا معاملہ ہے، اگرچہ بھارت میں بہت سے عصمت دری کے واقعات رپورٹ نہیں ہو رہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مسلسل خبروں کی سرخیاں بناتا ہے، کچھ عوامی احتجاج کا باعث بنتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا 2008میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق عصمت دری بھارت میں سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا جرم ہے ۔گزشتہ چند سالوں میں وزارت کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کی فہرست میں بھارت تیسرے نمبر پر ہے عصمت دری کو بڑھانے کے پیچھے ایک اہم وجہ مرد کی بالادستی والا معاشرہ ہے۔ ایسے معاشروں میں خواتین کی نمائندگی کم ہے اور بہت سے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورتیں صرف استعمال کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ اس لیے خواتین صرف گھریلو جنسی سرگرمیوں وغیرہ تک محدود ہیں۔ عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کی دیگر وجوہات میں غربت اور تشدد کے درمیان تعلق کو نظر انداز کرناعظمت دری سے منسلک بدنما داغ اور الزام مناسب صنفی تعلیم کا فقدان اور انصاف کا مشکل راستہ بھی ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار بالغ اور نابالغ متاثرین پر مبنی عصمت دری کے رجسٹرڈ کیسز کو ظاہر کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ متاثرین اور شکایت کنندگان کے درج کردہ مکمل تعداد ہے جو 2019 میں پولیس اسٹیشن تک پہنچے۔ راجستھان میں بالغوں کے معاملے میں سب سے زیادہ 4,685 اور نابالغوں کے معاملے میں ایک 1,313 رپورٹ ہوئے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ یہ سب کے درمیان جرائم کے خلاف لڑنے کے لیے بیداری میں اضافے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کی وجہ پولیس افسر کی حوصلہ افزائی اور مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔2020 میں درج ہونے والے عصمت دری کے کیسز کی عمر کے لحاظ سے ایک رپورٹ ہے ۔ حالانکہ عصمت دری 18 سے 45 سال کی عمر میں کی جاتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی بھی عمر کی خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عصمت دری خواتین کی ڈریسنگ سینس کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں روزانہ اوسطاً 88 ریپ کے واقعات ہوئے ہیں۔ تاہم سزا سنانے کی شرح 27.8 فیصد تک کم ہے جس کا مطلب ہے کہ ملزمان میں سے صرف 28 فیصدکو سزا ملتی ہے۔ سزا کی کم شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی مشاہدہ کیا تھا کہ عصمت دری کے 90 فیصد مقدمات میں ملزمان بری ہو جاتے ہیں ۔18 سے 32 سال کی عمر کی خواتین سب سے زیادہ زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ متحرک ہیں اور کسی بھی چیز کے خلاف لڑنے کے قابل ہیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 32 سال سے زیادہ فعال نہیں ہے۔ ہاں وہ سرگرم ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر شادی شدہ ہیں اور ان کے اپنے ہی خاندان کے افراد کی طرف سے عصمت دری کی جا رہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے خاندان کے وقار کو کھونے کے خوف سے ڈرتے ہیں۔ اس طرح 18سال سے کم عمر وہ نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور زیادہ تر اپنے والدین اساتذہ یا دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے خوف سے دوچار ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ہالی وڈ کا راستہ اپنایا اور اپنا راستہ بھول گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ عصمت دری کے دلدل میں دھنس چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