... loading ...
ب نقاب /ایم آرملک
کیا وہ ایک سچا عاشق رسول ۖہے ؟
مگر ٹھہریئے !
یہ اکتوبر 1994کی بات ہے افریقہ کے شہر ٹرائی پلی میں عالمی مقابلہ حسن ہورہا تھا۔ ٹرائی پلی کاا سٹیڈیم عالمی شہرت کا حامل ہے۔ عالمی مقابلہ حسن دیکھنے کیلئے اس اسٹیڈیم میں تماشائی کم از کم سو فٹ تک بلند ہوتی ہوئی سیڑھیوں جیسی نشستوں پر اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ چنے کے ایک دانے کا سمانا بھی مشکل تھا ۔میچ کی انتظامیہ نے تماشائیوں کو دور بینیں فراہم کر رکھی تھیں۔ اس لیے ٹکٹ بھی ذرا مہنگے تھے۔ مغرب کی ٹیم میں غسل آفتابی کے لباس میں جوڈو کراٹے کی ماہرات کئی دنوں کی نیٹ پریکٹس کے بعد شریک ہوئی تھیں اور مشرق سے کہیں کہیں کسی ملک میں سے اکا دکا ایسے کھلاڑیوں کی ٹیم بنا ئی گئی جو مغرب کی مریدی میں ”لب بند وچشم بند و گوش بند ”کا وظیفہ نہ پڑھتے ہوں، اس پر عمل پیرا بھی نہ ہوں، اس مقابلہ حسن میں ایسی حسینائیں شامل تھیں جو سب کی سب دور نو کی آلودگیوں سے لت پت اور مشرق کے مسکینوں پر ڈورے ڈالنے کی ماہر جس کا نتیجہ سال ہا سال سے شکست کے سوا ہم مسلمانوں کو کچھ نہیں ملا۔جنوبی افریقہ میں منعقد ہونے والے مقابلہ حسن کے ججوں کے پینل میں اسے بھی شامل کیا گیا مگر اس نے ججوں کے پینل میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ مقابلہ حسن کی انتظامیہ نے یہ سوچ کر کہ شاید وہ معاوضے کی کمی کی وجہ سے مقابلے میں شریک نہیں ہو رہا، اس کا معاوضہ آٹھ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دیا
وہ مسلمان تھا اور اسلام کا سچا پیرو کار، اس نے مقابلہ حسن کی انتظامیہ کو جواب دیا مسئلہ پیسوں کا نہیں میں ایک مسلمان ہوں اور میں مقابلہ حسن کو اسلامی تعلیمات کے منا فی سمجھتا ہوں۔
یہ عمران خان تھے!!
کرکٹ کا عالمی ورلڈ کپ جیتنے کے صرف دو سال بعدکا یہ واقعہ ہے ،تب عمران خان کو اپنی سب سے عزیز ہستی اپنی ماں کے نام پر بننے والے کینسر ہسپتال کیلئے ایک ایک پیسے کی ضرورت تھی۔ دین و دولت کی ٹکر میں دین غالب آگیا اور عمران خان نے عالمی مقابلہ حسن میں نہ صرف شرکت سے انکار کردیا بلکہ اسے غیر اسلامی بھی قرار دے دیا۔
کیتھرائن بینیٹ کو پیسے دیکر گارڈین میں کالم لکھوا کر ن لیگی حواریوں اور لے پالک پاکستانی میڈیا نے ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیے ہیں ، کل تک جو عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے تھے آج ثابت کر رہے ہیں کہ عمران خان نے ایک ملعون رشدی کے ساتھ انڈیا میں ا سٹیج شیئر کرنے سے انکار کردیا ،جنگ جیو ،ایکسپریس ،پی ٹی وی اور دیگر پاکستانی چینلز سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ عمران خان اسلام کا شیدائی ہے ، کیا یہ سوچا جاسکتا تھا کہ عمران خان کے مخالف اس حد تک گر جائیں گے کہ خود کو مذہب سے علیحدہ اور نبی پاکۖ کی محبت سے لاتعلق کر لیں گے؟
آج پاکستانی میڈیا ،ن لیگ کے حواری یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ عمران خان ایک سچا عاشق رسول ۖہے ۔
انسانیت کا قیام ہوا تو طاغوتی سربراہ شیطان الرجیم نے حکم خداوندی کو اپنے ذہن کی کسوٹی پر پرکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ کا وہ حکم جسے اپنا ذہن تسلیم نہ کرے اس کی تعمیل چنداں ضروری نہیں ۔اس طرز عمل کے ساتھ ہی تہذیب باطل کی بنیاد وجود میں آگئی۔ شیطان نے قرب الٰہی سے محرومی قبول کی اور ہمیشہ کیلئے راہ حق کے مسافروں سے متصادم رہنے کا عہد کیا۔ شیطان راندہ ٔدرگاہ ہوا تو اس کے شر کو پھیلانے والوں کا بھی جنم ہواجو کبھی تسلیمہ نسرین توکبھی سلمان رشدی کی شکل میں پیدا ہوئے ۔شہرت کی حرص میں یا پھر اپنے اذہان و قلوب کی غلاظت میں ان لعینوں نے ایسی حرکات کا ارتکاب کیاکہ اب چھپتے پھرتے ہیں ۔عمران ایک بار پھر جیت گیاہے ۔ اس نے انڈیا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ اس کانفرنس میں ملعون رشدی کی شرکت اور خطاب تھا ۔عمران نے اپنی دینی تہذیب کے شعور کو اجاگر کیا۔اور تہذیب تو طرز زندگی کا نام ہوا کرتا ہے جو انسان کے جملہ شعبہ ہائے حیات کا احاطہ کرتی ہے جس کے ماخذ اجتماعی عقائد ،طرز فکر ،موسمیات ،جغرافیائی عوامل ،طریقۂ معیشت و معاشرت ہیں ،ان تمام میں سب سے اہم جوتہذیب کو جنم دیتے ہیں عقا ئد ہوتے ہیں۔ جب دو تہذیبوں کا تصادم ہو تا ہے تو جس تہذیب کے عقائد کی بنیاد فطرت سے ہم آہنگ اور حقیقت کائنات سے قریب تر ہوتی ہے، وہ تہذیب زیادہ مستحکم ،دوررس اور چشم بینا و دل راسخ کو راغب کرنے کی صلا حیت کی حا مل ہو تی ہے۔ عمران نے مغر بی تعلیمی اداروں میں تعلیم حا صل کی مگر اس کا جنم تو اسلامی تہذیب میں ہوا۔ اس کا خمیر تو ایسی مٹی اور خطہ سے اٹھا جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا !
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
عمرا ن کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والوں کے چہرے پر وقت کالک مل رہا ہے ،اسے یہودی ایجنٹ کہنے والے یہودیت کی خوشنودی کیلئے کہاں کہاں سر بسجود ہیں ، رب ذوالجلال جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ،عمران خان کیلئے اس نے عزت لکھ دی اور مخالفین کے گلے میں ذلت کا طوق ڈال دیا ،جو یہودیت کی مریدی میں ”لب بند وچشم بند و گوش بند ”کا وظیفہ پڑھنے میں سب سے آگے ہیں ۔کیا اس پر آشوب سیاسی د ور کا المناک پہلو یہ نہیں کہ یہاں جذبوں کی صداقت اور سچائی کو جانچنے کی کوئی لیبارٹری نہیں۔ ترقی کے باوجود ہم جذبوں کی درست ترسیل کا ذریعہ ایجاد نہیں کر پائے