وجود

... loading ...

وجود

رحیم یار خان ،12پولیس اہلکاروں کی شہادت کا پس منظر

منگل 27 اگست 2024 رحیم یار خان ،12پولیس اہلکاروں کی شہادت کا پس منظر

دریا کنارے
۔۔۔۔۔۔
لقمان اسد

یہ لمحہ فکریہ نہیںکہ رحیم یار خان کے کچے کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکوؤں نے پولیس کی 2 گاڑیوں پر راکٹوں سے حملے میں 12 پولیس اہلکاروں کو شہید اور 8 کو زخمی کردیا ۔ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2 گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ کیا جبکہ دونوں پولیس موبائلوں میں 20 سے زائد اہلکار سوار تھے۔ترجمان پولیس کے مطابق پولیس اہلکار ہفتے وار چھٹی سے واپس آ رہے تھے کہ پولیس کی دونوں گاڑیاں بارش کے باعث کیچڑ میں پھنس گئیں، ڈاکوئوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور گھیراؤ کر کے حملہ کر دیا۔پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا، پولیس کے ترجمان کے مطابق حملے کے بعد سے 5 اہلکار لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے سرچ اور ریسکیو آپریشن جاری ہے،اب سوال یہ اُٹھتے ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف پولیس اتنی بے بس کیوں ہے؟
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ہماری حکومت ملک کی سب سے بڑی جماعت اور وفاق کی اکائی پاکستان تحریک انصاف کے ایک پر امن جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ریاستی پولیس کو عوام کے خلاف استعمال کر رہی تھی جہاں نہتے شہریوں کو یہ ریاستی پولیس پرتشد د طریقے سے گرفتار کرکے اپنی گاڑیوں میں ڈال رہی تھی ،خواتین کو مارا پیٹا جارہا تھا ،اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا درست لگتا ہے کہ ”جب پوری پنجاب پولیس تحریک انصاف کا جلسہ روکنے میں لگی تھی رحیم یار خان میں ایک دو نہیں گیارہ پولیس والے ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہو گئے ، پنجاب پولیس کے سیاسی استعمال نے پورے ادارے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ”۔ڈاکوؤں کے اس حملے نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس حملے کو اب تک کا ڈاکوؤں کی طرف سے سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے،گزشتہ کچھ مہینوں میں کچے کے ڈاکو ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث قرار دیے گئے اور پنجاب پولیس نے اس حوالے سے ایک مہم بھی چلائی کہ جنوبی پنجاب خاص طور پر رحیم یار خان کے علاقوں کے لوگ موبائل فون پر اجنبی خواتین کے جھانسے میں نہ آئیں۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار کی موت جبکہ کل سات زخمی ہوئے، چالیس نئی چوکیاں قائم کی گئیں جبکہ چودہ بیس کیمپ بنائے گئے ہیں۔گزشتہ روز انہی چودہ میں سے ایک بیس کیمپ کو ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملے کا نشانہ بنایا،آئی جی پنجاب آفس سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ آپریشن ساٹھ ہزار ایکڑ کے کچے کے علاقے میں کیا گیا جس میں اب تک 65 ڈاکوؤں کی ہلاکت ہو چکی ہے، 26 ڈاکوؤں نے خود کو سرنڈر کیا اور 60 سے زائد گرفتار ہوئے۔لیکن اس کے باوجود یہ سانحہ رونما ہو گیا ۔باشعور حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ کچے میں سکونت پزیر ڈاکوئوں کو بڑے سرداروں اور وڈیروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے خلاف گرینڈ آپریشن نہیں کیا گیا، جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو چند دن تک بڑے زور شور سے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف حتمی آپریشن کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، پولیس بھی متحرک ہوتی ہے، آئی جی سمیت دیگر اعلی افسران کچے کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں، پولیس افسران سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور حکمت عملی مرتب ہوتی ہے لیکن پھر اچانک گرینڈ آپریشن سکڑ کر چند ایک علاقوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔
علاقائی سطح پر وقتاً فوقتاً کئے گئے چھوٹے آپریشن کے دوران پولیس کا ہی جانی نقصان ہوا،پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں واقع دریائی علاقے میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں دہائیوں سے موجود ہیں،جنہیں ختم کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی گئی کہ یہاں کے مقامی بااثر سیاست دان اور وڈیرے ان کے سہولت کار ہیں ۔گزشتہ چند سالوں سے کچے کے ڈاکو کسی نہ کسی طرح خبروں میں ضرور رہتے ہیں۔ پچھلے سال صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے دریائی علاقے میں چھپے ڈاکوؤں کے گینگز کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ بڑے ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکوئوں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز راکٹ لانچر سمیت جدید ہتھیار موجود ہیں، بعض پولیس افسران کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس ہتھیاروں کی جدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکوئوں کے پاس ہیں، ان کی رینج 3 کلو میٹر اور پولیس کے ہتھیاروں کی رینج صرف 500 میٹر ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خطیر رقم کی منظوری کے بعد پولیس کو جلد از جلد جدید ترین ہتھیار مہیا کئے جاتے مگر افسوس حسب روایت ایسا نہیں ہوسکا اور وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج وجود اتوار 17 نومبر 2024
ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر