... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
دنیا میں اس وقت مسلمان مظالم سے دوچار ہیں کہیں دشمنوں کے ہاتھوں تو کہیں اپنوں کے ہاتھوں ،فلسطین اسرائیل نے تباہ کردیا اور مقبوضہ کشمیرکو بھارت نے جیل بنا رکھا ہے اورتو اور حماس کے سربراہ کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ ایک اسلامی ملک ایران میں بطور مہمان آئے ہوئے تھے ہم آئے روز مسلمانوں پر مظالم کی خبریں دیکھتے ہیں اور پوری اسلامی دنیا دعائوں اور بددعائوں کے سہارے پر ہے آنے والے وقت میں اللہ رب العزت ہمارے لیے کیا فیصلہ کرے گا ۔یہ ہم نہیں جانتے لیکن اللہ کا فیصلہ وہی ہوتا ہے جس فیصلے کی تکمیل میں ہم بھی اپنی کوشش جدوجہد اور عمل شامل کریں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں خالی دعاؤں اور بد دعاؤں کو چھوڑ کر اللہ رب العزت کے مہیا کیے ہوئے اسباب سے فائدہ اٹھانا چاہیے جن میں سب سے بڑا سبب ہماری ذاتی سوچ ہمارے دل کی بہادری اور ہمارا عزم بھی ہے انسان کی زندگی بہت مختصر ہے۔ چاہے سو سال ہو چاہے 90 سال، چاہے 80 سال چاہے 70 چاہے 60 چاہے 50زندگی کا دورانیہ مختصر ہی ہوتا ہے اور زندگی کے اسی مختصر دورانیے میں ہر انسان کو اپنے امتحان کو پاس کرنا پڑتا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بڑا کٹھن امتحان ہے، اس صورت میں جب ہم اسے اللہ رب العزت کی ہدایات اورخاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقہ زندگی کے تناظر میں دیکھیں تو یہ دورانیہ اور بھی کم لگتا ہے۔ اس دورانیے میں انسان کو نہ صرف اس زندگی میں بلکہ اگلی اور دائمی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کرنے کی بہت سی تدبیریں اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ حقیقت میں زندگی کا یہ دورانیہ اور اس میں کامیابی یا ناکامی انسان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے اگر ہم اپنی ہر مشکل اپنی ہر کامیابی اپنی ہر جدوجہد یا ناکامی کو اپنے مقدر کے ساتھ جوڑ دیں تو پھر ہمارا اختیار ختم ہو جاتا ہے ہمارا مقدر ہماری زندگی کے اس دورانیے میں ہماری مرضی پر اثر انداز نہیں ہوتاہمارا مقدر ہماری سانسوں کی گنتی ہماری پیدائش اور دیگر ان اسباب کا احاطہ کرتا ہے جو فکس ہوتے ہیں باقی ساری زندگی ہم اپنی مرضی کے تحت ہی بسر کرتے ہیں ۔اس فلسفے کو صحیح طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم اپنی مرضی کے نتیجے میں کیے گئے اپنے فیصلہ جات کو اپنے مقدر سے جوڑ دیتے ہیںاور الزام مقدر پر لگا دیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اگر اللہ رب العزت نے ہماری زندگی کے اس دورانیے میں پیش آنے والے واقعات کو مقدر کے دائرے میں قید کیا ہوتا تب مرضی کا جو اختیار انسان کے پاس ہے اس کا کوئی جواز نہ بنت ہم میں سے وہ لوگ جو اپنی زندگی کے مقاصد اور کوششوں میں ناکام رہتے ہیں وہ مقدر کو الزام دیتے ہیں غربت ،بے انصافی ،جبر ،زندگی کی دشواریاں ،تکالیف اور عدم مساوات کی جو حالت ہم پر طاری ہوتی ہے۔ ہم اسے مقدر کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الزمہ کر لیتے ہیں درحقیقت یہ ایک بڑی غلطی ہے۔ ہم ان مشکلات اور پریشانیوں کا شکار اپنی مرضی کے غلط استعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں جو انسان کے لیے ایک بہت انمول تحفہ بھی ہے اور اس کے لیے اس کی منزل تک پہنچنے کا راستہ بھی جب ہم اس کا استعمال صحیح نہیں کر پاتے توپھر ہم مقدر کو الزام دے کر خود کو بری کر لیتے ہیں اور اپنی مرضی کے تحت جو جدوجہد اور کوشش ہمیں کرنی چاہیے۔ اس سے ہٹ جاتے ہیں درحقیقت ہمارے انفرادی اور اجتماعی زوال کی سب سے بڑی یہی وجہ ہے اور وہ لوگ بھی جو ہمیں اس دائرے سے باہر نہیں نکلنے دیتے جب تک ہم خود کو اس دائرے سے باہر نہیں نکالیں گے تب تک نہ ہماری فلاح ممکن ہے اور نہ ہم اپنے مقدر اور اپنے آز اد ارادے اور اختیار میں فرق کر سکتے ہیں جن اقوام نے یہ فرق معلوم کر لیا وہ آج سائنس ٹیکنالوجی اور ترقی کے عروج پر ہیں لیکن ہم یہ فرق نہ جان پائے اور زوال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ہم نے خود کو خود ہی زوال کے گڑھے میں گرا رکھا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اپنی مرضی کا استعمال نہیں کرتے ہم صرف حکمران منتخب کرتے ہوئے ہی جذباتی وابستگی کی بجائے ملکی وابستگی کا سوچ لیں اور ایسے افراد کو اپنا ووٹ دیں جو حکمرانی کے اہل ہوجوذاتی مفادات کی بجائے ملکی کو ترجیح دیںمگر ہم نے ایسا نہیں کیا ایک پڑھے لکھے عقل،شعور اور سمجھدار کی بجائے پیسے والے کاروباری یا جاگیر داروں کو اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں ۔وہ بھی اس لیے کہ وہ علاقے کے وڈیرے ہیں خاندانی سیاستدان ہیں اور انکے ڈیروں پر روٹی اور چائے مل جاتی ہے۔ کھانے پینے کے لالچ میں ہم انہیں وسیع سطح پر کھانے پینے کے لیے براجمان کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے آج ملک میں مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری کے باعث خودکشیاں ہو رہی ہیں اور دن بدن سطح غربت سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ تین طبقات کے افراد کسی بھی ریاست کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں اول بزنس مین یا کاروباری طبقہ اگر ریاست اس کے ہاتھوں میں دی جائے تو یہ طبقہ ہمیشہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے منافع حاصل کرنااور پیسہ کمانا اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے حتی کہ بعض اوقات یہ طبقہ اپنے ریاستی اداروں کو بھی فروخت کرنا شروع کر دیتا ہے اور ریاست کو اس حال تک پہنچا دیتا ہے کہ اس کا خزانہ خالی اور لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں۔دوم جاگیردار طبقہ اگر یہ طبقہ ریاست پر مسلط ہو جائے تو یہ ریاستی عوام کو اپنے ان مزارعوں اور زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں کی طرح دیکھتا ہے جن پر اس کا ہر ظلم اور استحصال جائز قرار پاتا ہے ۔یہ طبقہ ریاست کو جاگیر سمجھ کر یہاں ایسی پالیسیز اور نظام نافذ کرتا ہے جو اس جیسے دیگر طبقات کو ریاست میں پنجے گاڑنے اور جڑیں گہری کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ کسی بھی ریاست کے لیے بدترین طبقہ ہے سوم فوجی طبقہ اگر یہ طبقہ ریاست کا اختیار حاصل کر لے تو یہ ریاست کو طاقت اور خوف کے ذریعے چلاتا ہے اس لیے کہ اس طبقے کو یہی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔خوف کی لڑنے کی طاقت کی انتظامی امور میں یہ طبقہ فیل ہوتا ہے ۔اس طبقے کی حکومت میں عوام بغاوت بھی کرتے ہیں اور گروہ در گروہ اس طبقے کی حکومت کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ طبقہ ان کا بہت خون بہاتا ہے یہ طبقہ ریاست کو اسی انداز میں چلاتا ہے جس انداز میں جنگ کی جاتی ہے یہ کسی بھی ریاست کے لیے بہت بڑی بدنصیبی ہوتا ہے۔ ریاست کو چلانے کا اختیار صرف ان لوگوں کو حاصل ہے جو دانشور اور تخلیقی ذہن کے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
دانشور اور تخلیقی ذہن کے طبقے کے لوگ ریاست کو چلانے کا نہ صرف حق رکھتے ہیں بلکہ ریاست چلانے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے ۔یہ طبقہ کبھی ریاست میں انارکی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ یہ اپنے مدبرانہ انداز اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ریاست کو ترقی اور خوشحالی کی عروج پر لے جاتا ہے۔ اس طبقے کے افراد ہر قسم کی مشکل کو حل کرنا بھی جانتے ہیں اس طبقے میں نہ دولت کی ہوس ہوتی ہے اور نہ ہی یہ اپنے اکاؤنٹ بنا کر ریاست کا پیسہ باہر ٹرانسفر کرتے ہیں۔ اس طبقے کے لوگ صرف اپنی ریاست اور اپنے لوگوں کا سوچتے ہیں۔پسماندگی کی دہلیزپار کرکے ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنے کے لیے ہمیں بھی مدبر دانشور اور تخلیقی صلاحیتوں کا مالک طبقہ ہی حکمران چاہیے جو ہمیں غربت،جہالت ،فسطائیت اور دہشت گردی سے نکال کر امن ،خوشحالی اور بھائی چارے والی پر امن زندگی گزارنے کا حق دے سکے۔