... loading ...
ریاض احمدچودھری
پاکستان کی ناقابل تسخیر قومی سلامتی کی بنیاد اور تیز رفتار سماجی و اقتصادی پیشرفت کا ایک انمول ذریعہ ہے۔ 25 برسوں میں پاکستان نے ایک مضبوط آپریشنل صلاحیت کو برقرار رکھا ہے جس کے ساتھ جوہری حفاظت کا ایک بے عیب نظام ہے۔ ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے طور پر پاکستان کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر مستحکم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، فعال جوہری سفارت کاری نے پاکستان کی تحمل اور ذمہ داری کی پالیسیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارت میںریڈیو ایکٹیو مواد کیلیفورنیم کے ساتھ ایک گینگ کی گرفتاری پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں چند افراد پر مشتمل گینگ سے شدید ریڈیو ایکٹیو اور زہریلا مواد کیلیفورنیم برآمد ہوا ہے، تابکاری اور زہریلے مواد کی مالیت 10 کروڑ امریکی ڈالر ہے۔ ایسے واقعات حساس، دوہرے استعمال کے مواد کی بلیک مارکیٹ کی موجودگی کی گواہی دیتے۔
بھارت میں 2021 میں کیلیفورنیم کی چوری کے 3 واقعات رپورٹ ہوئے تھے، بھارت میں 5 افراد کے ایک گروہ سے مبینہ طور پر بھابھا ایٹمی ریسرچ سینٹر سے چرائی ہوئی ریڈیو ایکٹیو ڈیوائس بھی برآمد ہوئی۔ اس سے قبل 2022 ء میں 2بھارتی شہریوں کو نیپال میں یورینیم غیر قانونی طور پر رکھنے اور فروخت کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی شہریوں نے یہ مواد مبینہ طور پر بھارت سے اسمگل کیا تھا۔ مئی 2021 ء میں ایک اسکریپ ڈیلر سے 7 کلو گرام تابکاری یورینیم بر آمد کیا گیا جس کی مالیت 21کروڑ روپے تھی۔ بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے متواتر واقعات نیوکلیئر سیکورٹی کی ناکامی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گزشتہ 2دہائیوں کے دوران 200 کلو گرام سے زائد جوہری اور تابکاری مواد مبینہ طور پر بھارتی تنصیبات سے غائب ہو چکا ہے۔یہ مسلسل ہونے والے واقعات نئی دہلی کی سیکورٹی سے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری بھارت سے کیلیفورنیم مواد برآمدگی کے انکشافات پر جواب طلبی کرے، بھارت میں ایسے مواد کا مسلسل غلط ہاتھوں میں پایا جانا انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان واقعے کی مکمل تحقیقات اور انہیں روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کے مطالبہ کرتا ہے۔
امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے 170 ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلائو اور عدم پھیلائو پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے ،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012 ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
ماضی میںیہی این ٹی آئی تھا، جس نے کئی بار پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا اسکور ابھی بھی 40ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کا ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا انتظام نہ صرف ناقص ہے بلکہ کسی وقت بھی انتہا پسند ہندو اس پر قبضہ کر سکتے ہیں۔جس کے بعد دنیا میں تباہی آئے گی۔ پاکستان نے 1970کے وسط میںایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کیا۔ جس کا مقصد پاکستان کی بھارت کے ساتھ جاری کشمکش تھی۔ پاکستان نے تمام تر حفاظتی انتظامات کے تحت اس پر کام جاری رکھا اور ایٹمی دھماکے کرنے میں پہل نہیں کی لیکن جیسے ہی بھارت نے ایٹمی تجربات کیے تو پاکستان نے بھی ا سکے جواب میں ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کر دیا۔پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی پاور بنی تھی اسی بنا پر اسے مختلف ناموں سے پکاراگیا۔پھر جب ماضی قریب میں ملک بھر میں بدامنی تھی، مختلف شہروں میں دہشتگرد دندناتے پھر رہے تھے۔ سابق قبائلی علاقوں میں اور سوات میں حکومت کی گرفت کمزور ہوچکی تھی۔ تب دنیا بھر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں تھیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان نے ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں ایسے فول پروف انتظامات کیے کہ آج پوری دنیا اس کی معترف ہے۔
پاکستان نے ان تمام تحفظات کو دیکھتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کے لیے ایک خصوصی اٹامک اسٹریٹیجک پلان ڈویڑن فورس قائم کی ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دو بنیادی جہتیں ہیں۔ ایک اس کا استعمال پرامن مقاصد کے لیے کرنا، اور دوسرا اس کا اسٹریٹیجک پہلو ہے۔ابھی تک پاکستان این پی ٹی کا حصہ نہیں ہے، اس لیے اس کے پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا پہلو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی نگرانی میں ہوتا ہے۔