... loading ...
جاوید محمود
اقوام متحدہ کی ترقیاتی پروگرام نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ غزہ میں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کا کام 2040 تک جاری رہ سکتا ہے ۔پوری پٹی میں تعمیری نو کی کل لاگت 40 سے 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہے ۔موجودہ صورتحال میں غزہ میں تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ بارود کے ڈھیر کی مانند ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن برتھ نے کہا ہے کہ غزہ دنیا میں جہنم بن چکا ہے۔ ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے نظام میں سامنے آنے والی تمام معلومات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت دنیا میں غزہ سے بدتر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ۔انسانی بحران اپنے عروج پر ہے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ غزہ میں 20لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہیں اور انہیں امداد پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو 10 ماہ ہو چکے ہیں لیکن ناروے سمیت کوئی مغربی ملک اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنے اور انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کو پوری شدت سے مسترد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیل حماس سے انتقام لینے کے لیے تنازع کی تمام حدوں کو عبور کر چکا ہے لیکن امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی طرح ناروے کے وزیر خارجہ کو بھی انسانوں کے بے دریغ قتل املاک کی تباہ کاری اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے سے اسرائیل کے مسلسل انکار کے باوجود یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ اسرائیل اس وقت نسل کشی جیسے انسان دشمن جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس ایسپین نے انٹرویو کے شروع میں ہی تفصیل سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جنگ کا آغاز حماس نے کیا تھا اور 7اکتوبر 2023ء کواسرائیل پر حملے میں 1200افراد ہلاک اور کئی سو یرغمال بنائے گئے تھے۔ انہوں نے اسے ہولو کوسٹ کے بعد یہودیوں کے قتل عام کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا۔ اب ان ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل آپے سے باہر ہو رہا ہے لیکن 365 مربع کلومیٹر پر مشتمل غزہ کے چھوٹے علاقے پر مسلسل بمباری کے باوجود اسرائیل باقی ماندہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ یرغمالیوں کو رہا نہیں کروا سکا۔ اگرچہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کو مکمل طور پر تباہ کر کے ہی دم لے گا لیکن اسرائیلی فوج کی کارروائی صرف ان معنو ںمیں کامیاب ہے کہ وہ اپنی بے پناہ عسکری طاقت اور امریکہ سے مسلسل ملنے والی فوجی امداد کے برتے پر فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ میں عمارتوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ اس علاقے میں اسرائیلی جارحت میں شہید ہونے والوں کی تعداد پونے دو لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کا انکشاف لندن میں شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ نے کیا ہے جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ زخمیوں اور معصوم بچوں کی نگہداشت سے قطع نظر غزہ کی 25 لاکھ شہریوں کو خوراک اور پانی کی فراہمی بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی تنظیمیں مسلسل غزہ میں ابتر ہوتی انسانی صورتحال کی طرف توجہ مبدول کرا رہی ہیں۔ لیکن اسرائیل اس وقت صرف شہریوں کو ہلاک کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور عالمی ضمیر کے نام پر غریب ممالک یا روس و چین جیسے دشمن ممالک کو تند و تیز تنقید کا نشانہ بنانے والے امریکہ اور اس کے حواری ممالک مسلسل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ بلکہ انہیں ظالم کو ظالم کہنے قتل کو قتل قرار دینے اور جرم کو جرم بتانے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایک ناروے کے وزیر خارجہ کا انٹرویو ہے ۔وہ اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔غزہ کے شہریوں کی زندگی جہنم بنا دینے کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود فلسطینی ہلاکتوں کو ایک ریاست کی نسل کشی قرار دینے کا حوصلہ نہیں کرتے بلکہ اسرائیل پر کسی قسم کی پابندی لگانے کے امکان کو بھی مسترد کر رہے ہیں ۔