... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
لال قلعہ سے تھکے ماندے وزیر اعظم کی طول طویل تقریر پر اظہار حیرت کرنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ بیچارے مودی جی نے اپنے آپ پر ایوان پارلیمان کے دروازے ازخود بند کرلیے ہیں۔ وہاں پر اپنی فن خطابت دکھانے کا انہیں بہترین موقع ہوتا ہے لیکن افتتاحی اجلاس میں انہیں اس قدر تلخ تجربہ ہوا کہ اس کا خیال ہی انہوں نے اپنے دل سے نکال دیا۔ اول تو راہل گاندھی کی تقریر نے انہیں اس قدر اکسایا کہ اپنے رتبے و وقارکا خیال چھوڑ کر وہ درمیان میں کود پڑے ۔ ان سے ترغیب لے وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور دیگر لوگ بھی بیچ بیچ میں اچھل کود کر راہل گاندھی کی مقبولیت بڑھاتے رہے اور جب تک ان بجرنگیوں اپنی غلطی کا احساس ہوتا تب تک توراہل گاندھی ہیرو بن چکے تھے ۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے جواب میں ڈھائی گھنٹے سمع خراشی کی اس پورے عرصے میں حزب اختلاف شور کرتا رہا اور بی جے پی والے اونگھتے یا جمائی لیتے دکھائی دئیے ۔ اس کا وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ان کا گلا گھونٹا گیا۔آزادی کے ٧٧ سال بعد لال آنکھوں سے چین کو ڈرانے والے وزیر اعظم کا اگر اپنے ہی ایوان میں گلا گھونٹ دیا جائے تو اس سے بڑی جگ ہنسائی اور کیا ہوسکتی ہے ۔
بجٹ اجلاس میں وزیر اعظم مودی نے ایوان پارلیمان کی عمارت اندرقدم نہیں رکھا جسے بڑے ارمانوں سے تعمیر کیا تھا۔ بس باہر ہی باہر لوٹ گئے ۔ ممکن ہے انہوں نے آخری دن کچھ کہنے کا منصوبہ بنایا ہو مگر ہنڈن برگ کی رپورٹ اور اس پرمتوقع ردعمل کے خوف سے اجلاس کا تین دن قبل اسقاطِ حمل ہوگیا۔ اس کے بعد لال قلعہ کی تقریرکا موقع آیا تو انہوں نے خوب جی بھر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور پرانے سارے ریکارڈ توڑ کر 103منٹ تک بے تکان بولتے رہے ۔ وزیر اعظم نے اس بار اپنے خطاب کی ابتداء میں خوشخبری دی کہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے ۔ اس بلندی پر پہنچنے میں سنگھ پریوار کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ اس کے پرچارک تو خود کو شادی بیاہ کے بکھیڑے سے دور رکھ کر مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں سے جس کی شادی گھر والے زبردستی کردیتے ہیں تووہ بھی مودی جی کی مانند یشودھا بین کو بغیر طلاق دئیے چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ بیچاری بھی کسی اور سے شادی کرکے گھر سنسار نہ آباد کرسکے ۔ سادھو سنتوں کا یہ حال ہے کہ آسارام باپو جیسے لوگ عصمت دری کے الزام میں جیل تو جاتے ہیں مگربال بچوں کا پتہ ٹھکانہ نہیں ہوتا ہاں انتخاب کے وقت رام رحیم کوکمل کی خاطر پیرول مل جاتی ہے ۔
