... loading ...
سمیع اللہ ملک
قائداعظم کی قیادت کاسب سے بڑاکار امہ پاکستا کاقیام ہے لیک پاکستا کے قیام کی حقیقت کیاہے؟یہ برصغیرکی سیاسی صورتحال کااتفاق ہے،کوئی تاریخی حادثہ ہے،برطا وی ہ دکی وحدت کوختم کر ے کی سازش ہے یاا سا ی معاشرت کیلئے اللہ تعالی کے قوا ی کے عمل اورردِعمل کا تیجہ ہے؟حقیقت یہ ہے کہ پاکستا دورِحاضرہ میں عالمگیرامت مسلمہ کی بازیافت کااعلا ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم!
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شراربولہبی
1924میں سلط ت عثما یہ کے خاتمے کے ساتھ وہ برائے ام مرکزیت جومسلما وں کوحاصل تھی وہ بھی ختم ہوگئی اوراس پرمسلما وں سے دائمی بغض اورع ادرکھ ے والی طاقتوں ے اطمی ا کاسا س لیالیک اس واقعے کے16برس بعدیع ی1940 میں برصغیرکے مسلما وں ے اپ ے عالمگیرملی تشخص کااعلا کرتے ہوئے پاکستا کامطالبہ کردیا۔غورکیجئے تو ا دازہ ہوجائے گاکہ برصغیر کے مسلما وں ے پاکستا کے قیام کا مطالبہ کرکے اجتماعی سطح پراصولی اعتبارسے اتباعِ س تِ بویۖ کافریضہ سرا جام دیاہے۔ہمارے ہادی برحق رسولِ اکرمۖ ے ایما ی رشتے کی ب یادپرایک عالمگیرامتِ مسلمہ کی تشکیل فرمائی۔برصغیرکے مسلما وں ے دورِحاضرمیں اسی تشخص کی تجدید فرمائی۔رسولِ اکرمۖ ے یثرب کی سرزمی کو پہلی اسلامی ریاست کیلئے م تخب فرمایا،برصغیرکے مسلما وں ے اعلا کیاکہ یہاں اپ ے اکثریتی علاقوں کوایک آزاداور خودمختارمملکت کی شکل دیکروہ اسے دورحاضرمیں “عمل پذیراسلام کی تجربہ گاہ”ب ائیں گے۔یثرب مدی ة ال بیۖب ا،یہ خطہ پاکستا ب ا۔
ایک اورحیرت ا گیز بات یہ کہ د یاکے دیگرتمام علاقوں کے مقابلے میں برصغیرکے مسلما وں کی تعدادسب سے زیادہ تھی اورجب پاکستا کا مطالبہ کیااس وقت یہاں مسلما وں کی تعداددس کروڑکے لگ بھگ تھی لیک ہ دواکثریت کے مقابلے میں وہ تعدادبہت کم تھی،یع ی ایک چوتھائی تھی۔تعدادکی وہ کمی پیشِ ظررکھئے اورقرآ ِ پاک میں سور الا فال کی26 ویں آیت مبارکہ پرغورکیجئے جس میں ارشاد ہوا ہے: یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے،زمی میں تم کوبے زورسمجھاجاتاتھا،تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مِٹا ہ دیں۔پھر اللہ ے تم کوجائے پ اہ مہیاکردی،اپ ی مددسے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھارزق پہ چایا،شایدکہ تم شکرگزارب و۔
آں کتاب ز دہ،قرآ حکیم
حکمت ولایزال است وقدیم
