وجود

... loading ...

وجود

پی ٹی آئی پر پابندی

پیر 19 اگست 2024 پی ٹی آئی پر پابندی

رفیق پٹیل

بانی پی ٹی آئی کو پھانسی اور پی ٹی آئی پر پابندی کی خواہش پر مبنی ذو معنی تجزیے مختلف ٹی وی چینل پر بعض مبصّرین بڑھ چڑھ کر کر رہے ہیں۔ موجودہ بعض سابق افسران کی گرفتاری کو پی ٹی آئی سے جوڑکر تانے بانے جوڑے جارہے ہیں کہ شاید ملک میں بغاوت کا کوئی خاص منصوبہ پی ٹی آئی نے بنایا تھا جس کی معلومات اچانک سامنے آئی ہیں۔ حالانکہ سرکاری سطح پر ابھی تک اس طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ۔اگر ان مبصّرین کی بات کو تسلیم کر لیا جائے اور حقیقت میں ایسا کوئی منصوبہ تھاتو نتیجہ ان کی خواہش کے مطابق یہی ہو گا کہ بانی پی ٹی آئی کو پھانسی کی سزا ہوگی اور پی ٹی آئی پر پابند ی لگا دی جا ئے گی۔ یہ فرض کر لیا جائے کہ ان مبصّرین کی خواہشات یا تجزیوں کے مطابق نتیجہ یہی نکل آتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا ملک میں استحکام آجائے گا؟ جیسا کہ ان مبصّرین کا دعویٰ ہے ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خیال کررہے ہوں کہ اس طرح عوام میں خوشی کی لہر دور جائے گی۔ بجلی کی قیمتیں انتہائی کم ہوجائیں گی۔ مہنگائی تین سال قبل کی سطح پر آجائے گی۔ پیٹرول کی قیمت ایک سو پچاس روپے لیٹر ہوگی اور بانی پی ٹی آئی کی پھانسی کی خوشی میں ہر جگہ جشن ہوگا اور لوگ موجود ہ حکمرانوں کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگا تے ہوئے گھروں باہر نکل آئیں گے اور ان مبصرین کو بھی داد دیں گے۔ موجودہ حکمران جنہیں عالمی سطح پر کوئی پزیرائی نہیں مل رہی ہے ۔قبولیت بھی نہیں مل رہی ۔انہیں عالمی سطح پر پزیرائی ملنا شروع ہوجائے تمام عالمی میڈیا گذشتہ انتخابات کو فراڈ بتانے پر معافی مانگ کر یہ بتانا شروع کردے گا کہ انتخابات منصفانہ تھے اور موجودہ حکمران انتہائی مقبول ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مبصّرین اتنی جرأت بھی نہیں رکھتے کہ کھل کر بتا سکیں کہ ان کے تجزیے کے مطابق کیا ہوگا اگر بغاوت ،آئین توڑنے کی اشاروں کنائیوں میں گفتگو اور اس کو پی ٹی آئی پر لاگو کرنا صحیح ثابت کر رہے ہیں تو کھل کر بتا دیں کہ اس کی سزا کیا ہوگی۔ بنگلہ دیش میں بھی اسی طرح حکومت برقرار رکھی گئی تھی بنگلہ دیش میں تیز رفتار معاشی ترقّی کے باوجود عوامی انقلاب کے سامنے حکمران جماعت ٹہر نہ سکی۔حالانکہ بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم حسینہ واجد کو عالمی سطح پر پزیرائی بھی حاصل تھی۔
پاکستان کے حالات بنگلہ دیش سے مختلف ہیں اور زیادہ خطرناک ہیں پاکستان کے عوام میں بے چینی کی یہ لہر 72 سال سے جاری ہے۔ عوامی مزاحمت کا سلسلہ 8جنوری 1952 میں طلبہ تحریک کی صورت میں سامنے آیا تھا۔کراچی میں طالبعلموں پر پویس نے فائرنگ کی تھی۔ قبل ازیں 1951 میںراو لپنڈی سازش کیس میں ممتاز شاعر فیض احمد فیض اور کئی اہم رہنماوں سجاد ظہیر اور جنرل اکبر کو گرفتا کیا گیا ۔ان پر لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام تھا۔ بنگال میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کی وجہ سے بے چینی تھی ۔جنرل ایّوب خان نے جب1962 میںنیا آئین بنایا تو انقلابی شاعر حبیب جالب نے اس وقت لکھا تھا کہ
دیپ جس کا محلّات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا۔۔میں نہیں جانتا
اسی طرح جنرل ضیاء ا لحق نے پیپلز پارٹی کو کچلنے کے لیے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑوں کی سزا دی تو حبیب جالب نے کہا ،
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے جاں
انساں ہیںکہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ُپاکستان میںعوامی بے چینی رفتہ رفتہ بڑھتی رہی ہے اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے عوام کوئی سہولت نہ ملنے اور معاشی محاذ پر مسلسل ناکامی کی وجہ سے مزید بے چینی بڑھ گئی ہے بانی پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے عوامی مقبولیت کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو رہا ہے۔ اچھی حکمرانی ،عوامی خواہشات کے احترام اور عوام کی فلاح و بہبود کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کسی بھی جعلسازی کا انجام مزید عدم استحکا م کی شکل میں سامنے آتاہے۔
بنگلہ دیش میں وزیر اعظم حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کا عمل بنگلہ دیش کے طالبعلموں اور عوام کی ایک ایسی تحریک تھی جو خود رو تھی یعنی بظاہر اس کے پیچھے کسی سیاسی قوت کا کلیدی کردار نہیں تھا ۔در پردہ کیا تھا وہ سامنے نہیں آیا ۔اس تحریک کی قیادت طلبہ کے پاس رہی اور اسے طاقت سے کچلنے کی ناکام کوشش کی وجہ سے اس میں تشدّد کا عمل بھی زیادہ رہا ۔اس تحریک کا آغاز جون میں ہوا تھا۔ پولیس کی کارروائیوں کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیںتھیں۔ وہاں بظاہر ایک مستحکم حکومت کا خاتمہ ہوا پاکستا ن کا معامل مختلف اور زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان میں جاری بڑھتا ہوا سیاسی اور انتظامی بحران ،مہنگائی ،بے روزگار ی اورعوام کی ما لی پریشانیوںکے نتیجے میں پیدا ہونے والا عدم استحکام خطرناک صورت اختیار کر چکاہے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ کسی بڑے انتشار ،افراتفری اور خانہ جنگی کو جنم دے سکتاہے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتوںفیصلہ سازوں اور اشرافیہ کے تمام طاقتورلوگوں کو ہی اس سے بچائو کا راستہ نکال کر پاکستان کو اس دلدل سے نکالنا ہوگا،پاکستان کے کرتا دھرتا افراد کو صورت حالات کی خرابی سے پیدا ہونے والی اس آگ کو روکنا ہوگا۔ اس سے قبل کہ سب کچھ قابو سے باہر ہوجائے اور یہ آگ ملکی سرحدوں سے باہر تک چلی جائے جلد اس کے حل کی ضرورت ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک جمہوریت اوراچھی حکمرانی کے اصولوں پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ عوام کوسہولیات فراہم کرکے تیز رفتار ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت اس راہ کو اختیار کرنے کو تیا ر نہیں ہے۔ بلکہ حکمران جماعت اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مخالفین کو کچلنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہاں تک کے وہ انصاف کے اداروں سے بھی محاذ آرائی کے راستے پر گامزن ہے جس سے مزید تباہی اور عدم استحکام پیدا ہوگا۔ پاکستان کے آئین کی بنیاد عوام کی حاکمیت پر ہے اس بنیاد کے لیے سب سے اہم منصفانہ انتخابات ہیں۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے متعلقہ ادارے کی غیر جانبداری لازم ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتظامی اقدامات کے ذریعے کچلنے سے مزید خرابی پید ہو سکتی ہے۔ اس سے موجودہ حکمران جماعتیں مزید غیر مقبول ہو جائیں گی۔ اس وقت ملکی اور عالمی سطح پر حالات مختلف ہیں ۔ملکی سطح پر پی ٹی آئی کی مقبولیت کے بارے میں شاید ہی کسی کو اختلاف ہوگا۔ اس کی پالیسیوں سے اختلاف جائز ہے لیکن اگر وہ منصفانہ انتخابات میں بھاری اکثریت بھی لے لیتی ہے یا وہ حاصل کر چکی تھی اور اس کی نشستیں کم کی گئیں ہیں تو انصاف فراہم کرکے اس کو قبول کرلینا ہوگا ۔کم از کم موجودہ حکمرانوں کو کسی وسیع سمجھوتے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ موجودہ حکمران اب بھی یہ دعویٰ کریں کہ ملک صحیح سمت میں ہے اسے شاید ہی کوئی تسلیم کرے گا۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر