... loading ...
سمیع اللہ ملک
14/اگست1974کوجب پا کستان دنیاکی سب سے زیا دہ مسلم آبادی والی ریاست کی حیثیت سے نقشے پرابھراتھاتوبابائے قوم نے لارڈ ماونٹ بیٹن کوپہلاگورنرجنرل بنانے سے اس لئے انکارنہیں کیاتھاکہ وہ خوداس عہدے کے خواہاں تھے،بلکہ اس لئے کہ اپنی قوم اور اقوام عالم کویہ باورکروایاجائے کہ اب برطانوی راج ختم ہوگیااورسلطانی جمہورکازمانہ آگیاہے اورملک کے فیصلے ملک کے اندرہوں گے۔ یہ سیا سی آزادی کی علامت تھی۔اس کے ایک سال بعدجب یہ مسئلہ درپیش ہواکہ آیاپاکستان کے طے شدہ تما م اثا ثے پہلے کی طرح ”ریزرو بینک آف انڈیا”میں جمع رہیں یااس کااپنابینک ہو،قائداعظم نے فیصلہ کیاکہ آزادملک پاکستان کااپنا آزادبینک ہوناچاہئے،اس طرح انہوں نے اقتصادی آزادی کااعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کااعلان کیااور کراچی میں بولٹن مارکیٹ میں واقع تاریخی عمارت میں پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کاافتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایسا معاشی نظام نہیں چاہتاجس میں امیر، امیرتر اورغریب،غریب ترہوجائے۔انہوں نے سودی نظام کواستحصا لی نظام قراردیتے ہوئے ماہرین اقتصادیات اورعلمائے دین کوتلقین کی کہ وہ اسلام کے اصولوں پرمبنی بینکاری کے قیام کیلئے تحقیق اورغوروخوض کریں۔اسی طرح انہوں نے سابقہ مشرقی پا کستان کی بندرگاہ چٹاگانگ میں استحصال کے خاتمے اورفلاحی مملکت کے قیام پر زوردیا۔
انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں رہنمااصول متعین کئے اورکہاکہ پاکستان دنیاکے ہرملک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کاخواہاں ہے لیکن ساتھ ہی مظلوم قوموں کی حمایت بھی جاری رکھے گا۔یہ صرف سیاسی بیان نہیں تھاجیساکہ ایوانِ اقتدار پہنچتے ہی ہرطالع آزمااپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے اختیارکرلیتے ہیں بلکہ قائد اعظم نے فلسطین،جنوبی افریقااورانڈونیشیاکے عوام کی جدوجہدآزادی کی کھل کربرملاحمایت کی۔ نسلی امتیازاورنوآبادیات کے خاتمے کیلئے قرارواقعی اقدامات بھی کئے۔اگریہ کہا جائے کہ وہ صرف مسلم ممالک کی آزادی کے حامی تھے توجنوبی افریقاکی اکثریت توغیرمسلم تھی تو پھرانہوں نے اس کی حمایت کیوں کی؟
قائد اعظم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلطنت برطانیہ کے زمانے سے تعینات فوج کوان کی چوکیوں سے واپس بلالیااور کہا کہ اب ہمارے قبائلی بھائی ہماری شمال مغربی سرحد کی حفاظت کریں گے۔لیکن انہیں کیامعلوم تھاکہ ساٹھ سال بعدکوئی خود ساختہ محافظ پاکستان امریکی قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون کے حکم پران ویران چوکیوں پرجواب کھنڈربن گئیں تھیں ،پھرفوج تعینات کردے گاجیسے برصغیرکے برطانوی آقاؤں نے حریت پسندوں کی بستیوں پرسامراج کی گرفت مضبوط کرنے کیلئے کر رکھاتھا۔جہاں سیاسی ایجنٹ چیدہ چیدہ قبائلی سرداروں کورشوت دے کران کی وفاداریاں خریدلیتے تھے۔اس ڈکٹیٹرکے دورمیں یہ کاروباراپنے عروج پرپہنچ گیاتھاکیونکہ اس ڈکٹیٹرنے اپنے غاصبانہ اقتدارکوطول دینے کیلئے چندڈالروں کے عوض قبائلی عوام کوکچلنے کیلئے امریکی سی آئی اے کووہاں اڈے بنانے کی اجازت دے کرقائداورملک وملت کے ساتھ غداری کی۔
لیکن یہ بدنصیبی تواس ڈکٹیٹرکے آنے سے پہلے سے جاری تھی جب امریکی خفیہ پولیس ایف بی آئی کوپا کستان کی سرزمین پر تھا نے قائم کرنے کی اجازت مل چکی تھی۔کیایہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم توانگریزگورنرجنرل کو گوارا کرنے کوتیارنہیں تھے اورایک ایک کرکے نوآبادیات کی باقیات کومٹاتے جارہے تھے،جبکہ ان کی وفات کے تقریباً نصف صدی کے بعد آنے والے حکمران استعمارکے غیرملکی گماشتوں اورجاسوسوں کی میزبانی کررہے تھے۔اب نوبت بہ ایں جارسیدکہ کٹھ پتلی حکمران اپنے عوام سے خاص کرغیور قبائلیوں سے اس قدرخا ئف ہوگئے کہ اپنے غاصبانہ قبضے کوبچا نے کی خاطرغیر ملکیوں اورصہیونی وصلیبی عناصرکی غلامی اختیارکرلی۔کیاکوئی تصورکرسکتاہے کہ کسی حکومت کوخود اپنے ہی عوم سے ،اپنے دین سے،اپنے اعتقادات سے،اپنے نظریات سے خطرہ محسوس ہورہاہوجس سے خودکومحفوظ رکھنے کیلئے انہیں غیر ملکی ایجنٹ اورغیراسلامی نظریات درآمدکرنا پڑیں ؟ بلیک واٹرکادرندہ دن دیہاڑے لاہورکی مشہورشاہراہ پرسینکڑوں لوگوں کے سامنے ایک پاکستانی کو گولیاں مارکرہلاک کردے اوراسے باعزت چھڑوانے کیلئے خودریاستی اداروں کے سربراہ بشمول پاکستانی صدرآصف زرداری قومی خزانے سے وارثوں کوخون بہااداکرکے اسے واپس امریکاروانہ کردیں اوراسی ریمنڈڈیوس نے اپنی خودنوشتہ کتاب میں پاکستانی اداروں کے ان افرادکی تحقیرمیں اپنے کالے صفحات میں ان کامنہ کالاکردیا۔
قا ئداعظم کی11/اگست کی تقریرکابعض لوگ اس طرح حوالہ دیتے ہیں کہ جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی باریہ تقریرکی ہے اوران کی باقی تقاریرمنسوخ ہوگئیں۔یہ لوگ قائداعظم کے متعددبیانات کونظراندزکردیتے ہیں جن میں انہوں نے واضح طورپر تواتراورتکرارکے ساتھ یہ واضح کردیاتھاکہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی،ساتھ ہی قوم کویہ بھی بتادیاتھاکہ اسلام میں پاپائیت یابرہمنیت جیساکوئی طبقہ نہیں ہے جسے ریاست کی اجارہ داری کاکوئی پیدائشی حق حاصل ہو۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ قا ئداعظم ایک سیکولرریاست چاہتے تھے توسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاانہوں نے پاکستان کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ برصغیر میں دوسیکولرریاستیں ہوں،ایک پاکستان اوردوسری اس کے پڑوس میں ہندوستان ؟ پھردوریاستوں کی ضرورت ہی کیاتھی؟اگرپا کستان حق خودارادیت کے نتیجے میں وجودمیں آیاتواس میں اوربھارت میں اسلام کاعنصرانہیں ایک دوسرے سے ممیزکرتاہے۔
کون اس تاریخی حقیقت سے انکارکرسکتاہے کہ برصغیرکے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے جذبہ یگانگت کے تحت مطا لبہ پاکستان کی حمایت کی تھی۔لہٰذایہ کہناکہ مطالبہ پاکستان کی عوامی حمایت کے محرکات معاشی تھے،قطعاًغلط ہے۔کیونکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کوقیام پاکستان سے کون سے معاشی فوائدکی توقع تھی؟وہ توبیچارے ہندو اکثریت کے یرغمال بن گئے،البتہ میں ان جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی نیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاجنہوں نے راتوں رات یونینسٹ پا رٹی چھوڑکرحکمران مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی تاکہ ان کی مراعات باقی رہیں۔میں بھا رت سے نقل مکانی کرنے والے ان مفادپرستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گاجوحصول جائیداد،مال ودولت اورجاہ وحشم کے لالچ میں پا کستان آئے۔
بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ایک لسانی جماعت کے اکثررہنما ایسے بھی ہیں جوقیام پاکستان کے موقع پرہندوستان میں ہی مقیم رہے لیکن یہ اپنی قلیل تعدادکے باوجوداپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یہاں مہاجرکالبادہ اوڑھ کرلوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے اپنے سیاسی ایجنڈاپرگامزن ہیں حالانکہ یہ فوری پاکستان آنے کی بجائے اس بات کاجائزہ لیتے رہے کہ پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات کیارخ اختیارکرتے ہیں۔اپنے کاروباراوردوسری تمام املاک کواچھے داموں فروخت کرکے پاکستان میں مہاجرکا لیبل لگاکر پاکستانی مایہ میں خوب ہاتھ رنگے۔پاکستان کی بیوروکریسی کے توسط سے پا کستان کی نوکرشاہی اوردوسرے ملکی اہم اداروں میں کالے انگریزوں کی طرح بطورحکمران قابض ہوگئے اورآج کھلے عام ملک کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ پاکستان کیلئے اپنے بزرگوں کی قربانی کاذکربھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مخلص مہاجرین کی اکثریت بھی ان سے شدیدنالاں ہے۔ان مذکورہ طبقا ت کے محرکات یقینامعاشی تھے لیکن خودپاکستان میں بسنے والے کروڑہاعوام نے اسلامی جذبے سے سرشارہوکرجدوجہدپاکستان میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ ان میں کتنے کٹ مرے،کتنی عصمتیں لٹ گئیں،لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔لاکھ سے زائد مسلمان بچیاں ہندوں اور سکھوں نے اغواء کرلیں اورآج بھی یقیناآسمان کی طرف منہ اٹھاکرنجانے کس حال میں پا کستان کی سلامتی کیلئے دعاگوہوں گی۔یہ جذبہ ایمانی نہیں تھاتواورکیاتھا ؟اس کی پشت پر کربلاکی روایت تھی،اس کی آکسیجن تحریک خلا فت کانظریہ تھا۔
کیا مسلم عوام نے جس وطن کیلئے اتنی قربانیاں دیں،وہ اس لئے کہ ان کے ملک پرامریکااورمغرب کاتسلط قائم ہوجائے،ان کو امریکی انتظامیہ کاایک ادنی سااہلکاریہ بتائے کہ فلاں کووزیراعظم بنا،فلاں کووزیرداخلہ،فلاں کوملکی سلامتی کامشیر،فلاں کو ہمارے ہاں سفیر مقرر کرو اورفلاں کوعدلیہ کاسربراہ بناؤ؟کیاقائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کیاثا ثے ”ریزرو بینک آف انڈیا’سے نکال کراس لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے تھے کہ سٹی بینک کاایک”کنٹری منیجر”درآمدکرکے اس کوملک کا وزیراعظم بنادیاجائے جو پاکستان کے قومی اثاثوں کواونے پونے داموں میں فروخت کرکے اپناکمیشن کھراکرکے رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے؟بات یہی تک موقوف نہیں بلکہ بعدازاں آئی ایم ایف کے حاضرسروس نمائندے کواسٹیٹ بینک کاگورنر بناکرملک کی ساری مالی سلامتی کی شہہ رگ ان کے حوالے کردی جائے۔
کیاقائداعظم نے کشمیرمیں استصواب رائے عامہ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ کوئی طالع آزماآکریہ کہے کہ اب رائے شما ری سے متعلق سلا متی کونسل کی تما م قراردادیں غیرضروری ہو گئی ہیں!جیساکہ میں نے شروع میں یہ عرض کیاکہ قا ئد اعظم نے قبائلی بستیوں سے فوج ہٹائی لیکن کمانڈومشرف نے نہ صرف فوج کشی کردی بلکہ ایک لا کھ دس ہزارفوج پاک بھارت سرحد سے ہٹاکرقبائلی علاقوں اورافغان سرحد پر لگا دی اوروہ بھی قصرسفیدکے فرعون کے حکم پر!پاکستان کوبیرونی حملے سے بچا نے کیلئے نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی پٹھو حکومت کوافغان عوام پر مسلط کرنے کیلئے،تاکہ افغانستان پرامریکاکاقبضہ برقرار رہے۔اس وقت بھی ہم جیسے افرادچیخ چیخ کرشورمچاتے رہے کہ اب اگربھارت جوکنٹرول لائن کی باربارخلاف ورزیاں بھی کر رہاتھا،پا کستان پرحملہ کردے توکیاہوگا؟ہماری دفاعی لائن جوڈیونڈرلائن تک پھیل جائے گی تو مشرقی محاذپرکون لڑے گا؟امریکا …….؟کیاجب نپولین ،ہٹلر،برژنیف دومحاذوں پرنہیں لڑسکے توپاکستان کے جنرل پاک افغان اور پاک بھارت سرحد وں کی حفاظت کرسکیں گے؟لیکن جواب میں پاکستانی میڈیاکوحکم دے دیاگیااور میری تمام تحریروں پرمکمل پابندی لگادی گئی لیکن اللہ بڑے کریم ہیں کہ پابندی لگانے والابزدل ملک سے فرارہوگیااوراس کی میت ہی واپس آسکی۔ فاعتبِروایاولِی البصار
شنیدیہ ہے کہ امریکابہادرکی یقین دہانی پربھارت سے تمام متنازع امورپرخفیہ مفاہمت کااشارہ دیاگیاتھاجس کے بعدہی حکومت نے ایک لاکھ دس ہزارفوج پاک بھارت سرحد سے ہٹاکرپاک افغان سرحدپرلگادی تھی۔قا ئداعظم کی وفات کے چھ سال بعدہی نوکر شاہی نے اپنی سرزمین پرامریکاکوفوجی اڈے دے دئیے جہاں سے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی پروازیں جاری رہیں جس کے با عث روس پاکستان کواپنادشمن سمجھنے لگااورکشمیرمیں رائے شماری کی قراردادکے خلاف حق تنسیخ استعمال کرکے اسے کالعدم بنادیا۔اسی طرح مشرقی پاکستان سے فوجوں کی واپسی کی قراردادکوبھی منسوخ کرکے بھارتی فوج کومشرقی پا کستان پرقبضہ کرنے کابھرپورموقع فراہم کردیا۔لیکن صدمے کی بات تویہ ہے اورہماری تاریخ کے سیاہ اوراق میں یہ بھی درج ہوگیاہے کہ کس طرح قصرسفیدکے فرعون کے حکم پرتھالی میں رکھ کر کشمیر کومودی کے حوالے کردیاگیا۔اس کربناک داستان کومیں کئی مرتبہ اپنے کالمزمیں تحریربھی کرچکاہوں۔
قائداعظم نے فرمایاتھا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی اورہرصوبے کواندرونی خودمختاری حاصل ہوگی،جبکہ ان کے جانشینوں نے مشرقی پاکستان کوآبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے سے انکارکردیااورمغربی پا کستان کے صوبوں کاوجودختم کرکے ایک اکائی بنادیا۔جب صوبے ہی نہ رہے توپھرصوبائی خودمختاری کیسی؟ہماری انہی آمرانہ حکومتوں کی غلطیوں سے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایااوراب تومودی خود عالمی میڈیاپربھی یہ بارہاتسلیم کررہاہے کہ کس طرح اس نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کیلئے کام کیا۔ کیونکہ اندرہی اندرعلیحدگی پسندی کی آگ سلگتی رہی جس پرانڈیاتیل پھینکتارہاجومشرقی پاکستان میں آتش فشاں بن کرپھٹ پڑی اورصوبہ سرحد،سندھ اوربلوچستان تک پھیل گئی۔مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کے تکلیف دہ سفرپرکئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن میرے رب نے ان تمام کرداروں سے جوانتقام لیا،وہ بھی باعثِ عبرت توہے لیکن ان تمام متکبرشیطانی دماغ تو5/اگست 2024کویقیناششدررہ گئے جب ان کی ایجنٹ خونی حسینہ پناہ کیلئے ان کے پاس پہنچ گئی اورچشم فلک نے اسی ڈھاکہ،چٹاگانگ،جیسورکی سڑکوں پرنوجوانوں کو”پاکستان سے رشتہ کیا،لاالہ الا اللہ” کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جبکہ ان تمام بچوں کی عمریں توبنگلہ دیش کی عمرسے کہیں کم ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں اب بھی سیاسی ابتری،انارکی اورخلفشارپاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلاکررہی ہے اوراستعمارکے گماشتے ماضی کی طرح اب بھی خاکم بدہن اس کے ٹوٹنے کاذکرکرتے رہتے ہیں۔اب بھی اپنے شیطانی دماغوں سے اس کے نقشے شائع کرتے رہتے ہیں۔یہ خبیث پاکستان کی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ ابھی تک اس لنگڑے گھوڑے بھارت پرشرطیں لگارہے ہیں جہاں خوددنیاکی سب سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔خودبھارتی تجزیہ نگارتسلیم کرتے ہیں کہ14بھارتی ریاستوں میں21 بڑی اور53چھوٹی مگر موثرآزادی کی تحریکیں اپنی آزادی کیلئے لڑرہی ہیں بالخصوص ماوتحریک سے بھارتی سلامتی کوشدید خطرات کااعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔ ناگالینڈ، میزوروم،منی پورہ،آسام،مغربی بنگال بہار،اترپردیش میں بھی علیحدگی پسندوں نے بھارت کوبہت خوفزدہ کررکھاہے۔اس کے ساتھ ساتھ نکسل باڑی کے ساتھ تین دیگرصوبوں میں بھی بھارتی حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ بھارتی گورنمنٹ کی انتہاپسندانہ سوچ کی وجہ سے آئے دن ان تحریکوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے اورخودیہ اعتراف منظرعام پرآچکاہے کہ اس وقت بھارت کے174ڈسٹرکٹس انتہاپسنداورعسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ ان ریاستوں کوعسکریت پسنداورانتہاپسندتنظمیں چلارہی ہیں۔صوبے آسام میں اس وقت علیحدگی پسندگردوں کی 34تنظمیں موجودہیں جو اپنے اپنے علاقوں کاانتظام وانتصرام چلارہی ہیں۔اسی طرح ناگالینڈ کی آزادی کی جدوجہدکرنے والی تنظیموں نے نہ صرف بھارت میں جنگی تربیت کے کیمپ لگارکھے ہیں بلکہ ان کیمپوں میں یہ اپنے نوجوانوں کوروزانہ ٹریننگ بھی دیتے ہیں اورایک اطلاع کے مطابق ان کے پاس جنگی پیمانے پر ہتھیار،توپ،ٹینک اورچھوٹے میزائلوں سمیت درجنوں ہتھیار موجود ہیں۔اپنے اپنے علاقوں میں ان تمام تنظیموں کانہ صرف غلبہ ہے بلکہ ان تنظیموں کی اپنی فوج پولیس، آئین، قانون،عدالتیں، کرنسی،جھنڈے اوربڑے سرکاری دفاترمیں ان کے اپنے لیڈروں کی تصاویرآویزاں ہیں۔یہ لیڈربڑے پروٹوکول کے ساتھ اپنے سرکاری دفاترمیں آکربیٹھتے اور کام کرتے ہیں۔مودی حکومت ان کے علاقوں سے ٹرینوں کے گزرنے کاباقاعدہ خراج بھی اداکرتی ہے جبکہ منافقت کایہ عالم ہے کہ بھارتی حکومتیں کئی باران پرپابندیاں بھی عائد کر چکی ہیں،ان تنظیموں کے خلاف کئی بارفوجی آپریشن بھی کئے گئے لیکن بھارتی افواج کے دستے ان ریاستوں میں گم ہوکررہ گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکالیکن اپنی ناکامیوں پرپردہ ڈالنے کیلئے پاکستان میں اب تک دہشتگردی کی تحریکوں کی سرپرستی کررہاہے اور کبھی کبھار اپنے لوگوں کوبیوقوف بنانے کیلئے پاکستان پرسرجیکل اسٹرائیک کی دہمکیاں دیتارہتاہے جبکہ وہ خوب جانتاہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کاجواب فی الفوراس کی ندامت اوررسوائی کی شکل میں ساری دنیاتک دیکھ لیتی ہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے ملک کواستعماری قوتوں کے نرغے سے نکالنے کیلئے اپناوہ کرداراداکریں جس کاعہدہم نے اپنے رب سے کیاتھاکہ اے بارِ الہ:ہمیں زمین پرایساخطہ عنائت فرماجہاں ہم قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی گزارسکیں۔ ہمارے کریم ورحیم رب نے توہمیں ماہِ رمضان کی انتہائی مبارک شب”لیلتہ القدر”کویہ معجزاتی ریاست عطافرمادی،ایک گولی چلائے بغیرہمارے قائدنے اپنے تمام وفادارساتھیوں کی شب وروزمحنت کے ساتھ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرہمارے حوالے کردی لیکن سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ہم نے اپنے رب سے کیاگیاعہدپوراکیا؟جس کاجواب نفی میں ہے۔آئیے ہمیں سب سے پہلے اپنے رب کے حضورپوری ندامت کے ساتھ سجدہ ریز ہوکراجتماعی توبہ کرناہوگی اورتجدیدعہد کی توفیق طلب کرتے ہوئے اس راستے کی طرف گامزن ہوں جس کیلئے یہ ریاست وجودمیں آئی۔ ہمیں آج اپنے رب سے یہ عہدبھی کرناہوگاکہ ہم اپنے اس ملک میں قرآن وسنت کے نفاذ کیلئے اپنی ساری توانائیاں اخلاص کے ساتھ صرف کریں گے اوران تمام عہدشکنوں کوان کے بیرونی آقاؤں کے ساتھ ان کے حتمی انجام تک پہنچائیں گے۔۔.انشااللہ۔۔اللہ ہم سب کاحامی وناصرہو…..اللھم آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