پاکستا دورِحاضرمیں اس ارشادِقرآ ی کی تشریح اوراسلام کی شاطِ ثا یہ کی علامت کے طورپروجودمیں آیاہے اوراس تاریخ سازعمل میں قائداعظم محمدعلی ج اح کی قیادت ے اساسی اورکلیدی کرداراداکیاہے۔یہ بہت بل د رتبہ ہے اوراسی زاویہ ظر سے قائداعظم محمد علی ج اح کے شخصی کردارپربھی غوروفکرکی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روش ی اوررسول اکرم محمدۖکی ذات ِاقدس سے قلبی وابستگی ے ا کی شخصی اورسیاسی دو وں ز دگیوں کوکس طرح باہم مربوط اور م ظم کیا۔ قائداعظم محمدعلی ج اح ے قا و کی تعلیم حاصل کر ے کیلئے برطا یہ میں ”ل ک ا ” میں داخلہ لیاکیو کہ وہاں د یا کی قا و سازشخصیات میں سرِفہرست ہمارے رسولِ اکرمۖکااسمِ گرامی تحریرتھااورپھر صف صدی بعدقیامِ پاکستا کے وقت اقتدارکی م تقلی کرتے ہوئیلارڈما ٹ بیٹ ے جوہم پرط زکیاتھا،یہ کہہ کر”مجھے امیدہے کہ پاکستا میں اقلیتوں کے ساتھ رواداری کاوہی سلوک کیاجائے گاجیسااکبرِاعظم کے دورمیں کیاگیاتھا”توقائداعظم محمدعلی ج اح ے فوری جواب میں کہاتھاکہ”مسلما وں کی رواداری اکبرِاعظم تک محدود ہیں ہے بلکہ ساڑھے تیرہ سوبرس پہلے ہمارے پیارے رسول اکرمۖ ے یہودیوں اورعیسائیوں کوفتح کرکے ا سے ہ صرف م صفا ہ بلکہ فیاضا ہ سلوک کیاتھا”۔
وجوا محمدعلی ج اح کے قلب میں رسول اکرمۖسے وابستگی کی جوایک روش کر تھی،اسی کر کی روش ی ا کیلئے سیاست کی راہ کے ا تہائی صبرآزماسفرمیں بھی زادِراہ ب ی رہی۔ شخصی اعتبارسے قائداعظم میں خامیاں بھی رہی ہوں گی لیک ا خامیوں کے اثرات ا کی ذات پریااس سے متعلق افرادتک رہے جبکہ ا کی خوبیوں کے اثرات ا کی قیادت میں مایاں ہوئے جس کی توا ائی ے برِصغیرکے مسلما وں کی اجتماعی ز دگی پردیرپااورتاریخ سازاثرات مرتب کئے۔
قائد اعظم ے قیامِ پاکستا کاجوکار امہ ا جام دیاوہ اس اعتمادکے بغیرممک ہیں ہوسکتاتھاجوپورے برِصغیرکے آباد مسلما وں ے ا کی قیادت پرکیا۔ا ہوں ے اقلیتی صوبوں کے مسلما وں کوکبھی کسی غلط فہمی میں ہیں رکھابلکہ بالکل واضح طورپربارباراعلا کیاکہ پاکستا اکثریتی صوبوں میں ب ے گااوراقلیتی صوبوں کے مسلما وں کواس عظیم مقصد کیلئے قربا یاں دی ی ہوں گی۔سرزمی پاکستا کی آزادی کی یہ ا فرادیت ہے کہ اس سرزمی کی آزادی کیلئے ا مسلما وں ے بھی سوچ سمجھ کرقربا یاں دیں ج کااس سرزمی سے کوئی براہِ راست کوئی رشتہ ہیں تھالیک یہاں آبادمسلما وں سے ایما ی رشتے کے تقاضے کاا کوپوراشعورتھا،تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود ہیں ہے۔ یہ قائداعظم کی قیادت کی سحرا گیزی تھی اوروہ سحرا گیزی سچائی کی تھی،اما ت ودیا ت کی تھی۔ا ہوں ے جذباتی عرے بازیاں کبھی اختیار ہیں کیں۔ا کودوبہت بڑی طاقتوں کاسام اتھا،ایک ہ دو کا گریسی قیادت اوردوسری برطا وی حکومت۔مادی اعتبارسے صورتحال بے سروساما ی کی تھی،مسلما م تشرتھے،بکھرے ہوئے تھے لیک ایما ی توا ائی مسلما وں کوبہرحال حاصل تھی۔قائد اعظم کی قیادت کی صداقت ے اسی ایما ی توا ائی کاشعورمسلما وں میں بیدارکردیا۔اصل توا ائی ا دیکھی طاقتوں کوہی حاصل ہوتی ہے۔ایما ا دیکھی توا ائی ہے لیک ساری ظرآ ے والی طاقتوں پرغالب آجاتی ہے،اوریہ حقیقت ہے کہ
