... loading ...
معصوم مرادآبادی
وزیراعظم نریندرمودی نے 78ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے اپنے خطاب میں یوں تو کئی راگ ایک ساتھ چھیڑے ہیں، لیکن ان کی ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ کی تقریر میں جس موضوع کو میڈیا نے سب سے زیادہ اہمیت دی وہ ‘سیکولر سول کوڈ’ کا راگ تھا۔ انھوں نے موجودہ سول کوڈ کو ‘کمیونل ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سیکولر ملک میں ایک ‘سیکولر سول کوڈ’ نافذ ہونا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے ‘کمیونل سول کوڈ’میں 75سال بتائے ، اب ہمیں ‘سیکولر سول کوڈ’ کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔حالانکہ اپوزیشن نے ان کے اس بیان کو آئین کے معمار امبیڈکر کی توہین قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور ان سے معافی نامہ طلب کیا ہے ۔مگرسچ پوچھئے تو وزیراعظم نے جب سے یہ بیان دیا ہے تب سے ہمیں بڑی خوشی ہورہی ہے کیونکہ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو وزیراعظم کی زبان سے لفظ ‘سیکولر’سنے ہوئے ترس گئے ہیں۔وہ جب بھی بولتے ہیں تو ان کے منہ سے سیکولرازم کی روح کے برعکس الفاظ ہی نکلتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں ان کا یہ بیان اس قدر پسند آیا ہے کہ ہم دن میں اسے کئی کئی بار دوہرارہے ہیں اور دوسروں سے بھی اس کی گردان کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ سیکولرازم اس ملک کے دستور کی روح ہے اور دستور کی تمہید میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کے لوگ اب اس تمہید کو بدلنے اور اس میں سے لفظ’سیکولر’ کو خارج کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعظم نے سول کوڈ کے ساتھ ‘سیکولر’کا لفظ استعمال کرنے سے پہلے ان لوگوں سے مشورہ بھی کیا ہے یا نہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ انھوں نے موجودہ سول کوڈ کو فرقہ وارانہ قرار دے کر اسے سیکولر سول کوڈ میں بدلنے کی بات بڑی دوراندیشی کے ساتھ کہی ہے ۔کیونکہ ملک میں اب ہر کمیونل چیز سیکولر ہونے کے لیے بے قرار ہے ۔ہوسکتا ہے کہ سیکولرازم کے لیے یہ بے قراری ان حلیفوں کے لیے ہو، جو ان کی حکومت کو بیساکھیوں کے طورپر سہارا دے رہے ہیں۔ ان کے یہ اتحادی کتنے ‘سیکولر’ہیں اور کتنے ‘کمیونل’یہ تو ان کے عمل سے کئی بارثابت ہوچکا ہے ۔ سیکولرازم بے چارہ اتنا مظلوم ہے کہ اس کا باربار استحصال کیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں کوئی سیاسی پارٹی مستثنیٰ نہیں ہے ۔ جنھوں نے سیکولرازم کے بڑے بڑے سائن بورڈ لگارکھے ہیں وہ بھی اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ جنھوں نے سیکولرازم کو مٹانے کی قسمیں کھارکھی ہیں، وہ تو مسلسل اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہی رہتے ہیں۔
ہماری نظر میں سیکولرازم ایک ایسا نظریہ ہے جو اس ملک کی اقلیتوں کو سراٹھاکر جینے اور برابری کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے ، لیکن جب سے موجودہ حکمرانوں نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے تب سے وہ سیکولرازم پر مسلسل حملہ آور ہیں۔ نہ صرف ملک کے سیکولر تعلیمی نظام کو کمیونل بنایا جارہا ہے بلکہ تاریخ کی کتابوں میں سے سیکولرازم اور یگانگت کے ابواب نکال کر ان میں کمیونل باب شامل کئے جارہے ہیں۔ ریاست مدھیہ پردیش کی سرکار نے تو تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نصاب میں آرایس ایس پرچارکوں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل کریں۔ اس سلسلہ میں 80 کتابوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
