... loading ...
ریاض احمدچودھری
امریکا اورکینیڈا میں تین منتخب امریکی عہدیداروں سمیت سکھ برادری کے 19رہنمائوں نے کہاہے کہ انہیں یا ان کی تنظیموں کو گزشتہ سال کے دوران امریکا اور کینیڈا میں دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرناپڑا ہے۔واضح رہے کہ کینیڈا میں ایک خالصتان نواز سکھ رہنما کے قتل اورامریکا میں ایک سکھ رہنماکے قتل کی سازش میں بھارت کو ملوث قراردیاگیاہے۔ ا امریکا میں مقیم ایک سکھ معالج ڈاکٹر جسمیت بینس نے جو کیلیفورنیا اسمبلی کی منتخب رکن بھی ہیں ، کہاہے کہ امریکا اورکینیڈا میں سکھوں کو مسلسل دھمکیوں اورخطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر جسمیت بینس اس وقت حیران رہ گئیں جب کیلیفورنیااسمبلی کی طرف سے 1984میں بھارت میں ہزاروں سکھوں کے قتل کو نسل کشی قرار دینے کی قرارداد منظور ہونے کے فورا بعد چار افراد ان کے دفتر میں گھس آئے۔ ان افراد نے جو بظاہربھارتی نژاد تھے،مجھے دھمکی دی کہ وہ میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ دھمکی صرف شروعات تھی اور انہیں 100سے زیادہ دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں۔کیلیفورنیا اسمبلی کی خاتون رکن ڈاکٹر جسمیت بینس کیلیفورنیا کی ریاستی مقننہ میں منتخب ہونے والی پہلی امریکی سکھ سیاست دان ہیں۔
ڈاکٹر جسمیت بینس کا کہنا تھا کہ میں نے ایک کھڑے ٹرک سے کسی کو میرے گھر کی تصاویر لیتے ہوئے دیکھا اور میرے میل باکس کا تالا بار بار توڑا گیا۔ گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوکے اس بیان کے بعد کہ ان کی انتظامیہ کے پاس قابل اعتماد شواہد موجود ہیں کہ بھارتی حکومت برٹش کولمبیا میں ایک سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہے ،پولیس نے ان کے گھر پر سکیورٹی کا جائزہ لیا اور انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی۔
ایف بی آئی نے اکتوبر میں ان کے دفتر میں دھمکیوں کے بارے میں ان سے رابطہ کیا۔میں نے فون کالز کی اسکریننگ شروع کی اور اکیلے سفر کرنے سے گریز کیا۔ میری زندگی بدل گئی ہے اورمیں اب اکیلی کہیں نہیں جاتی۔ میں اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ میرا عملہ ہر وقت میرے ساتھ رہے، جو مجھ جیسی آزاد شخصیت کے لیے بہت مشکل ہے۔رپورٹ کے مطابق مودی سرکار نے تحریک خالصتان کو دبانے کیلئے دنیا بھر میں سکھ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کے آرڈرز جاری کیے۔ خصوصی ڈاکیومنٹری میں مودی سرکار کے سکھوں کیخلاف منظم کریک ڈاؤن کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ کینیڈین اور امریکی تحقیقاتی رپورٹس میں شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا کہ دونوں واقعات میں مودی سرکار براہ راست ملوث تھی’ کینیڈین شہری اور سکھ رہنما منندر سنگھ کو کینیڈین حکام کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ اسے اور دیگر8 سکھ شہریوں کی جان کو سنگین خطرہ ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم ٹیکسی ڈرائیور اور خالصتان کے حامی ہرجندر سنگھ کو بھی بھارتی حکام کی جانب سے مسلسل دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
2020 ء میں4 بھارتی انٹیلی جنس افسروں کو آسٹریلیا سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ بھارتی انٹیلیجنس افسران نے حساس دفاعی ٹیکنالوجی کو غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ آسٹریلیا نے بھارت کے مزید 4 جاسوسوں کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔ اپریل میں بھی 2جاسوس نکالے گئے تھے۔ جاسوسوں کی تازہ بے دخلی کو آسٹریلیا میں بھی مودی سرکار کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔ 4جاسوسوں کی بے دخلی کا انکشاف آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے اپنی تحقیقات میں کیا۔ آسٹریلیا میں بھارتی نیٹ ورک بے نقاب ہونے کی اولین خبریں اپریل میں آئی تھیں جب واشنگٹن پوسٹ نے بتایا تھا کہ 2 بھارتی جاسوس نکال دیئے گئے ہیں۔آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے تحقیقات کے نتیجے میں بتایا ہے کہ بے دخل کیے گئے جاسوس آسٹریلوی سیاست دانوں اور دفاعی ٹیکنالوجیز سے وابستہ افراد اور اداروں کو نشانہ بنا رہے تھے تاہم ان جاسوسوں کو حکام نے ملک سے بہت خاموشی کے ساتھ نکالا ہے تاکہ مودی سرکار کے لیے سبکی اور شرمندگی کا سامان نہ ہو۔ لیکن عوامی سطح پر جاسوسی کی مذمت نہ کیے جانے پر آسٹریلیا کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
آسٹریلوی حکام نے بتایا ہے کہ بھارتی جاسوس نیٹ ورک ایئر پورٹ سیکیورٹی پروٹوکولز کو بھی نشانہ بنارہا تھا۔2021 میں انٹیلی جنس چیف مائک برجس نیٹ ورک کا پتا لگایا تھا اور سفارت کاروں کے بھیس میں کام کرنے والے جاسوسوں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ انہوں نے بھارت کا نام نہیں لیا تھا۔ نام نہاد سفارت کاروں کو خاموشی سے، پروفیشنل طریقے سے ملک بدر کیا گیا تھا۔مائک برجس نے کہا تھا کہ جاسوس نے چند موجودہ اور سابق سیاست دانوں سے روابط استوار کیے تھے۔ ایک غیر ملکی سفارت خانے سے بھی پینگیں بڑھای گئی تھیں اور ایک ریاست کی پولیس سروس سے بھی تعلقات قائم کیے گئے تھے۔اس سے قبل سکھ رہنمائوں کے قتل کی سازش بے نقاب ہونے پر بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور مودی سرکار نے بھی امریکہ سے تعلقات خراب ہونے کا اعتراف کر لیا۔ کشیدہ حالات کے باعث امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کے یوم جمہوریہ کا دعوت نامہ بھی ٹھکرا دیا۔ جوبائیڈن کے نئی دہلی آنے سے انکار پر مودی سرکار نے کواڈ گروپ کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ جبکہ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے بھارت کو تشویشناک ممالک میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