آج بھی ہوجوبراہیم کاایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے ا دازِگلستاں پیدا
قیامِ پاکستا کی راہ کی رکاوٹیں سام ے لایئے،مخالفی کی بھرپورسازشی م صوبہ ب دیاں پیشِ ظررکھئے،اس قتل وغارت گری کاتصورکیجئے جوصرف اس لئے برپاکی گئیں کہ پاکستا مستحکم ب یادوں پرقائم ہ ہوسکے اوروہ پھرجذبہ،وہ عزم اور تعمیرکافیصلہ ک ا دازجس سے جوکچھ بظاہر اممک ظرآرہاتھا،اسے ممک ب ادیا۔پاکستا کاقیام دورِحاضرمیں اسلام کے احیاکے حوالے سے خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔سور الا فال میں ارشاد ہواہے: وہ اپ ی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپ ی چال چل رہاتھااوراللہ سب سے بہترچال چل ے والاہے”۔ اورسور ابراہیم میں ارشادہے :کافروں ے اپ ی ساری چالیں چل دیکھیں لیک ا کی ہر چال کاتوڑاللہ کے پاس تھا،حالا کہ ا کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑبھی اپ ی جگہ سے ٹل جائیں(46)۔سچی بات یہ ہے کہ
جہاں ہوں سعی بشرکی تمام راہیں ب د
دیاردوست کارستہ وہیں سے کھلتاہے
ارشاداتِ قرآ ی پیش ظررکھئے اورپاکستا کے قیام سے لیکرپاکستا کے ایٹمی طاقت ب جا ے تک کے واقعات پرغور کیجئے،ا سا ی معاشرت کیلئے قدرت کی م صوبہ ب دی کی کارفرمائیاں واضح ہوتی چلی جائیں گی۔قیامِ پاکستا کی ایک وجہ ہمارے مخالفوں کاشدیدتعصب اور سیاسی ریشہ دوا یاں بھی ب یں۔قیامِ پاکستا کومتزلزل کر ے کی ہرممک کوششیں کی گئیں اورہرکوشش اکام ہوئی اورایٹمی طاقت کی حیثیت سے مایاں ہو ے میں جس عمل ے ہمارے لئے سب سے بہتردلیل فراہم کی وہ بھارت کاایٹمی دھماکہ تھا۔پاکستا کی داخلی صورتحال اور اس کے وجودکے علاقائی اورعالمی اثرات پرمسلسل تدبر اور تفکر کی ضرورت ہے۔جہاں ہم داخلی سطح پرسماجی تطہیرکے مرحلوں سے گزررہے ہیں، وہاں اء الیو کے بعداس خطے کی صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔پاکستا دشم قوتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پر ٹوٹ پڑی ہیں اورایک فاسق و فاجر ج رل ہمیں ج خطرات کے بھ ورمیں پھی ک کرپہلے ملک سے فرارہوگیااوراب عالمِ برزخ میں اپ ے اعمال کے حساب وکتاب بھگت رہاہوگاوہاں ہمارے تمام ابالغ سیستدا وں ے اس معجزاتی اورعطیہ خداو دی ا عام سے بدتری سلوک کے باوجودجہاں معاشی اوردیگردشواریاں پہاڑوں جیسی معلوم ہوتی ہیں،کے باوجودقیامِ پاکستا کاعلاقائی اثریہ ہواکہ بھارت اس سارے علاقے پراپ ا تسلط قائم ہیں کرسکااورعالمی اثریہ ہواکہ اسلام عالمی سطح پر مایاں سے مایاں ترہوتاچلاگیااورآج دفاعی قطہ ظرسے سوا دراگا دھی،م موہ س گھ،باجپائی اورہزارمودی آ کھ ٹیڑھی کرکے بھی دیکھ ے کی جرأت ہیں کر سکتے۔