وزیر اعظم نے اس بار قوم سے خطاب میں آزادی کے مجاہدوں کو یاد کیا مگر سوال یہ ہے کہ ان کا اپنا سنگھ پریوار اس وقت کیا کررہا تھا ؟ مجاہدین آزادی کی فہرست میں سے مسلمانوں کا نام ہٹانے والے کسی سنگھی کا نام نہیں لاپاتے کیونکہ یہ بزدل فرنگیوں کی مخبری کرتے ہوئے بانٹو اور کاٹو کے منصوبے کاآلۂ کار بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے وزیر اعظم کی زبان پر یہ کھوکھلا اظہار عقیدت زیب نہیں دیتا۔ جنگ آزادی کے حوالے سے پی ایم مودی نے کہا کہ جب ہم 40 کروڑ تھے تو ہم نے سپر پاور کو شکست دی تھی مگر آج ہم 140 کروڑ ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے مگر اس کے باوجود چین گلوان میں گھس جاتا ہے اور ہمارے علاقوں پر اپنی مستقل تنصیبات بنا دیتاہے ۔ ہمیں وہاں سے کمانڈر شیطان سنگھ کے مجسمہ نکال کر دوسرے علاقہ میں منتقل کرنا پڑتا ہے ۔ ارونا چل پردیش سے خود بی جے پی کا رکن پارلیمان ایوان کے اندر چین کی در اندازی پر گریہ وزاری کرتا ہے ۔ سیٹیلائیٹ تصاویر اس کے بیان کی تصدیق کرتی ہیں مگر وزیر اعظم اپنی لال آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ان کی زبان پر قفل لگ جاتا ہے ۔
آج یہ حالت ہے کہ مالدیپ جیسا ننھا سا ملک ہمارے فوجیوں کو واپس بھیج دیتا ہے ۔ اس کو نیچا دکھانے کی خاطر خود وزیر اعظم لکشدیپ کے ساحل پرسمندر میں ڈبکی تو لگاتے ہیں لیکن وہاں سیاحوں کے لیے درکار سہولیات نہیں کرپاتے ۔ اس لیے میڈیا میں سارے تماشے کے باوجود مالدیپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور چین کے ساتھ اپنی دوستی پر وہ خوش و خرم نظر آتا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ جب ہندوستان کے چالیس کروڈ عوام برطانوی سامراج سے لڑ رہے تھے تو اچھا ہی ہوا مودی جی کا سنگھ پریوار اس میں شامل نہیں تھا ورنہ یہ لوگ اس وقت بھی کام خراب کردیتے اور آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہی نہیں ہوپاتا۔ وزیر اعظم کی زبان درازی نے پچھلے انتخاب بی جے پی کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ۔ انہوں نے ایک فریبی بیانیہ گھڑنے کی خاطر ‘اب کی بار چار سو پار’ کا نعرہ لگوایا ۔بی جے پی کے احمق رہنماؤں نے چار سو پار کی ضرورت کو آئین میں تبدیلی سے جوڑ دیا ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر حزب اختلاف نے دلت سماج کے اندر آئین اور آئین ساز ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی توہین کا شور بپا کردیا ۔ اس طرح کانشی رام کے بعد پہلی بار کانگریس کو دلت سماج کے اندر سیندھ ماری کا موقع مل گیا اور او بی سی کو بھی ریزرویشن چھن جانے کے خطرے سے ڈرا کر سماجوادی پارٹی نے اپنے خیمہ میں متحد کرلیا ۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں ‘ہمارے ملک میں سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ پر بار بار بحث کی ہے ‘ سوال یہ ہے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن میں چیف جسٹس کو رکھنے کی بات بھی تو کی تھی مودی سرکار نے قانون بناکر انہیں دودھ میں سے مکھی کی مانند نکال باہر کیا ۔ یہ تو اس سرکار کے نزدیک سپریم کورٹ کی قدرو قیمت ہے ۔
