... loading ...
سمیع اللہ ملک
برصغیرکی تقسیم جیسی زمینی حقیقت کے بعداب تاریخ کوجھٹلانے یاان حقیقی خاکوں میں جھوٹ وبدنیتی کارنگ بھرکرتاریخی واقعات کی شکل بگاڑکرنئی نسل کوگمراہ کرکے اقبال سے بدظن کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے چاندپرتھوکاواپس اپنے منہ پرگرتاہے۔8دہائیوں کے گزرنے کے بعداقبال پرپنڈت نہروکے اس بے جاالزام کوکیوں دہرایاجارہاہے کہ اقبال اپنی زندگی کے آخری دورمیں سوشلزم کے زیرِاثر تصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے۔کیاان الزامات سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں کہ دوبارہ ایسااکھنڈبھارت قائم ہوجائے جہاں ہرروزکشمیراورگجرات جیسی قیامتیں مسلمانوں پرڈھائی جائیں!اقبال جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کاخواب دیکھا،ان کواس الزام میں آخرکیوں ملوث کیاجارہاہے؟ اور ایک ہی وقت میں بھارت اورپاکستان میں ایسابے ڈھنگاراگ کیوں سنائی دے رہاہے؟آئیے تاریخ کے جھروکوں سے حقائق کی دنیامیں جھانکتے ہیں:
پنڈت جی اپنی کتاب ڈی ڈسکوری آف انڈیاجوانہوں نے1944میں قلعہ احمدنگرکے زنداں میں بیٹھ کرتحریرکی تھی،اس کتاب میں انہوں نے بطورشاعراورمفکراقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگراقبال کوخراجِ تحسین کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ایک شاعر،عالم اورفلسفی تھے اورپرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے۔پنڈت جی مزید لکھتے ہیں کہ”اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ انہوں نے اس تجویزکی لغویت اوران خطرات کومحسوس کرلیاتھاجواس تجویزمیں مضمرہیں۔ برطانوی مصنف ایڈورڈتھامس نے لکھاہے کہ”ایک ملاقات کے دوران اقبال نے ان سے یہ کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدر کی حیثیت سے پاکستان کی حمائت کی تھی مگران کویقین تھاکہ یہ تجویز مجموعی طورپرہندوستان اورخصوصاًمسلمانوں کیلئے مضرہے۔شائدانہوں نے اپناخیال بدل دیاتھایاپہلے اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کیاتھا کیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔ان کاعام نظریہ زندگی پاکستان یاتقسیمِ ہندکے اس تصور کے ساتھ جوبعدمیں پیداہوا،ہم آہنگ نہیں تھا۔آخری عمرمیں اقبال کارحجان اشتراکیت کی طرف بڑھتا گیا۔سوویت یونین کی زبردست کامیابی نے ان کوبہت متاثرکیااوران کی شاعری کارخ بدل گیا”۔
پنڈت نہروکایہ الزام سراسرغلط ہے،ان کایہ الزام لاعلمی پرنہیں بلکہ بدنیتی پرمبنی ہے جن لوگوں نے اقبال کی شاعری،فلسفہ اور سیاست کاسرسری سے بھی کم مطالعہ کیاہے وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ جاگیرداری نظام کااقبال سے بڑادشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔پنڈت جی سے سب سے بڑا تاریخی سہویہ ہواکہ وہ بھول گئے کہ ان کی کتاب سے3برس قبل قائداعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہوچکے تھے،یہ انگریزی کتاب یقیناپنڈت جی کی نظرسے گزرچکی ہوگی،اس کتاب میں شامل 28مئی 1937 کاوہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں پنڈت جی کی ”بے خداسوشلزم”کوبھی زیرِبحث لایا گیاہے اوربتایاگیاہے کہ مسلمان تورہے ایک طرف،خودہندومعاشرہ بھی ”بے خداسوشلزم”کوہرگزقبول نہیں کرے گا۔پنڈت جی کی سوشلزم کوردکرتے وقت اقبال نے قائداعظم کو بتایا ہے کہ اگراسلامی شریعت کی دورِحاضرکے معاشی نظریات کی روشنی میں ازسرِنوتفسیرکی جائے تومسلمان عوام کی روٹی روزگارکامسئلہ بہتر طور پرحل ہوسکتاہے۔مسلمان کوغربت کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون سازاسمبلی ہواوریہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خودمختارمملکت میں ہی قائم کی جاسکتی ہے۔اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکارپکارکرکہہ رہے ہیں کہ:
