... loading ...
سمیع اللہ ملک
گاڑی میرے گھرکے سامنے رکی،پہلے باوردی شوفراترا،پچھلے دروازے کی طرف بھاگااورسرعت سے ہینڈل کھینچ دیا۔ اندرسے آسامی نیلے سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان نکلا،اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا۔میں یہ سب کچھ اپنے گھر کے فرنٹ روم کی سامنے والی کھڑکی سے دیکھ رہاتھا۔اس نے عینک کے گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ماحول کا جائزہ لیااورآگے بڑھ کرمیری دہلیزپرقدم رکھ دیا۔ اس نے جونہی گھرکے دروازے پرنصب گھنٹی بجائی تو مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی اورپریشانی بھی کہ یہ اجنبی کون ہے اور میرے ہی گھر کا اس نے انتخاب کیوں کیاہے؟
اگلے دومنٹوں میں وہ میرے سامنے بیٹھاتھا۔وہ ایک خوشحال،وجیہہ اورمہذب آدمی دکھائی دے رہاتھالیکن اسے اپنے سامنے پاکرمجھے کوئی مسرت نہیں ہورہی تھی۔میں دراصل گزشتہ چندبرس سے شدیدڈپریشن کاشکارہوں اورعلاوہ ازیں خدادادپاکستان کی اوپرتلے کی ناکامیاں،سنگین معاشی بحرانوں،مہنگائی میں تڑپتے عوام اورحالات کے بے مہر تھپیڑوں سیاسی انارکی اورابتری نے میری جڑیں تک ہلادی ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ میں ان دنوں چڑچڑا،سنکی اوربیزارسا رہتا ہوں۔میل ملاقات سے مجھے چِڑسی ہوگئی تھی اورمیں اپنی روزانہ کے معمولات کیلئے گھرسے نکلنے کی تیاری کررہا تھا۔میں نے سوچاکہ یہ کتنے غلط وقت پربغیراطلاع دیئے میرے پاس آیاہے۔اس کے پھول میرے سامنے میزپر دھرے تھے جودروازہ کھولتے ہی اس نے اپنی مسکراہٹ اورانتہائی نیازمندی کے ساتھ میرے ہاتھوں میں تھمادیئے تھے۔
اس نے دھوپ کاانتہائی قیمتی چشمہ اتارا،ایک زندگی سے بھرپورمسکراہٹ میری طرف پھینک کربولا”آپ نے مجھے پہچانا؟”میں نے غورسے اسے دیکھا،چہرہ توشناساتھالیکن وقت اوردوری کی دھندمیں ملفوف تھا۔اس نے میری کشمکش بھانپ لی”آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں، 15سال تھوڑاعرصہ نہیں ہوتا؟”میں اسے خاموشی سے دیکھتارہا۔”آپ میرے محسن ہیں،میری خواہش تھی،میں جب کامیاب بزنس مین بن جاؤں،میرے پاس بے پناہ دولت آجائے،لوگ میرے اوپر رشک کریں،تومیں ایک بارآپ کے قدموں میں حاضری دوں”۔
میری وحشت حیرت میں تبدیل ہوگئی اورمیں سکتے کے مریض کی طرح اسے دیکھنے لگا۔وہ تھوڑاساجذباتی ہوگیا۔”میری آپ سے لاہور میں ملاقات ہوئی تھی،میں پچھلے چندبرسوں میں کئی مرتبہ کاروباری سلسلے میں یورپ میں آیالیکن لندن آنے کاپہلی مرتبہ اتفاق ہواکہ مجھے آپ کی یادبھی بہت ستارہی تھی۔سر!میں ایک ناکام شخص تھا،غریب تھا،جذباتی تھا، جس سونے کوہاتھ لگاتا،مٹی ہوجاتا،جس نوکری کیلئے درخواست دیتا،وہاں سے انکارہوجاتا۔