... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ایسے حالات میں جب چی کے بڑھتے رسوخ سے بھارت کو خطے میں س جیدہ وعیت کے چیل ج درپیش ہیں، ری درامودی ے چیل جز بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی رہ ما ب ے کی کوششیں شروع کردی ہیں جس میں کامیابی کے امکا ات کے بارے میں وثوق سے کچھ کہ ا مشکل ہے۔ بظاہر اکامی کاامکا قوی ترلگتاہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے اپ ے ملک کو مسائل کے گرداب میں پھ سا چھوڑ کر دیگر ممالک میں ثالثی کرا ے کی روش پر سفرشروع کردیا جائے۔ اِس حکمت ِعملی پر تجزیہ کار حیرا ہیں اور ا درو ِ ملک زوال پزیر مقبولیت کو س بھالا دی ے کی کوشش کہتے ہیں تو کچھ غیرجا بدارا ہ پالیسی کو دوبارہ اپ ا ے کے ت اظر میں دیکھتے ہیں جس کے تحت بھارت سب سے ب ا کر رکھ ے کی کوشش کرتا ہے۔ چی کی سعودی عرب اور ایرا میں تعلقات بحال کرا ے کی س جیدہ کوششیں تیجہ خیزثابت ہوئیں جس سے ہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں ام کے لیے جاری کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ خطے میں چی کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کی حیثیت سے قبول کیے جا ے کا تاثر گہرا ہوا کیو کہ بھارت خود کو چی کا مد مقابل تصور کرتا ہے۔ اسی لیے شاید مودی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسی کامیابی حاصل کر ا چاہتے ہیں جو ہ صرف بھارت کاعالمی تشخص بہتر ب ا ے کا باعث ب ے بلکہ د یا مودی کو ایک عالمی رہ ما کے طورپر بھی قبول کرلے۔
سابقہ حکمرا وں کی طرح مودی بھی بھارت کا غیر جا بدار تشخص بحال کر اچاہتے ہیں چی کے ساتھ سرحدی و تجارتی مسائل کے باوجود چی سمیت عالمی طاقتوں سے ہموار اور خوشگوارتعلقات رکھ ے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیک اب ماضی کی طرح بھارت کی سب سے ب ا کر رکھ ے کی پالیسی کا کارگر ہیں رہی ،وہ مودی کی حکمرا ی میں جس راہ پر چل کلا ہے اب واپسی کافی مشکل ہو گئی ہے۔ اگر روس اور امریکہ سے تعلقات میں تواز رکھ ا ہے تو اُسے امریکی قیادت میں ہو ے والے جاپا اور آسڑیلیا سے ایسے معاہدوں کو خیربادکہ اپڑے گا ج سے بھارت پر روس مخالف اتحادکا حصہ ہو ے کی چھاپ گہری ہو ئی ہے مگر خطے میں چی کا متبادل ہو ے کا دعویدار یہ ملک ایسے کسی اقدام کا متحمل ہیں ہو سکتا اِس لیے مزیدعرصہ بیک وقت روس اور امریکہ کا اعتماد حاصل رکھ ا اممک ہوتاجارہا ہے۔ عالمی پاب دیوں کی وجہ سے فی الحال تو روس ے بھارتی کے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف جھکائو کو ظر ا داز کر رکھا ہے لیک جلدبدیر فیصلہ کُ وبت آسکتی ہے ۔روس اور چی کی فروغ پزیر شراکت داری کے ت اظر میں زیادہ امکا یہی ہے کہ امریکی کیمپ میں خود کو زیادہ آسودہ محسوس کرے۔ اِس ب اپر روس سے موجود قُربت سے دستکش ہو ا بعیدازقیاس ہیں۔ اگر ایسا ہوتاہے تو ہ صرف غیر جا بدار ہ تشخص بحال کر ے کی کوششیں اکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں بلکہ عالمی رہ ما ب ے کی بھاگ دوڑ بھی بے ثمر ہو ایقی ی ہے۔
روسی صدر پوٹ سے گلے ملتے ہوئے گرم جوشی دکھا ے پرمودی سے امریکہ اور اُس کے مغربی حلیف اخوش ہیں اور ا ھوں ے اِس حرکت پر ہدفِ ت قیدب ایا ہے۔ شاید اسی لیے چ د ہفتے بعدہی مودی ے روس اور یوکری کے درمیا ج گ ب دی کرا ے کی خواہش ظاہر کر دی اورپھر بڑے طمطراق سے صدر زیل سکی سے بھی گلے جا ملے مگر اِس ملاقات کو ج گ ب دی کرا ے کے طورپر تسلیم کر ا مشکل جبکہ امریکی اعتماد بحال رکھ ے کی کاوش کہہ سکتے ہیں۔ دراصل کئی دہائیوں سے بھارت کی پالیسی ہے کہ سب سے ب ا کر رکھ ے کی کوشش کی جائے جہاں سے جوفائدہ ملتا ہے حاصل کر ے میں دیر ہ کی جائے ۔ بھارت فع کو ترجیح دیتاہے۔ روس اور یوکری سے تعلقات کو دستیاب اعدادو شمار کے ت اظر میں دیکھا جائے تو روس اور بھارت کی باہمی تجارت دس ارب ڈالر کے قریب ہے جسے 2025تک دو وں ممالک تیس ارب ڈالر تک لے جا ا چاہتے ہیں۔ دو وں باہمی سرمایہ کاری کا حجم پچاس ارب ڈالر کر ے کے آرزو م دہیں۔ یز بھارت کوسب سے زیادہ ہتھیار برآمد کر ے والا ملک آج بھی روس ہے اور وہ اپ ی ساٹھ فیصد دفاعی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے۔ علاوہ ازیں روس اپ ے دیری ہ حلیف بھارت کوتیل فراہم کر ے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے لیک یوکری اور بھارت کا تجارتی حجم محض چارارب ڈالر ہے اور یوکری سے محدودپیما ے پر بھارت دفاعی سازو ساما جیسے گولہ بارو،ا ج اور ٹیک الوجی لیتا ہے۔ روس کے مقابلے میں یہ تجارتی شراکت داری ہایت مایوس کُ ہے۔ بھارت کے پچاس شراکت داروں میں سے ایک یوکری ہے۔ ہر حوالہ سے روس کو یوکری پر فوقیت حاصل ہے۔ لیک ئے حالات میں امریکہ اب بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ اِس لیے اُسے مطمء رکھ ا بھارت کی مجبوری ہے۔ گزشتہ ماہ 23اگست کومودی ے یوکری کا مختصر دورہ کیا جس کا دورا یہ محض 9 گھ ٹے رہا۔ یوکری کے آزاد ہو ے کے بعد یہ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے۔ اِس دورا دو وں ممالک میں ادویات،زراعت ،ا سا ی امداداور ثقافت جیسے شعبوں میں تعاو بڑھا ے کے لیے چار معاہدے ہوئے مگر ئے معاہدوں کے باوجود بھارت و روس جیسے تعلقات کی م زل ہیں مل سکتی۔ پوٹ کو گلے لگا ے کے چ د ہفتے بعد ہی یوکری کے صدر کو گلے لگا کر مودی ے دراصل امریکہ اور مغربی ممالک کے تحفظات دور کیے ہیں جس میں وہ کس حد تک کامیاب رہے ؟اِس سوال کاجواب حاصل کر ے کے لیے جلدبازی کی بجائے ا تظاربہتر ہے ہاں اِت اکہہ سکتے ہیں کہ مودی ے روس اور یوکری کے ساتھ بیک وقت تعلقات رکھ ے اور دفاعی حوالے سے تواز لا ے کی کوشش کی ہے ۔
عالمی رہ ما ب ے کے لیے ضروری ہے کہ ہمسایہ ممالک کے تحفظات دور کیے جائیں تاکہ وہ ہمسائیگی میں خود کو محفوظ خیال کریں یز جارحا ہ حکمت عملی کے بجائے ام پس دا ہ طرزِ عمل اپ ایا جائے لیک مودی کی حکمرا ی میں بھارت ج وبی ایشیا میں ایک ایسا اقابل اعتبارملک ب گیا ہے جس سے کوئی ہمسایہ خوش ہیں۔ سری ل کا سے اُٹھ ے والی بھارت مخالف لہر یپال ،مالدیپ سے ہوتی ہوئی ب گلہ دیش تک جا پہ چی ہے۔ مگر بھارت ے فرت کی لہر کو کم کر ے کی کوئی کوشش ہیں کی اور ہ ہی کسی ہمسایہ سے تعلقات بہتر ب ا ے کے لیے اعتمادسازی کے اقدامات کی ضرورت محسوس کی ہے بلکہ ڈراکرساتھ ملا ے کی کوشش کرتاہے جسے قابلِ تعریف یا تحسی ہیں کہا جا سکتا۔اسی ب اپر چی کو مفادات کے حصول میں آسا ی ہے۔ ایسے حالات میں جب کوئی ہمسایہ بھارت سے خوش ہیں اور ملک کے ا دربھی مودی فلسفے کے اقدی کی تعداد بڑھتی جارہی جس سے وہ اپ ی مقبولیت کے کمزورتری درجے پرجاپہ چے ہیں۔ اِ حالات میں عالمی رہ ما ب ے کی کوششیں باعث تعجب ہیں خیر مودی سے کچھ بھی ممک ہے۔
ممک ہے مودی کا خیال ہو کہ بھارت کاروس اور یوکری سے بیک وقت قریبی دوطرفہ تعاو ہے اِس لیے اگر وہ ثالثی کی کوشش کریں
گے تو دو وں ممالک پُرجوش خیر مقدم کریں گے۔ اِس کے باوجود وہ ام کوششوں کے لیے پہل بھی ہیں کر ا چاہتے ہ ہی دو وں ممالک ے مودی کی حوصلہ افزائی کی ہے شاید وہ چاہتے ہیں دو وں ملک خودہی لڑائی چھوڑ کر ج گ ب دی کا سہرابھی اُ کے سرپر رکھ دیں ۔البتہ دورے کے فوری بعد مودی کا صدر پیوٹ اور صدرجوبائیڈ کو ٹیلی فو کر اثابت کرتا ہے کہ وہ روس اور امریکہ دو وں کو بھاگ دوڑ سے مطمء کر ے کی آرزو رکھتے ہیں مگر تجزیہ کار متفق ہیں کہ مسلم دشم ی کے سوا مودی ہر معاملے میں گومگوکا شکار ہیں۔ اگر وہ ایک قدم اُٹھاتے ہیں تو اگلے ہی لمحے پیچھے ہٹ جاتے ہیں عالمی رہ مااِت ا کمزور ہیں ہو سکتا بلکہ عالمی رہ ما تو اعتماد سے قدم بڑھاتا اور دلیل سے قائل کرتا ہے مگر مودی میں اعتماد اور دلیل دو وں کا فقدا ہے ۔اِس لیے عالمی رہ ما جیسا کٹھ اور دشوار مرحلہ توحاصل ہو اممک ہیں البتہ مودی کی کوششوں کو سب سے فائدہ اُٹھا ے کی بھارتی پالیسی کااحیاکہہ سکتے ہیں ۔