اب تک عالمی استعمار اور ٹرائیکا کے ساتھ سازش کرکے یہ کوشش کرچکے لیک اس کے عملی جواب سے تھراکررہ گئے کہ خودعالمی سطح کے دفاعی گاروں اورتجزیہ گاروں کی آرا کے مطابق یہ عمل ساری د یاکوہزاروں سال تک تاریک کردے گااورممک ہے کہ وہی لمحہ قیامت کاہو۔
وقت کے دوپیما ے ہیں،شب وروزاورماہ وسال۔ایک پیما ہ اللہ تعالی ے ہمارے کاموں کیلئے مقررکیاہے،دوسراپیما ہ اللہ تعالی کے اپ ے حساب کا ہے جس کا ایک”یوم”ہمارے ایک ہزارسال کے برابریااس سے بھی زیادہ کاہے۔دورِرسالت مآبۖمیں ا سا ی معاشرت کیلئے اللہ تعالی کے مقررکردہ قوا ی اورا سا ی اعمال میں مکمل ہم آہ گی،مثالی ہم آہ گی ہوگئی تھی لہٰذا تاریخ کی مکمل روش ی میں ایک مثالی معاشرہ،ایک مثالی مملکت وجود میں آگئی۔اس مثالی معاشرے کی روش ی جہاں تک پہ چائی جاسکتی تھی مسلما وں ے پہ چائی۔ زما ے کا،ا سا ی معاشرہ کا،سفرتواب بھی اسی سمت ہے لیک اس راہ پرہم مسلما وں کواپ ے ایما وعمل سے جوروش ی پھیلا ی چاہئے تھی کہ سفرمیں تیزی آجائے،ہم صدیوں سے اپ اوہ فریضہ بھلا بیٹھے ہیں۔قیامِ پاکستا ے ہمیں دورِحاضر میں اپ ے ایما ی کردارکی ادائیگی کاایک اورموقع فراہم کیاہے۔پاکستا میں ہم گزشتہ77سالوں میں اپ ے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے یااس کے شعورسے محروم ہوکرجووقت ضائع کرچکے ہیں اوراس سے سلِ ا سا ی کاجوخسارہ ہواہے ہم سب کواپ ی اپ ی ذمہ داریوں کے اعتبارسے اللہ کے سام ے اس کی جوابدہی کر ی ہوگی۔کیاواقعی ہماراایما ہے کہ جوابدہی ہوگی؟کیاہم کواس حقیقت کاشعوربھی ہے کہ وہ جوابدہی ہو ی ہے اورضرور ہو ی ہے؟قیامِ پاکستا کے ساتھ ہی ہم ے بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے:
بے خبر! تُو جوہرِ آئی ۂ ایّام ہے
تُو زما ے میں خدا کا آخری پیغام ہے
لیک س ئے!سورہ محمدکی آخری آیاتِ مبارکہ کے اختتامی الفاظ بھی کیاکہہ رہے ہیں”اللہ توغ ی ہے،تم ہی اس کے محتاج ہو۔اگرتم م ہ موڑو گے تواللہ تمہاری جگہ کسی اورقوم کولے آئے گا اوروہ تم جیسے ہ ہوں گے”۔اس وقت ہماراسب سے بڑا امتحا یہی ہے۔کاش!ہمیں اس سچائی کاادراک ہوجائے کہ اللہ کے خوف سے محرومی سب سے بڑی محرومی ،سب سے تباہ ک محرومی ہے جس کا کوئی ازالہ کسی بھی صورت ممک ہیں ہے!
یادرکھیں!د یا میں تبدیلی ہمیشہ ایک آدمی لاتاہے جسے ہملیڈرکہتے ہیں،جولوگوں کوہرقسم کے مصائب سے جات ،خود داری کی م زل کے حصول کے خوابوں کی تعبیراورغلامی کی ز دگی سے جات اورجی ے کے وژ اورقوم کی مستورقوت کواستعمال کر ے کاڈھ گ جا تاہے۔وہ اس قدرباصلاحیت،بہادراوربے لوث ہوتاہے کہ اس کی قوم اس کے م ہ سے کلے ہوئے ہرلفظ پرایما کی حدتک یقی کرتی ہے۔قدرت ے ا تمام اوصاف سے مرصع ہماراقائدمحمدعلی ج اح صحیح مع وں میں جب عطاکیاتوتاریخ ے دیکھاکہ ا ہوں مسلما ا ِ ہ د کے حقوق کیلئے ایسی جدوجہدکی رہ مائی کی اپ ی خطر اک بیماری کے باوجوداس کواس لئے چھپاکررکھاکہ کہیں مخالف قوتیں قیامِ پاکستا میں رخ ہ ہ ڈال سکیں۔ا ہوں ے اپ ی ذات سے متعلق تمام ر جشیں بھلاکراپ ے مخالفی اوردشم وں کے ساتھ مضبوط دلائل کے ساتھ پاکستا کامقدمہ لڑا،مسلما وں کی توا ائی کو صحیح سمت گامز کرکے د یاکے قشے میں ایک یاملک پاکستا قائم کرکے دکھادیا،جس ے مسلما ا ِ برصغیرکی غلامی کوخودداری میں تبدیل کرکے ایسی تاریخ رقم کردی جس کواس کے بعددہرایا ہ جاسکااوراس کے باوجودکہ ہمارے قائد کے جلدرخصت ہو ے کے باوجود،ہرقسم کے کرپٹ حکمرا وں کی طویل فہرست کے باوجودبھی آج وہ ایک ایٹمی قوت ب کر د یاکی آ کھوں میں آ کھیں ملاکرکھڑا ہے ۔
گزشتہ ہفتے عالمی میڈیاپرای کر ے مجھ سے پاکستا میں ہو ے والی کرپش ،سیاسی ارکی اورابتری کے ذمہ داروں کے تعی اورا کے احتساب کے متعلق کئی سوال جب پوچھے جو یقی ازمی ی حقائق کے مطابق بالکل کڑوے سچ کی طرح دل میں چھید کرتے چلے گئے لیک اس کاممک ہ جواب مزیدتلخ ہوگاکہ میں یہ کیسے ما لوں کی ہم زمی میں بیج تولیموں کابوئیں اورامید میٹھے آم یادیگرپھل کی لگالیں۔آپ اپ ے گھرکے آ گ میں ایک پودالگاتے ہیں،پا ی دیتے ہیں اوراپ ے ساتھ دیگراردگردکے افرادکواس کی دیکھ بھال کی صیحت بھی کرتے
ہیں۔میرے آقا بی اکرمۖکاارشادگرامی ہے:: ایک موم دوسرے موم کاآئی ہ ہے۔بس اس آئی ے میں دیکھ کرخودسے سوال کریں تویقی اجواب مل جائے گا کیو کہ آئی ہ کی پہلی صفت تویہ ہے کہ وہ جھوٹ ہیں بولتااوردیکھ ے والے کواس کے چہرے پرلگے سب داغ دھبوں کے متعلق سچ بتادیتاہے اور چہرے پرلگے ہوئے تمام داغ دھبوں کی صفائی کی صیحت کرتاہے اوردوسری صفت یہ ہے کہ بعدمیں دیکھ ے والے کوپہلے چہرہ کے متعلق کچھ ہیں بتاتایع ی غیبت سے پاک ہوتاہے۔آج بطورپاکستا ی اس آئی ے میں دیکھ کر ایما داری سے بتائیں کہ آپ ے قائدکے لگائے ہوئے پودے کے ساتھ کیاسلوک کیا۔یہ سوال پاکستا کے ہرشہری سے ہے کہ کہ اس باغ کے مالی قائداعظم موجودہوتے تو کیا وہ افسردہ ہوکراس مجرما ہ غفلت کی بازپرس ہ کرتے۔
