وجود

... loading ...

وجود

چھمب جوڑیاں پر قبضہ اور بھارتی فوج کی بدحواسی

جمعه 06 ستمبر 2024 چھمب جوڑیاں پر قبضہ اور بھارتی فوج کی بدحواسی

ریاض احمدچودھری

ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کہنے کو تو صرف سترہ روز جنگ تھی، لیکن عملاً اس نے ملک کی اقتصادی، سیاسی اور تہذیبی زندگی پر بہت دوررس اثرات مرتب کئے۔ 1965ء میں پاکستان اور بھارت میں کشمیر کے تنا زع پر سخت کشیدگی اور اس قدر تنائو بڑھ گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں براہ راست جھڑپیں ہونے لگیں تو اس دوران بھارت نے رن کچھ کے دلدلی علاقے پر، جہاں ابھی تک سرحد کا تعین نہیں ہو سکا، حسب روایت نہایت چالاکی سے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی فوج نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال کر اسے الٹے ٹائوں واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا ۔ اس خفت اور ہزیمت کو دور کرنے کیلئے بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے تڑی لگائی کہ وہ اس کا بدلہ لینے کیلئے اپنی مرضی کے محاذ کا انتخاب کرینگے۔ اس پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے پاکستان کی افواج سرحدوں پر پہنچ گئیں اور فوج کے کچھ دستے چھانگا مانگا جنگل میں بھی خیمہ زن ہو گئے کہ ضرورت پڑنے پر وہ فوری طور پر سرحدوں پر پہنچ سکیں ۔
جنگ ستمبر کی ابتدا یوں ہوئی کہ بھارت نے 1964کے وسط میں پاکستان کے آزاد کشمیر میں پہاڑی اور جنگلات کے مختلف علاقوں میں گوریلا آپریشن کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر دراندازی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ جب اس کا علم وہاں تعینات پاک فوج کو ہو ا تو فوری طور پر فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ اور وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مشورہ سے بھارتی سازش کے قلع قمع کے لیے جوابی کارروائی کا ایک منصوبہ بنایا جسے آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا اور اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس منصوبہ کی منظور ی بھی دے دی۔ اسی منصوبہ کا مقصدنہ صرف بھارت فوج کی پیش قدمی روکنا تھا بلکہ یہ طے پایا کہ چھمب جوڑیاں کے علاقے میں کارروائی کر کے اکھنور پر قبضہ کر لیا جائے جس کے نتیجہ میں بھارت کا مظفر آباد کے علاقہ میں قبضہ کا خواب کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
دشمن کے مکروہ عزائم بھانپتے ہوئے افواج پاکستا ن نے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر جنگ ستمبر 1965میں جوابی کاروائی کرتے ہوئے دریائے تو ی عبور کرکے چھمب اور جوڑیاں میں قائم بھارتی قلعہ بندیوں کو روند ڈالا۔پاکستانی فوج نے جس جرا ت اور جوانمردی سے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایااس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ افواج پاکستان نے نہ صرف دشمن پر کاری ضرب لگائی بلکہ اس پر جوابی وار کرتے ہوئے مشرقی پنجاب کے سرحدی شہر کھیم کرن پر قبضہ کرلیا۔یہ طاقت اور جذبہ ایمانی کے درمیان معرکہ حق وباطل تھا۔جنگ سترہ دنوں پر محیط رہی جس میں افواج پاکستان نے دشمن کے سولہ سو مربع میل پر قبضہ کرلیا۔دشمن کو ہر محاذ پر شکست و ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔جب پاکستان کی افواج چھمب جوڑیاں فتح کرنے کے بعد اکھنور پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں رہتے ہوئے حملہ کرنے والی تھیں بھارتی فوجوں نے 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر جارحیت کا ارتکاب کر دیا۔جب پاکستان نے1965 میں جھمب جوڑیاں پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تب ہندوستانی افواج کے مورال گر چکے تھے اور وہ بد حواسی میں پسپا ہورہی تھی۔
6ستمبر کی صبح کاذب کے وقت رات ڈھائی بجے بھارتی فوجوں نے سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر پوری طاقت سے بھرپور حملہ کر دیا اور بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری نے بڑے تکبر سے یہ بڑھک ماری کہ 6 ستمبر کی شام تک لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد وہ جمخانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانے کیلئے خصوصی شراب کا جام نوش فرمائیں گے۔ پاکستانی بہادر افواج نے واہگہ اور برکی کی سرحدوں پر بھارتی فوجوں کے دانت کھٹے کر دیئے اور جنرل چودھری برطانیہ کی مخصوص سکاچ وسکی کا جام تو نوش نہ کر سکے لیکن برطانیہ کے مشہور نشریاتی ادارہ بی بی سی نے لاہور کے انارکلی بازار میں بھارتی فاتح فوج کو گشت کرنے کی فلم چلا دی جو جلد ہی اس ادارے اور برطانیہ کی سبکی اور شرمندگی کا باعث بن گئی۔
لاہور پر حملہ آور ایک پورا بھارتی ڈویژن تھا لیکن 6 ستمبر سے لیکر 23 ستمبر کی سیز فائر تک پاکستان کی بہادر افواج نے بھارتی حملہ آوروں کو بی آر بی نہر سے آگے بڑھنے نہیں دیا اس دوران نہ صرف فوج کے جوانوں اور دیگر عہدیداروں نے دادِ شجاعت کی کئی داستانیں رقم کیں لیکن سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کی افواج کے ساتھ یکجہتی اور دن رات دشمن کے ہوائی حملوں اور زمینی گولہ باری کے باوجود فوج کا حوصلہ بڑھانے، رسد کا سامان اور دیگر سٹورز بشمول ایمونیشن خوراک اور دیگر امدادی سٹور فرنٹ لائن تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا وہ سول ملٹری تعاون کا ایک درخشاں باب ہے۔
لاہور محاذ پر پاکستانی فوج کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے کئی حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور انہیں پیچھے ہٹا کر دم لیا۔ ہماری فضائیہ نے امرتسر کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ پٹھان کوٹ، آدم پور، جودھپور اور آدم نگرکے ہوائی مرکزوں میں فوجی ٹھکانوں کو خاکستر کر دیا۔ ہر آنے والا دِن بھارتی فوج کو تمام محازوں پر ذلیل و خوار کر رہا تھا 6 ستمبر 1965 ء سے لے کر 23 ستمبر 1965ء تک 17 دن جاری رہنے والی اِس جنگ میں بھارتی فوج کی تاریخی پٹائی ہوئی۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانی قوم نے مکمل اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور وہ پاک فوج کی پشت پر ڈٹ کر کھڑ ی رہی ہم ہر مشکل اور کڑے وقت میں فتح و نصرت سے ہمکنار رہے۔ آج وطن عزیز کو بھارت کے علاوہ دیگر نام نہاد حلیفوں سے بھی خطرات لاحق ہیں ، جس طرح پاکستان ترقی کی منازل طے کررہا ہے وہ د شمن کو کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوپارہا ہے۔ستمبر1965 میں پاکستان کوئی ایٹمی ملک نہیں تھالیکن آج اللہ کے فضل سے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے علاوہ دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط ملک ہے اس کی تینوں مسلح افواج بری، بحری اور فضائیہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں اور اس کا قائد اورسپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا ہردلعزیز جری اور بہادر سپاہی ہے۔ بھارت کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہئے، پاکستان پر کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں بھارت کو انتہائی عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر