... loading ...
ریاض احمدچودھری
قیام پاکستان کے وقت اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ کو 1946 کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن بدقسمتی قائد اعظم کے بقول ہندوؤں کے شو بوائے اور کانگریس کے آلہ کار مولانا ابوالکلام آزاد اور انگریز کی سازش سے صوبے میںمسلم لیگ کابینہ نہ بن سکی۔1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے پنجاب اسمبلی میں مسلمانوں کی کل 86 میں سے 79 نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ واحد اکثریتی پارٹی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد طیارے کے ذریعے دہلی سے لاہور آئے اور انہوں نے انگریز گورنر فرانسس مودی ، کانگریس کے صوبائی صدر، اکالی رہنما تارا سنگھ اور یونی نیسٹ پارٹی کے سربراہ ملک خضر حیات ٹوانہ سے ساز باز کر کے ٹوانہ کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد تحریک پاکستان کی پرزور مخالفت کرتے رہے اس کے باوجود 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی اور ابوالکلام آزاد نے قیام پاکستان کے وقت جو آخری سازش کی وہ کامیاب ہوگئی اور یوں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی اپنی حکومت نہ بنا سکی۔
تحریک پاکستان کے دوران جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار، کانگریس اور یونی نیسٹ پارٹی نے منظم اور بھرپور کوشش کی کہ پنجاب میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل نہ ہو۔ اس انتخابی مہم میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، سید عطا اللہ شاہ بخاری ، نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم اورشیعہ احرار رہنما مولوی مظہر علی اظہر(مسلم لیگیوں کے بقول ادھر علی ادھر)کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ سرخرو ہوئی اور اس میں بڑے بڑے احرار لیڈر نوابزادہ نصراللہ خاں اور مولوی مظہر علی اظہر بھی بری طرح شکست کھا گئے۔ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر 14-13 اگست کی درمیانی شب 12 بجے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ انگریز حکمران کانگریس، جمعیت علماء ہند اورمجلس احرار کی پشت پر تھے لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں انگریزوں، ہندوؤں اور متحدہ قومیت کے حامیوں کو شکست دی اور علامہ اقبال کے 1930ء کے مشہور زمانہ خطبہ الٰہ آباد کی روشنی میں شمالی ہندوستان میں اکثریت کی بنیاد پر علیحدہ وطن معرض وجود میں آیا۔ قانون آزادی ہند1947ء سے پہلے طے ہوا تھا کہ پنجاب اور بنگال تقسیم نہیں ہوں گے لیکن انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریسی رہنماؤں کی سازش کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا گیا۔ ٹوانہ حکومت کے قیام کے فیصلے کے خلاف پنجاب بھر میں بالعموم اور ہندوستان کے بڑے سیاسی مرکز امرتسر میں زبردست مظاہرے شروع ہوگئے اور ٹوانہ کو ایک ماہ بعد ہی مستعفی ہونا پڑا۔
راقم الحروف سینکڑوں مسلم لیگی کارکنوں اور رہنماؤں بشمول شیخ صادق حسن، مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ، خواجہ محمد رفیق ، ذکی الدین پال، تقی الدین پال اور عزالدین پال جو ان مظاہروں کی قیادت کرتے تھے ، کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتا تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب مسلم نوجوان خضر حیات ٹوانہ کے خلا ف مظاہرے کرتے تو ہندو سکھ مظاہرین پر پتھراؤ کرتے تھے۔ 13 اور 14 کی درمیانی رات کو کپور تھلہ، نابھہ، پٹیالہ اور چمبہ کی ریاستوں کی پولیس اور سکھوں پر مشتمل مسلح جتھوں نے چاروں طرف سے امرتسر پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے۔ نام نہاد اکالی رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے کرپان لہرا کر کہا تھا کہ ہم پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کریں گے۔ وائسرائے ہند، پنجاب کے انگریز گورنر مسلمانوں کا قتل عام روکنے میںناکام رہے۔ مغربی پنجاب میں تعینات لیفٹیننٹ کرنل محمد موسیٰ نے پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے بلوچ رجمنٹ امرتسر بلوائی اور مسلم فوجیوں کی کارروائی سے کثیر تعداد میں سکھ مارے گئے۔ بلوچ رجمنٹ کے کمانڈر نے اعلان کیا کہ امرتسر اور گردونواح کے مسلمان ریلوے سٹیشن پر جمع ہوجائیں جنہیں یہاں سے فوج کی نگرانی میں لاہور منتقل کیا جائیگا۔
13 اگست کو امرتسر سے پہلی ٹرین لاہور روانہ ہوئی جو والٹن (لاہور) میں آ کر رکی۔ اسی لئے مسلم لیگی حکومت نے والٹن میں باب پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا جس کا تین دفعہ سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے مگر تاحال والٹن میں باب پاکستان تعمیر نہ ہوسکا۔ راقم الحروف ان ہزاروں مسلمانوں میں شامل تھا جو اس وقت امرتسر ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔ 12 بجے سے چند منٹ پہلے بتایا گیا کہ چند منٹ بعد نیا اعلان ہوگا۔ 12 بجے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ریڈیو پاکستان ہے ۔ انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے کیا۔ اس کے بعد مصطفی علی ہمدانی کی زبانی خبریں سنیں۔ جب یہ اعلان ہوا تو امرتسر ریلوے سٹیشن اور شہر بھر میں پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے لگائے گئے اور پھر تقریباً ایک گھنٹہ بعد امرتسر سے مہاجرین کو لے کر دوسری ٹرین پاکستان روانہ ہوئی۔ میں بھی اس ٹرین میں سوار تھا۔ تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد ٹرین ہربنس پورہ پہنچی تو اس کا رخ منٹگمری کی طرف موڑ دیا گیا۔ کیونکہ اس وقت تک لاہور انتظامیہ پہلی ٹرین کے مسافروں کے قیام و طعام میں مصروف تھی اور اس کے پاس مزید مہاجرین کو ٹھہرانے کیلئے کوئی انتظام نہ تھا۔ نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل یہ ٹرین منٹگمری پہنچی ۔ مہاجرین کو منٹگمری کے سکولوں اور کالجوں میں ٹھہرایا گیا۔ خضر حیا ت ٹوانہ کے مستعفی ہونے کے بعد انگریز گورنر نے آئین کے مطابق اسمبلی میں اکثریتی پارٹی مسلم لیگ کے قائد نواب افتخار الحسن ممدوٹ کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کی بجائے گورنر راج نافذ کر دیا۔ بعد ازاں گورنر جنرل قائد اعظم نے انگریز گورنر کو برطرف کر دیا اور عبدالرب نشتر پنجاب کے گورنر بنے جنہوں نے اپنے فرائض سنبھالتے ہی نواب افتخار الحسن ممدوٹ کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ، حلف اٹھانے کی دعوت دی۔ افتخار حسین ممدوٹ مسلم لیگ کے فعال، زیرک اور دانشمند رہنما تھے۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے علامہ اسد کی زیر نگرانی پنجاب میں محکمہ نفاذ اسلام کے قیام کا اعلان کیا۔نواب ممدوٹ نے ان سے کہا کہ چونکہ پاکستان اسلام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے۔
علامہ محمد اسد سے راقم الحروف کا تعارف دسمبر 1957ء میں لاہور میں قیام کے دوران ہوا تب وہ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی اسلامی سیمینار کا اہتمام کر رہے تھے۔ ان کی کوششوں سے اس سیمینار کا انعقاد ہوا۔ مجھے ا ن سے انٹرویو کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ میرے خیال میں ، میں زندگی میں جن اہل علم حضرات سے متاثر ہوا ہوں ان میں علامہ محمد اسد کا نام چند گنے چنے اصحاب میں شامل ہے۔ علامہ محمد اسد نے 17 سال کی کاوشوں کے بعد 80 برس کی عمر میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب “قرآن پاک کی انگریزی ترجمہ و تفسیر” کو تکمیل تک پہنچایا۔ بعد ازاں علامہ اسد کوپاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔علمی وتحقیقی کارناموں کے ساتھ ہی عالمی صحافت پر گہری نظر اور پختہ سیاسی شعور کے باعث انہوں نے بحیثیت سفارت کا ر بھی اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا۔علامہ اسد پاکستان کے پہلے شہری تھے جنہیں حکومت پاکستان نے پاسپورٹ جاری کیا۔ یہ پاسپورٹ قائد اعظم کو جاری ہوا نہ لیاقت علی خان کو۔