قائد ے توہمیں یہ یقی دلایاتھاکہ پاکستا ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگاجس کاب یادی مقصدہرشہری کواسلامی اصولوں کے مطابق ا صاف ملے گالیک ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ میں پاکستا ی عدالتی ظام کوقا و کی حکمرا ی کی پاب دی کر ے والے ممالک میں سب سے چلے مبر139ممالک میں130ویں مبرپرکیوں ہے؟ملک کے دولخت ہو ے پر،طبقاتی م افرت پر،سیاسی م افقت پر، ام ہادسیاسی مفاہمت پر،بڑھتی ہوئی لسا یت پر،معاشی تباہی پر،معاشرتی اقدارکی تباہی پر،اسلامی احیاکی فی پر،جمہوری ا حطاط پر،سستے اورسہل ا صاف کی عدم دستیابی پر،قول وفعل میں تضادپر،ملکی مفاد پرذاتی مفادکوترجیح دی ے پر،آئی پی پیزکے ام پرملکی خزا ے کے کھربوں روپے ڈکارجا ے پراورا تمام لوٹ کھسوٹ اورملک میں جاری ا افعال کواپ ی آ کھوں سے دیکھتے ہوئے ا کو دوبارہ ایوا اقتدارتک پہ چا ے پراپ ے کردارپرشرم دہ ہو ے کی بجائے خاموش رہتے؟اے روحِ قائد!ہم شرم دہ ہیں کیو کہ ہم سب ا افعال میں شریک ہیں۔
یقی کریں اگرقائدکچھ عرصہ مزید ز دہ رہ جاتے تووط عزیزکوپہلاآئی بہت جلدمل جاتا،جاگیرداری ظام کاخاتمہ ہوجاتا، وڈیرے،سرمایہ داراورفوجی ڈکٹیٹراس ملک پرقابض ہ ہوپاتے،مافیازکیلئے یہ زمی ت گ ہوجاتی،کرپش کے دروازے کبھی ہ کھلتے،لوٹ کھسوٹ کابازارگرم ہ ہوپاتا،خا دا ی اور سل در سل سیاست پروا ہ چڑھتی،سفارش،رشوت اور اقرباپروری کی لع ت ج م ہ لیتی،سرکاری ادارے سیاست زدہ ہ ہوتے،اشرافیہ اورمراعات یافتگا کاوجودبھی ہ ہوتا،پروٹوکول کے ام پر ملکی خزا ے کولوٹ ے کاسلسلہ ختم ہوجاتا، اس بیدردی سے وط عزیزکولوٹ ے والوں کوعبرت کا شا ہ ب ادیاجاتااوربی کوں سے لئے گئے کھربوں روپے کے قرضے معاف ہ کروائے جاتے۔ ملک عالمی م ظر امے پرایک بھکاری ملک کی بجائے مضبوط اورمستحکم ملک کے طورپرپہچا اجاتا۔صدافسوس کہ آج ہم ایک بدتری دورسے گزررہے ہیں،ہم ے اس ملک کوتباہ کرکے رکھ دیاہے،لالچ اور بددیا تی ے اس ملک کاحلیہ بگاڑکررکھ دیاہے،م حیث القوم ہم سبھی اس ملک اورقوم کے مجرم ہیں،ہم ے قائداوراقبال کے ملک کی قدر ہیں کی۔کیاہم برصغیر پاک و ہ دمیں مغل حکمرا وں کے زوال کے اسباب سے واقف ہیں ہیں کہ آج ہم میں وہ تمام عادات اورطورطریقے پائے جاتے ہیں ج کی ب اپربرِصغیرکے مسلما حکمرا تباہ وبربادہوئے تھے۔
معروف امریکی اسکالرپروفیسروالپرٹ ہ دوستا کی تاریخ پردسترس رکھ ے والے ماہری میں مایاں حیثیت رکھتے تھے۔ پروفیسر والپرٹ ے1984میں ج اح کی سوا ح حیات میں تحریرکرتے ہیں:کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کوتبدیل کردیتے ہیں، جبکہ ا میں سے
بھی کچھ د یاکے قشے کوبدل دیتے ہیں۔ا میں بہت کم لوگ ہی ئی قومیت پرملک تعمیرکرتے ہیں،اور ج اح ے یہ تی وں کام کردکھائے۔قائداعظم ے ت ت ہامخالفی کاسام اکیا،علالت کی بھ ک بھی ہ پڑ ے دی،تاکہ حصولِ م زل کے سفرمیں کوئی رکاوٹ ہ پیش آئے۔قائد ے اپ ے حصے کاچراغ جلادیا،اب یہ ہمارافرض ہے کہ ہم قائدکے اصول ایما ،اتحاداورت ظیمِ محکم کواپ ی ز دگی میں داخل کریں اورقائدکے ایک معتدل اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے خواب کوشرم دہ تعبیرکریں۔اگراس فا ی ز دگی میں کامیابی چاہتے ہیں توب دوں کوب دوں کی غلامی سے کال ے کیلئے اللہ کی غلامی اختیارکرلیں۔