ججوں کے تقرر کی خاطر موجود کالیجیم کی جو دھجیاں اڑائی گئیں وہ سب کو یاد ہے ۔ نائب صدرجگدیش دھنکڑ نے تو صاف کہہ دیا تھا۔ جمہوریت میں چونکہ عوام مطلق العنان ہیں اس لیے ان کے نمائندے مقننہ کو عدلیہ پر فوقیت حاصل ہے ۔ مودی جی نے جب سپریم کورٹ کا حوالہ دیا تو کیمرہ چیف جسٹس چندر چوڑ کی جانب گھوم گیا اور ان کے چہرے پر پھیلی شریر مسکراہٹ نے مودی جی کے نفاق کو بے نقاب کردیا۔ وہ غالباً مودی سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سلوک کو یاد کرکے مسکرا رہے تھے اور انہیں مودی جی مجبوری پر ہنسی آرہی تھی۔ جسٹس چندر چوڑ نے یومِ آزادی کے موقع پر ایک اور تقریب میں قانون دانوں کو مخاطب کرکے صاف الفاظ میں کہا کہ ‘ آزادی کو ہلکے میں نہ لیں اور بنگلہ دیش سے سبق سیکھیں’۔ سلمان خورشید کے بنگلہ دیش سے ہندوستانی حالات کا موازنہ کرنے پر چراغ پا ہونے والے سنگھ پریوار کو چاہیے کہ کہ چیف جسٹس کی باتوں کو غور سے سنے ۔ ایک چیف جسٹس سبکدوشی سے قبل اس سے زیادہ تلخ تنقید ممکن نہیں کرسکتا ۔ انہوں اپنے پرچم لہرانے کے بعد وکلاء کو عار دلائی کہ دیکھو کس طرح وہاں پر ہزاروں نے ملک کی خاطر اپنا پیشہ چھوڑ دیا ۔ ویسے بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب میں میں چیف جسٹس کے لیے بھی سامانِ عبرت ہے کہ اگر عدلیہ بھی انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ناجائز سرکاری
فیصلوں کی تائید کرنے لگ جائے تو عوامی انقلاب کی آندھی کسی نہیں بخشتی اور عدالت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے چیف جسٹس کو بھی گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔
مودی جی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ” ہمارے ملک کا ایک طبقہ یہ مانتا ہے اور اس میں سچائی ہے کہ ہم جس سول کوڈ کے ساتھ جی رہے ہیں وہ دراصل ایک قسم کا فرقہ وارانہ سول کوڈ ہے ”۔اس لیے کہ جس طبقہ کا ذکر کرکے انہوں نے اسے صحیح ٹھہرایا وہی یہ بھی چاہتا ہے کہ ملک میں منو سمرتی رائج ہوجائے ۔ اس لیے موجودہ سول کوڈ کو امتیازی کہہ کر مسترد کرنے والے یہ بتائیں کہ کیا منوسمرتی عدل و مساوات کا تقاضہ پورا کرتی ہے ۔ ویسے منو سمرتی تو بہت دور اس حکومت نے اتراکھنڈ میں آزمائش کے طور پر یکساں سِول کو ڈ کو نافذ کیا ۔ اس پر وہاں کے قبائلیوں نے احتجاج کیا تو ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر انہیں استثناء دے دیا گیا۔
یہ احمق نہیں جانتے کہ اگر کسی کو مستثنیٰ کردیا جائے تو وہ پھر وہ یکساں سول کوڈ نہیں رہتا ۔ آپ آسام کے علاوہ پورے شمال مشرق کو یکساں سول کوڈ سے فارغ کردیں ۔ ممتا بنرجی مسلمانوں پر اس کا نفاذ روک دے ۔ عام آدمی پارٹی سکھوں پر اسے نافذ نہ کرے ۔ گوا والے عیسائیوں کو یکساں سول کوڈ کے دائرے سے نکال دیں ۔ کشمیر میں تو ان کی کچھ چلتی ہی نہیں۔ ایسے میں یکساں سول کوڈ چوں چوں کا مربع ہوجائے گا اور یہ غیر عملی شئے دفع 370کی مانند بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن جائے گی۔ اس سے ہندو کوڈ بل کا فائدہ اٹھانے والا ہندو بھی کملا بائی سے ناراض ہوکر اسے دریا برد کردے گا اور وزیر اعظم کے خطاب کی مانند یہ حربہ فلاپ ہوجائے گا۔