اول: اقبال جواہرلال نہروکے ”بے خداسوشلزم”پراسلام کے اقتصادی نظام کوترجیح دیتے ہیں۔
دوم: اسلام کے اقتصادی نظام کوعہدِجدیدکے سیاق وسباق میں نافذکرنے کیلئے جداگانہ مسلمان مملکت کاقیام ضروری ہے۔
سوم: اپنی وفات سے فقط چندماہ پہلے وہ قائداعظم کویہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ قیامِ پاکستان کوکل ہند مسلم لیگ کاسیاسی پروگرام بنالیں۔
چہارم: اس خط کے آخرمیں وہ قائداعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیاوہ وقت نہیں آپہنچاجب ہمیں کھل کرقیامِ پاکستا ن کواپنی منزل قراردے دیناچاہئے؟
پنڈت جی دانستہ طورپراقبال کی وفات سے تین ماہ پیشترمیاں افتخارالدین کے ہمراہ جاویدمنزل میں علامہ اقبال سے جوملاقات کی تھی، اس ملاقات کی خوشگواریادوں کایہ واقعہ بیان کرناکیوں مناسب نہیں سمجھالیکن اسے ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ”اقبال کے آخری دوسال”میں بیان کردیاہے۔محترم بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
پنڈت نہرواس زمانے میں زورشورسے سوشلزم کاپروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے،انڈین نیشنل کانگریس کے دواجلاسوں کے وہ صدر رہ چکے تھے اوردونوں مرتبہ اپنے خطباتِ صدارت میں انہوں نے کہاتھاکہ ہندوستان کے تمام مصائب کاعلاج سوشلزم ہے لیکن کانگریس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہروکامعاون یا ہم خیال نہیں تھابلکہ سردار پٹیل،راج گوپال اچاریہ اور ستیہ مورتی نے توعلی الاعلان پنڈت نہروکے اس عقیدے سے اختلاف کااظہارکیاتھا۔دورانِ ملاقات میں ڈاکٹرصاحب نے پنڈت نہرو سے پوچھاکہ سوشلزم کے بارے میں کانگریس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟پنڈت جی نے جواب دیاکہ ،نصف درجن کے قریب۔ڈاکٹرصاحب نے فرمایا”تعجب ہے،خودآپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے،ادھرآپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کوکانگریس میں شامل ہونے کامشورہ دوں،توکیامیں دس کروڑمسلمانوں کوچھ آدمیوں کی خاطرآگ میں جھونک دوں؟”اس پرپنڈت جی خاموش ہوگئے۔اسی ملاقات میں ایک اورناگواواقعہ بھی پیش آیاتھااورپنڈت جی نے اس کوبھی قوم کوبتانامناسب نہیں سمجھا،ہاں البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کردیاہے:
ابھی ان دوعظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگوجاری تھی کہ یکایک میاں افتخارالدین بیچ میں بول اٹھے کہ”ڈاکٹرصاحب!آپ مسلمانوں کے لیڈرکیوں نہیں بن جاتے؟مسلمان مسٹرجناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں،اگرآپ مسلمانوں کی طرف سے کانگریس کے ساتھ بات چیت کریں تونتیجہ بہترنکلے گا۔ڈاکٹرصاحب لیٹے ہوئے تھے،یہ سنتے ہی غصے میں اٹھ کربیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے”تواچھا،یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلاپھسلاکرمسٹرجناح کے مقابلے میں کھڑاکرناچاہتے ہیں،میں آپ کو بتادیناچاہتاہوں کہ مسٹرجناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈرہیں اورمیں توان کامعمولی سپاہی ہوں”۔اس کے بعدڈاکٹرصاحب بالکل خاموش ہوگئے اور کمرے میں تکدرآمیزسکوت طاری ہوگیا۔نہرو نے فوراًمحسوس کرلیاکہ میاں افتخارالدین کے دخل درمعقولات نے ڈاکٹر صاحب کوناراض کر دیاہے اوراب مزیدگفتگوجاری رکھنابے سودہے چنانچہ وہ اجازت لیکررخصت ہوگئے۔ حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کوتوآسانی سے فراموش کردیامگر ایڈورڈتھامسن کی گپ شپ کوناقابلِ تردید تاریخی صداقت کادرجہ دے دیا۔