نارویجین وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ناروے غزہ میں مدد فراہم کرنے اور جنگ بند کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی طرف سے اسرائیل پر پابندی لگانے سے ان انسانی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ مغربی ممالک کے لیڈروں کی عذر خواہی کو ناروے سمیت یورپی ممالک کے شہری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ناروے میں ایک بار پھر فلسطین کے حق میں مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ناروے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف تحریک چلانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ناروے کی حکومت کو زیادہ مستعدی سے جنگ بند کروانے اور غزہ کے شہریوں کی زندگی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اسرائیل اگرچہ ایک بڑی فوجی طاقت ہے اور اس خطے کا کوئی بھی دوسرا ملک اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس تنازع میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اسرائیل اپنی تمام تر عسکری قوت کے باوجود امریکہ کی غیر مشروط حمایت اور اسلحہ اور بارود کی مسلسل ترسیل کے بغیر 10ماہ تک غزہ پر بے درد بمباری نہیں کر سکتا تھا اگرچہ یہ غیر مشروط امداد نہ کی جاتی تو اسے کسی نہ کسی طریقے سے مصالحت کا کوئی راستہ تلاش کرنا پڑتا۔امریکی صدر جو بائیڈن تمام عمر انسانی حقوق اور جمہوریت کا پرچار کرنے کے باوجود اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ امریکی سیاسی لیڈروں میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے مقابلے میں دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیسے بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حمایت کریں گے۔ امریکی لیڈروں کی اسی کمزوری کے سامنے پوری دنیا لاچار ہے اورنتن یاہو جیسا سفاک لیڈر بے باقی سے انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ ان حالات میں اگر نارویجین وزیر خارجہ کے اس بیان پر غور کیا جائے کہ غزہ اس وقت دنیا میں جہنم بنا ہوا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ جہنم دنیا کے طاقتور ممالک کی ملی بھگت سے تیار کی جا رہی ہے کسی کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس جہنم کے شعلے صرف غزہ کی فلسطینیوں کو ہی ہلاک کریں گے۔ اگر اب بھی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے اپنا طرز عمل تبدیل نہ کیا تو آگ کے یہ شعلے اسرائیل اور دیگر ممالک کی تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔اسرائیل اپنے عوام کو ہلاک کر کے اپنی حفاظت کا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی سربراہی میں نام نہاد مہذب دنیا کا یہ موقع منافقت پر مبنی ہے کہ یہ دو طرفہ جنگ ہے۔ حجت کے طور پر اگر تصدیق کر بھی لی جائے کہ حماس ایک دہشت گرد گروہ ہے جس نے پہلے حملہ کیا تو اسرائیلی کارروائی کو حق دفاع قرار دے کر درحقیقت ایک ایسی دہشت گرد ریاست کی حمایت کی جا رہی ہے جو فلسطینیوں کو ہلاک یا اس علاقے سے باہر دھکیلنے کا عزم رکھتی ہے ۔دو بدمعاشوں کی لڑائی میں جب دنیا ایک بڑے اور ظالم بدمعاش ملک کو انسانوں کو مارنے کا لائسنس دے گی تو اس حکمت عملی سے امن کی امید نہیں کی جا سکتی۔
یورپی ممالک 17 اکتوبر کے حملے کو ہولو کاسٹ سے ملا کر اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سچ ماننے نے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ ہولوکاسٹ میں فلسطینیوں نے یہودیوں کو نہیں مارا تھا بلکہ ایک یورپی ملک جرمنی نے انہیں گیس چیمبرز کے حوالے کیا تھا۔ یورپی ممالک کس قانون یا اخلاق کی بنیاد پر فلسطینیوں کے خون سے اس کی قیمت ادا کروانا چاہتے ہیں۔ غزہ میں یکطرفہ جنگ جوئی اور زمین کو جہنم بنانے کے اسرائیلی طرز عمل کی روشنی میں یورپ کے دانشور کو سوچنا پڑے گا کہ ان کی حکومتوں کی بے حسی کو کل کا مورخ کن الفاظ میں یاد کرے گا۔ سیاسی سفارتی مجبور یوں کے نام پر انسانی اقدار کوبھلانے کا موجودہ طرز عمل تمام مہذب دنیا کے چہرے پر سیاہی پوت رہا ہے۔ یورپی دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اپنی نسل کو انسانی دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