اب آئیے ہم دوبارہ سیکولر سول کوڈ سے متعلق وزیراعظم کے اس بیان سے رجوع کرتے ہیں جو آج کے ہمارے مضمون کا اصل موضوع ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ اس ایجنڈے میں شامل دووعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاچکا ہے ۔ ان میں پہلا وعدہ ایودھیا میں عالیشان رام مندر کی تعمیر کا تھا اور دوسرا شورش زدہ ریاست جموں وکشمیر سے دستور کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا۔ مودی سرکار کا دعویٰ تھا کہ کشمیر میں شورش اور دہشت گردی کی اصل وجہ دستور کی دفعہ 370 ہی ہے اور جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک وہاں امن قایم نہیں ہوسکتا۔ یہ بات اتنے زوروشور سے کہی گئی تھی کہ ہم بھی اس پر یقین کرنے لگے تھے ، لیکن ہمیں یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی ہے کہ جب سے دفعہ370 ختم ہوئی ہے کشمیر میں دہشت گردانہ کارروائیاں کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہیں۔شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ وہاں ہماری سیکورٹی فورسز کے جوان اپنی قیمتی جانیں نہ گنواتے ہوں۔ اب جبکہ وہاں دس سال کے بعداسمبلی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے ، صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی، ہمیں نہیں معلوم۔رہی بات رام مندر کی تو یہ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ جن ہزارانتخابی خواہشوں کے ساتھ رام مندر کا قبل ازوقت افتتاح ہوا تھا، وہ دھری کی دھری رہ گئیں۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں سے سے بڑی چوٹ بی جے پی کو اسی اترپردیش سے پہنچی جہاں ایودھیا اور رام مندر واقع ہے ۔ ہمیں سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوا کہ بی جے پی خود اس ایودھیا میں چناؤ ہارگئی جس کی بنیاد پر اس نے پورے ملک میں چناؤ جیتنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ایودھیا کو دلہن بنانے کے لیے دولت کی بارش کردی گئی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی جب سے ایودھیا اور اترپردیش میں چناؤ ہاری ہے وہ رام مندر کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ۔ جب کہ اس سے پہلے وہ اٹھتے بیٹھتے اسی کی گردان کرتی تھی۔
اتراکھنڈ ملک کی پہلی ایسی ریاست ہے جہا ں بی جے پی سرکار نے کامن سول کوڈ نافذ کرنے کا جوکھم اٹھایا ہے ۔مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس سے ہندوؤں کے غیر منقسم خاندانوں، ہندوروسوم ورواج اور درج فہرست ذاتوں کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے جب کامن سول کوڈ بنانا ہے اور سبھی شہریوں کو یکساں سول کوڈ کے دائرے میں لانا ہے تو اس میں استثنیٰ کیوں کیا جارہا ہے ۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس کی سخت گرفت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے اندر مختلف روایات اور ثقافتوں کا کیا ہو گا؟ اویسی نے اتراکھنڈ میں نافذ کئے گئے یونیفارم سول کوڈ کو منافقت کا بدترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح ہندو اقدار وروایات کو باقی ہندوستانیوں پر مسلط کیا جارہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں یکساں سول کوڈ کے تعلق سے اتنے تضادات ہیں کہ اس پر عمل آوری ممکن ہی نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو آئین کے معمار شروع ہی میں اس کو نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ، لیکن انھوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس سے گریز کی راہ اختیار کی۔
سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی حکومت یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات صرف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے کرتی ہے ۔اس کا اصل ہدف مسلم پرسنل لاء ہے جسے وہ یکساں سول کوڈ کی آڑ میں ختم کرنا چاہتی ہے ۔حالانکہ حکومت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اتنے بڑے
اور اتنے کثیر رخی سماج میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنا عملی طورپر ممکن نہیں ہے ، لیکن وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس پر مصر ہے ۔ اب یکساں سول کوڈ کے ساتھ لفظ ‘سیکولر’ کا اضافہ کرکے ایک اور شوشہ چھوڑا گیا ہے ۔وزیراعظم نے یہ شوشہ چھوڑتے وقت اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ہم نے 75سال کا طویل عرصہ جس سول کوڈ میں گزار دیا وہ کس اعتبار سے ‘کمیونل’ تھااور نیا سول کوڈ کس اعتبار سے ‘سیکولر’ ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