ایڈورڈتھامسن آکسفورڈیونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استادتھے اورتاریخ ہندسے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔وہ دومرتبہ برطانیہ کے اخبارمانچسٹرگارڈین کے نامہ نگارکے روپ میں بھی برٹش انڈیا تشریف لائے تھے۔گاندھی، رابندرناتھ ٹیگور،راج گوپال اچاری،سردارپٹیل اورجواہرلال نہروکے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے،وہاں کانگریس کی پرجوش وکالت کاکوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔جس روایت کاسہارالیکرپنڈت جی نے اقبال پرالزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اورعلامہ اقبال کی زبانی گفتگو پرمبنی ہے۔ایڈورڈ تھامسن موصوف کایہ بیان قائداعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالاخطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہرو ملاقات کے مندرجہ بالااحوال ومقامات کی بنیادپرجھوٹ ثابت ہوتاہے۔اقبال آخردم تک اپنے تصورِپاکستان کوقیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گردیکھنے کی تمنامیں سرشاررہے۔ قائداعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اوراسلامیانِ ہندکویہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمدعلی جناح کی طویل زندگی کی دعائیں مانگو،صرف جناح ہی قوم کی کشتی کوساحل ِمرادتک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے کیوں محوہوگئی تھیں یا انہوں نے ان باتوں کو ناخوشگواراوراپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردیدسمجھ کراپنی کتاب میں درج کرناکیوں مناسب نہیں سمجھا؟
نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرِ کارواں کیلئے
اس کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ علامہ اقبال ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ میرے نبیۖکا یہ مبارک فرمان ہے کہ تم میں بہتروہ شخص ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔اسی لیے نظریاتی اختلاف کے باوجودعلامہ اقبال اورپنڈت نہروکے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے۔پنڈت نہرونے1933 میں لندن کی گول میزکانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرزِفکروعمل کو تنقیدکانشانہ بنایاتھا۔گاندھی کے اس رویہ کی حمائت میں نہروکی لب کشائی پراقبال حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگرنہرو شریک نہیں تھے۔ کانگریس کی نمائندگی گاندھی نے کی تھی۔گاندھی نے واپسی پرکہاکہ انہوں نے ذاتی طورپرمسلمانوں کے تمام مطالبات کوقبول کر لیا تھا مگر سیاسی رجعت پسندی کی بنا پر مسلمانوں نے کانفرنس کوناکام بنادیا۔نہرونے گاندھی کی باتوں میں آکرمسلمان مندوبین کے خلاف ایک انتہائی سخت سیاسی بیان داغ دیاچنانچہ علامہ اقبال نے گاندھی کے اس الزام کی تردید میں نہروکوجوخط تحریرکیااس میں علامہ کااخلاق ملاحظہ فرمائیں:
”میں پنڈت جواہرلال نہروکے خلوص اورصاف گوئی کی ہمیشہ سے قدرکرتارہاہوں۔مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جوتازہ ترین بیان انہوں نے دیاہے اس سے خلوص ٹپکتاہے اوریہ چیزآج کل کے ہندوستانیوں میں کم یاب ہے لیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ پچھلے تین سالوں میں جوگول میزکانفرنسیں لندن میں منعقد ہوئی ہیں ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق پنڈت جی کی تحقیق کی بنیادکسی تعصب پرمبنی ہے”۔اس خوش گمانی کے اظہارکے بعدعلامہ اقبال نے اصل حالات کوبے نقاب کرتے ہوئے بتایاکہ” گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات کوذاتی طورپر ماننے کاعندیہ تودیاتھامگرساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھاکہ وہ اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کوتسلیم کرلے گی،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیاتھاکہ کانگرس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیاردینے کیلئے کبھی بھی رضامندنہیں ہو گی، گویاعملًا گاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کورد کردیاتھا،مسٹرگاندھی جی کی دوسری غیرمنصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمائت ترک کردیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمائت سے دستبرداری سے انکارکرکے گاندھی جی کوناراض کردیاتھا”۔چنانچہ اپنے اس خط میں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اپنے زدِعام سوشلسٹ خیالات کے پیشِ نظرپنڈت جواہرلال نہرواس انسانیت کش شرط کی کیسے حمائت کریں گے؟کم ازکم انہیں یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ مسلمانوں کوسیاسی معاملات میں رجعت پسندی کا الزام دیں۔اس صورت میں میں وہ لوگ جوہندوں کے فرقہ پرستانہ مقاصدکو اچھی طرح سمجھتے ہیں،اس نتیجے پرپہنچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندو مہاسبھاکی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں”۔
مسلمانوں کے خلاف پنڈت جواہرلال نہروکادوسراالزام یہ تھاکہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا:اگرقومیت سے ان کی مراد یہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کوحیاتاتی معنوں میں ملاجلاکرایک کردیاجائے توپھر میں ہی اس نظریہ قومیت سے انکارکامجرم ہوں۔میں پنڈت نہروسے ایک سیدھاساسوال کرنا چاہتاہوں،جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑکی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کوجنہیں وہ اپنی بقاکیلئے ضروری سمجھتی ہے،نہ مان لے اورنہ ہی ثالث کافیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحد قومیت کی ایسے رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کااپناہی فائدہ ہے،ہندوستان کامسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے؟ اس سے صرف دوصورتیں نکلتی ہیں،یاتواکثریت والی ہندوستانی قوم کویہ مانناپڑے گاکہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برٹش سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی یاپھرملک کومذہبی،تاریخی اورتمدنی حالات کے پیشِ نظراس طرح تقسیم کرناہوگاکہ موجودہ شکل میں انتخابات اورفرقہ وارانہ مسئلہ کاسوال ہی نہ رہے”۔
پنڈت نہروکے جواب میں دیاگیا علامہ اقبال کایہ بیان یقینی طورپرپنڈت جی کی نظروں سے گزراہوگا،اس بیان میں روزِاول تاآخر اقبال کاترقی پسند،وسیع النظراورانسان دوست مسلک نمایاں ہے۔یہ بیان تصورِپاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے ۔ایسے میں پنڈت جی کایہ کہناکہ1930کے بعداقبال اپنے تصورِپاکستان سے دستبردارہو گئے تھے،دیانت داری پرمبنی نظرنہیں آتا بلکہ تاریخی حقیقت پرتعصب کی چادرڈالنے کے مترادف ہے۔آئیے مستند تاریخی حوالوں سے کچھ اورپوچھتے ہیں:
جب پنڈت نہرونے (ماڈرن ریویوکلکتہ )میں دنیائے اسلام کی صورتحال پرتین مضامین میں وطنیت اورلا دینیت کے فروغ کاخیر مقدم کیاتھاتواس کے جواب میں اقبال نے بھی (ماڈرن ریویوکلکتہ)ہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کوراست فکری میں بدلنے کاسامان کیا۔اپنے طویل مضمون کے آغازمیں اقبال نے برملاکہا:
”میں اس بات کوپنڈت جی اورقارئین سے پوشیدہ نہیں رکھناچاہتاکہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کاایک دردناک ہیجان پیداکردیاہے۔جس انداز میں انہوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کاپتہ چلتاہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنامیرے لئے دشوارہے۔وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہندکے مذہبی اورسیاسی استحکام پسند نہیں کرتے۔ ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے،اس بات کوگوارانہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساسِ خودمختاری پیداہو”۔
قارئین!ذراغورفرمائیں کہ اقبال کایہ تجزیہ کہ ”پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے”وقت نے بہت جلد سچ ثابت کردکھایا،جب پنڈت جی کے دل میں برصغیرکی زندگی کے ٹھوس حقائق کااحساس جاگ اٹھاتومولاناابو الکلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کوقبول کرنے کامشورہ دینے لگے۔مولاناآزادنے اپنی تصنیفانڈیا ونزفریڈم میں اس بات کاذکریوں فرمایاہے: ”کچھ دنوں کے بعد جواہر لال مجھ سے دوبارہ ملنے آئے۔ اس نے ایک طویل تمہید کے ساتھ آغاز کیا جس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں خواہش مندانہ سوچ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے بلکہ حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے۔ بالآخر وہ اس بات پر آئے اور مجھ سے تقسیم کی مخالفت ترک کرنے کو کہا”۔
اسلامیانِ ہند نے1944کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے نہرواورگاندھی کے سیاسی خواب پرستوں کوزندگی کے جن حقائق کااحساس دلایاتھا،اقبال نے برسوں پہلے نہرو کوان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ سیاسی تدبرکاتقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرارکرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کران سے پنجہ آزما ہوا جائے”۔اپنے زیرِنظر مضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پردوٹوک اندازمیں اظہارِخیال کیاتھا۔اقبال نے اسلامیانِ ہندکے سیاسی مسلک پران الفاظ پرروشنی ڈالی تھی:
”اسلام سے اس وقت تصادم ہوتاہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصوربن جاتی ہے اوراتحادانسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعوی کرتی ہے اوریہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظرمیں چلاجائے اورقومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصرکی حیثیت سے باقی نہ رہے،جداگانہ مسلمان قومیت کاسوال صرف ان ممالک میں پیداہوتاہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورجہاں قومیت کایہ تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کومٹادیں۔جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں،اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیداکرلیتاہے کیونکہ یہاں اسلام اورقومیت عملاایک ہی چیزہے۔میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اسلامیانِ ہندکسی ایسی سیاسی تصوریت کاشکارنہیں بنیں گے جوان کی تہذیبی وحدت کاخاتمہ کردے گی،اگر ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوجائے توہم اعتمادکر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اورحب الوطنی میں ہم آہنگی پیداکرلیں گے”۔
علامہ اقبال کایقین ِکامل بالکل درست نکلا،اسلامیانِ ہندنے بالآخرمتحدہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی تصورکوغلط ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کر لیا ۔ ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوگئی اوریوں پاکستان میں اسلام سے عشق اور وطن سے محبت میں کوئی تضادباقی نہ رہا۔اب ہمارادین اسلام ہے اورہماراوطن دارلسلام ہے اوردوسری طرف آپ نہروکی صداقت کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ ساری دنیا کے سامنے انہوں نے تحریری طورپراس بات کااعتراف کیاکہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیں گے لیکن خودہی اپنی تحریرسے منحرف ہوگئے اوراس وعدہ خلافی نے ان کی ساری شخصیت کابھرم طشت ازبام کردیاہے۔علامہ کایہ شعرکتناحسبِ حال ہے
اپنے بھی خفامجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِہلاہل کوکبھی کہہ نہ سکاقند