میں نے سوچااس زندگی سے توموت اچھی ہے۔اس سے پہلے کہ میں مرجاتا،ایک دوست مجھے آپ کے پاس چھوڑگیا۔آپ نے میری ساری کہانی سن کرمجھے خودکشی کاایک انوکھاطریقہ بتایا۔آپ نے کہااس معاشرے میں زندہ رہنے سے بڑی کوئی خودکشی نہیں، تم اپنے اردگردموجودلوگوں جیسے ہوکران سب سے انتقام لے سکتے ہو۔آپ نے کہاکامیابی اور ناکامی، اچھائی اوربرائی فقط ”اسٹیٹ آف مائنڈ”ہوتی ہے۔جیب تراشی ایک شخص کی ناکامی اوردوسرے کیلئے کامیابی ہوتی ہے۔اسے ایک برائی کہتا ہے اوردوسرے کے نزدیک وہ حصولِ رزق کاذریعہ ہوتی ہے جس سے وہ اپنے بال بچوں کاپیٹ پال رہاہوتاہے اوران کے علاج معالجے پربھی اسی دھندے سے کمائی ہوئی رقم صرف کرتاہے۔جیب تراش اپنے اس عمل سے اس قدروفادار ہوتاہے کہ کسی غریب کی جیب کاٹتے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی اس کے ہاتھ نہیں کانپے کیونکہ وہ”ضمیر”نام کی کسی چیزسے واقف نہیں ہوتا۔گھوڑااگرگھاس سے دوستی کرلے تووہ پھرکھائے گاکیا؟
وہ سانس لینے کیلئے رکا،وہ مجھے اب ہلکاہلکایادآنے لگا۔دس سال پہلے وہ ایک کمزورسازرد رولڑکاتھالیکن اب وہ سڈول جسم کاخوبصورت نوجوان تھا۔وہ گویاہوا”آپ نے کہاتھاکہ اصل قصوروارضمیرہوتاہے،یہ جوتم بہت خوشحال قسم کے لوگ دیکھتے ہوجن کی لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ یہ برسوں میں ارب پتی بن گیایہ بھی کبھی تم جیسے لوگ تھے،بس انہوں نے خودکو مارنے کی بجائے اپنے اپنے ضمیرکوقتل کردیااوربس ایک ہی رات میں خوشحالی کے سفرپرگامزن ہوگئے۔ جیسادیس ویسابھیس۔اس ملک میں ضمیرکی کوئی ضرورت نہیں،اس سوسائٹی میں ضمیر اپینڈکس کی طرح ہے،اگرہے تو کوئی فائدہ نہیں،موجودنہیں توکوئی نقصان نہیں۔آپ نے کہاتھاکہ اپنے اردگرددیکھو”کتنے سیاستدان ہیں،کتنے مذہبی رہنما، بزنس مین، دانشور،ادیب اورصحافی ہیں،یہ سب اخبار،ریڈیواورٹیلیویژن پرکتناجھوٹ بولتے ہیں کہ عرش تک ہل جاتاہے۔ کتنے دھڑلے کے ساتھ قائداعظم،علامہ اقبال اوردیگرقومی مشاہیر پر کیچڑاچھالتے ہیں تاکہ اپنے غیرملکی آقاں کی نمک حلالی ہو سکے حالانکہ یہ جب کہتے ہیں توجانتے ہیں ہم غلط کہہ رہے ہیں لیکن تم ان کااعتماددیکھو،ان کے لہجے کی کھنک،ان کی آنکھوں کی چمک اوران کے چہرے کی دمک ملاحظہ کروتمہیں کسی جگہ کشمکش،پریشانی اورشرمندگی نظرآتی ہے،نہیں دکھائی دیتی،کیوں؟کیونکہ ان لوگوں کے اندر ضمیر جیسی چیزہی نہیں ۔آپ نے کہاتھایہ ضمیرہی ہوتاہے جوانسان کوشرمندگی،پریشانی اورکشمکش سے دوچارکرتاہے،جوآپ کے اعتمادمیں دراڑ ڈالتا ہے،اگرضمیرنہیں توسکھ ہی سکھ،اطمینان ہی اطمینان اورسکون وچین ہی چین!
وہ رکا،اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اورلمباساسانس لیکربولا”سر!اس کے بعد آپ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگر ضمیرکے ساتھ زندہ رہوگے تومیں تمہیں یہ یقین دلاتاہوں کہ کامیاب توتم پھربھی ہوجاگے لیکن یہاں نہیں بلکہ وہاں،جہاں ہم سب کا انتظار ہو رہا ہے۔ سر! میں نے آپ کی پہلی نصیحت پرعمل کیا،میں نے اپنے ضمیرکاگلہ دبادیا،میں نے اسے گہرے گڑھے کی مٹی میں دفن کر دیاجہاں سے اس کی ہلکی سے بھی آوازسنائی نہ دے۔آپ کی پشین گوئی یاتجربہ کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی،میں واقعی کامیاب ہوگیا۔مجھے لگا، میں آپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے قطب شمالی پربرف کی دوکان کھول بیٹھاتھایاچولستان کے باسیوں کوریت بیچ رہاتھا۔میں نے جب بازارمیں درست سودا بیچناشروع کیاتودن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔میں آپ کامشکورہوں سر!”وہ خاموش ہوگیا۔
میں اس کے چہرے کوغورسے دیکھنے لگا،وہاں واقعی کوئی ملال،کوئی شرمندگی اورکشمکش نہیں تھی بالکل ہمارے ان حکمرانوں کی طرح جو اپنے اقتدارکے نشے میں مجبورومقہوربچیوں کوخود سوزی پرمجبورکردیتے ہیں۔افشاں لطیف پچھلے کئی برسوں سے انصاف کی صلیب اٹھائے ہر مقتدرسے خودسے ہونی والی ناانصافی کی رودادسناتے ہوئے اس کے اعضا شل ہو گئے ہیں اوربالآخراس نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے خودکوان ظالم حکمرانوں کے نارواسلوک کے روزروز اپنے اندربھڑکتی آگ میں جھلسنے کی بجائے ایوان اقتدارکے سامنے خودسوزی کااعلان کردیاہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں،اب تک میں کئی کالمزاورآرٹیکلزلکھ چکاہوں،کئی حکومتی افرادنے اس معاملے پرمکمل مدد کا اعلان کرتے ہوئے تسلی وتشفی کی یقین دہانیاں بھی کروائی لیکن صدافسوس کہ معاملہ توپہلے سے بھی زیادہ گھمبیرہوگیاہے۔
پتہ چلاہے کہ اس نے مقتدرافرادکے سامنے سارے شرمناک واقعہ سے آگاہ کرتے ہوئے انصاف کی دہائی بھی دی کہ کس طرح (Child Abuse Mafia) ”چائلڈ ایبوز مافیا” کی جانب سے افسران کو ترقیاں دے کر فلاحی اداروں اوریتیم خانوں میں انچارج لگایاجاتاہے۔ بطورسپرنٹنڈنٹ کاشانہ اس کوبھی گھناؤنے کاروبارکاحصہ بننے پرمجبورکیا گیا لیکن اس کے انکارکے بعداس خداداد اسلامی مملکت میں بہادری کوسراہنے کی بجائے اسے عبرت بنانے کاسلسلہ شروع کردیاگیاہے اورآج وہ دربدرٹھوکریں کھارہی ہے۔افشاں کے بقول ان سے پہلے کاشانہ میں محکمہ سوشل ویلفیئرکے افسران اپنی ترقیوں اور پیسوں کیلئے عرصہ درازسے چائلڈایبوزکاکاروبارکررہے تھے۔ جس کیلئے یتیم لاواث بچیوں کے کاشانہ میں داخلے اوراخراج کاکوئی ریکارڈنہیں رکھاجاتاتھا۔کئی لڑکیاں کاشانہ کے ریکارڈمیں رجسٹر اور حاضر دکھائی جاتی تھیں لیکن ادارہ سے غائب تھیں ۔کاشانہ کی ہربچی کیلئے کھانے پینے،میڈیکل،تعلیم،بنیادی ضروریات،سرکاری ضروری اخراجات کے ملازمین کی تنخواہیں اورادارے کے تمام اخراجات سرکاری بجٹ آنے کے باوجودخطیررقم عطیات کی صورت میں وصول ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے تمام رقوم کی بندربانٹ کی جاتی ہے۔عطیات کے نام پرمعصوم یتیم اورلاوارث بچیوں کاجنسی کاروبار کیاجاتاہے۔جعلی شادیاں کروا کربچیوں کو بااثر افراد کوفروخت کیاجاتاہے۔کئی بچیوں کو بیرون ملک بیچاگیا۔افشاں کے مطابق ان سے پہلے کاشانہ میں تعینات سپرنٹنڈنٹ نے2013سے2018 تک یتیم لاوارث لڑکیوں کی جعلی شادیاں کروائیں جن کاکوئی ریکارڈموجودنہیں۔یتیم بچیوں کوعیاش ڈونرزکے ساتھ کئی روزتک ادارے سے باہرہوٹلزاورگیسٹ ہاؤسزمیں بھیجاجاتاتھا اور جب بچیاں واپس لائی جاتی تھیں تو ان کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہوتی تھی اوران کے جسم کے کئی حصے بری طرح زخمی ہوتے تھے۔اپنے ان گھناؤنے جرائم پرپردہ ڈالنے کیلئے پرائیویٹ ڈاکٹرزکوبلوا کران کی سرجریاں تک کروائی جاتی تھیں۔
افشاں کامحض قصوریہ ہے کہ کاشانہ میں متاثرہ بچیوں کی جانب سے جنسی درندگیوں کے ان ظالمانہ سلوک پربحیثیت ایک ماں اورعورت اس کی روح تک لرزگئی۔جس کے بعداس نے اپنے ضمیرکی آوازپرلبیک کہتے ہوئے بڑی دلیری کے ساتھ محکمہ ویلفیئرکے ایسے تمام غیرقانونی اورشرمناک احکامات ماننے سے اس وقت انکارکردیاجب محکمے کی جانب سے عنایات کی بارش کی جارہی تھی۔ مورخہ 12 جولائی 2019کوسیکریٹری سوشل ویلفیئرعنبرین رضاکوتحریری درخواست کے ساتھ کاشانہ کی ان تام متاثرہ یتیم بچیوں کے محکمانہ انکوائریز میں بیانات بھی ریکارڈکروائے جن میں ان بچیوں نے جنسی کاروبار میں استعمال ہونے سے متعلق تمام روح فرساتفصیلات بھی بتائیں۔
قارئین!یقین کریں کہ اس کے بعدہونے والے واقعات کوتحریرکرنے کیلئے میرے قلم اورضمیرمیں ایک خاص جنگ شروع ہوگئی ہے اور دونوں نے ایکاکرکے میرے ہاتھوں میں رعشہ طاری کردیاہے،آپ جانتے ہیں کہ میری یہ حالت کیوں ہو گئی ہے؟وہ اس لئے کہ کاشانہ سکینڈل منظرعام پرآنے کے بعدجہاں دولاوارث لڑکیوں اقراکائنات اورساجدہ کوقتل کردیا گیاوہاں دیگرگواہ لڑکیوں کوبھی کاشانہ سے غائب کروادیاگیا،جن کے بیانات تمام محکمانہ انکوائریزمیں ریکارڈتھے اور میڈیاپربھی وائرل ہوئے تھے۔یہ وہ وقت تھاجب ذاتی طورپرمیں نے اپنے کئی احباب سے ذاتی دلچسپی لینے کی استدعا بھی کی اورمجھے امیدہوچلی تھی کہ اب ان تمام حقائق کی روشنی میں نہ صرف افشاں اور متاثرہ یتیم بچیوں کوانصاف ملے گابلکہ متعلقہ اوباش افرادکوانجام تک پہنچایاجائے گالیکن صدافسوس کہ نمک کی کان میں سب ہی زہریلے نمک کی مانندعذاب الہی کودعوت دینے پرتلے ہوئے تھے۔
12جولائی2019کودی گئی تحریری درخواست کے بعدافشاں اورکاشانہ کی یتیم بچیوں پرزندگی تنگ کردی گئی۔سرکاری افسران اور عمران خان کے وزرااپنے دفاترمیں بلاکرافشاں کے سرکی چادرکھینچتے تھے بلکہ جنسی طورپرہراساں کرتے رہے یہاں تک کہ یتیم بچیوں کے کھانے پینے کابجٹ بھی بندکردیاگیا۔سوال یہ ہے کہ ناکردہ گناہ میں قتل کی گئی کائنات اور ساجدہ کی چیخیں ہی اس ملک پرآنے والے عذاب کیلئے کافی تھیں کہ اس پرمستزاددرجنوں بچیاں بھی اسی انجام سے دوچارکردی گئیں جن کاریکارڈبھی تلف کردیاگیاہے جوکاشانہ ویلفیئر ہوم میں جنسی کاروبار میں استعمال کی گئیں،جن کوبیچ دیاگیایاماردیاگیا۔یہ معاملہ صرف کاشانہ ہوم کانہیں بلکہ محکمہ سوشل ویلفیئرکے دوسرے فلاحی اداروں، دارالامانوں اور بچوں کے یتیم خانوں میں بھی جنسی کاروبارکایہ بااثرمافیااب بھی پوری طرح سرگرم ہے جس میں محکمہ ویلفیئرکے افسران ملوث ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے پسندیدہ افرادکوتو10سال سے بھی زائدانچارج بناکراپنامذموم اورمکروہ دھندہ جاری رکھاجاتاہے اور اگرکوئی افشاں جیساکردارسامنے آجائے تواس کے ساتھ ایسانارواسلوک کیاجاتاہے کہ ہرآنے والاان کے سامنے ہتھیارڈالتے ہوئے اسی مکروہ دھندے کاایک پرزہ بن جائے۔
اس ظلم کی داستان یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ کائنات الیاس اوراس کے دوبہن بھائی مہک الیاس اورعلی الیاس کواغواکرکے چائلڈپروٹیکشن بیورومیں لایاگیااوروالدین اوررشتہ دار ہونے کے باوجودانہیں لاوارث قراردے کرچائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہورمیں رکھاگیاجہاں ان تینوں کابدترین جنسی استحصال کیاگیا۔کائنات الیاس کوقتل کردیاگیاجبکہ مہک اورعلی الیاس تاحال لاپتہ ہیں۔ممکنہ طورپروہ بھی مارے جاچکے
ہیں۔ آپ ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخراس پاک وطن پرمصائب اورعذاب کے بادل کب ختم ہوں گے۔آپ خودہی سوچیں کہ جہاں درخواست گزار افشاں کوانصاف دینے کی بجائے اس کامنہ بندکرنے کیلئے عمران خان کی حکومت میں سرکش،ظالم اورفاسق سرکاری افسران افشاںکوبدترین تشددکانشانہ بنایاگیاہو،اس کے شوہرپرمتعددجھوٹے اوربے بنیادمقدمات درج کروا کرکوٹ لکھپت جیل میں ڈیتھ سیلز میں قیدکردیاگیاہو،اس کاگھرجلادیاگیاہواورغیرقانونی طورپراس کوسرکاری نوکری سے برطرف کردیاگیاہو،اس کے معصوم اوربے گناہ بچوں کودربدرکردیاگیاہو،اورآج وہ تعلیم اوربنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کہ اگرآج ایک ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کودنیابھرمیں جس طرح کی رسوائیوں کا سامناہے،اندرونِ ملک جس سیاسی انارکی اورابتری کاسامناہے،بے یقینی کے ایک عالم نے ہرپاکستانی کوتشویش میں مبتلاکررکھاہے،خودکل کے فرعون مکافاتِ عمل کاشکارہوگئے ہیں تواس کے باوجودآج کے حکمران آخرکس عذاب کے منتظرہیں کہ کوئی اوراقراکائنات اورساجدہ ایسے ہی ظلم سے دوچارہو،کوئی اورافشاں سچ کی صلیب اٹھاکرخودسوزی کیلئے چل
پڑے؟میں مقتدرحضرات سے بڑی دلسوزی کے ساتھ پوچھناچاہتاہوں کہ کیاایساہی حادثہ(خدانہ کرے کہ کسی دشمن کوبھی اس کا سامنا کرنا پڑے ) آپ کے اپنے گھرکی کسی بچی سے ہوجائے توکیاآپ اب بھی اسی طرح کی مجرمانہ خاموشی اختیارکریں گے۔اگرملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیراعلی ایک عورت اورماں ہونے کے ناطے مریم نوازبھی افشاں کوانصاف دینے سے قاصرہیں توپھراس وقت کاانتظارہے کہ کب قدرت کاکوڑہ اپنے انتقام کیلئے اپنا کام شروع کردے گا۔نجانے میرا وجدان یہ گواہی دیتاہے کہ افشاں!تمہیں خودسوزی کی قطعاًضرورت نہیں،عرشِ بریں کے فیصلے کاانتظارکرو، ان تمام ظالموں کے خلاف درج کروائی گئی ایف آئی آرکافیصلہ جلد سامنے آنے والاہے جونہ صرف شرمناک بلکہ عبرتناک بھی ہوگا۔
شرمندہ انہیں اوربھی اے میرے خداکر
دستارجنہیں دی ہے انہیں سربھی عطاکر
میرے بن بلائے مہمان کی آوازنے مجھے چونکادیا۔اس نے آگے پیچھے دیکھااوربڑے اعتمادسے بولا”سر!آپ مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں،کوئی مسئلہ آن پڑاہے؟ اینی پرابلم سر؟”میں نے ٹھنڈی سانس بھری اورتھکی مرجھائی آواز میں کہا”ہاں میں پریشان ہوں،میں بھی اپنے ضمیرکے ہاتھوں تنگ آچکاہوں”اس نے قہقہہ لگایااورچمک کر بولا ”آپ بھی میری طرح اپنی ہی نصیحت پرعمل کریں، مطمئن اورخوشحال ہوجائیں”۔میں نے بھی زوردارقہقہہ لگایااوراس کی طرف دیکھ کرکہا”بڑی کوشش کرتاہوں لیکن اللہ نے میرے اندر ایک عجیب نسل کاضمیرفٹ کردیاہے،میں جہاں چھوڑکرآتاہوں،یہ بلی کی طرح واپس آجاتاہے،میرے گھرپہنچنے سے پہلے دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے اورپہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مجھ پر حملہ آورہوتاہے اوربالآخرمجھے شکست سے دوچارکردیتاہے”۔
”سر!پھرآپ کاشماران لوگوں میں ہوتاہے جواپنے مقدرمیں ناکامی لکھواکرآئے ہیں جوکبھی کامیاب نہیں کہلواسکتے البتہ یہاں نہیں بلکہ وہاں بھی آپ کامیاب ٹھہریں گے،مجھے معلوم نہیں؟میرے لائق کوئی خدمت ہوتویہ میراکارڈرکھ لیں،کبھی یادفرمائیں!”اب میزپرپڑے پھولوں کے ساتھ یہ کارڈبھی مجھے دیکھ کرطنزیہ ہنسی کوچھپانے کی کوشش کررہاہے!
نئے خداؤں سے مشروط دوستی کرلی
فقیہہ شہرنے تجدیدِ بندگی کرلی
وہ بدنصیب جسے سب ضمیرکہتے تھے
سناہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کرلی
اسے خلوص کہوں یا اپنی نادانی
جوکوئی ہنس کے ملااس سے دوستی کرلی
بہارِصحنِ چمن تک نجانے کب پہنچے
خزاں سے ہم نے سرِدست دوستی کرلی