وجود

... loading ...

وجود

غزہ میں 92 ہزار سے زائداموات

هفته 10 اگست 2024 غزہ میں 92 ہزار سے زائداموات

ریاض احمدچودھری

مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کے اسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے 45 امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں پر مشتمل ایک طبی گروپ نے امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کولکھے گئے خط میں انکشاف کیا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 7 اکتوبر سے اب تک اموات ممکنہ طور پر 92 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ اسرائیلی حملوں سے غزہ کا ہر شخص زخمی یا بیمار یا دونوں حالتوں میں ہے، غزہ میں بچوں کوجان بوجھ کر زخمی کیا گیا۔غزہ میں سرکاری طور پر 7 اکتوبر سے اب تک فلسطینی شہدا کی تعداد 39 ہزارسے زیادہ بتائی ہے جن میں بڑی تعداد میں بچے شامل ہیں۔امریکی ڈاکٹر نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے، حکومت امریکی اوربین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنے کی پابند ہے۔امریکی ڈاکٹروں نے مزید مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پرپابندی لگائی جائے، فوجی،اقتصادی اور سفارتی مدد روکی جائے۔اگرچہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر لاپتہ ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اکثر افراد کو مبینہ طور پر ‘جبری گمشدگی’ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ تعداد صرف ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی ہے۔جنیوا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان اعداد و شمار میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان افراد میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حماس کے اہلکار ہیں۔غزہ کے شہری دفاع جو فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کا حصہ ہے کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ممکنہ طور پر 10 ہزار سے زیادہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 37 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کے نیچے بہت سی لاشیں ہیں اور تقریباً 7500 ٹن ایسے بم موجود ہیں جو ابھی تک پھٹے نہیں ہیں۔ یہ امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کے لیے ایک اضافی خطرہ ہو سکتا ہے۔سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اس کا عملہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کا کام کرتا ہے لیکن ان کے پاس صرف سادہ اوزار ہیں اور اکثر مرنے والوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ جب غزہ اپنے گرم ترین مہینوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو لاشوں کو مناسب انداز میں دفن نہ کرنے کی وجہ سے اْن کے گل سڑ جانے کی وجہ سے صحت کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔سول ڈیفنس نے لاشیں نکالنے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ اور اس حوالے سے تجربہ رکھنے والے ممالک سے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا خیال ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ان کے اہل خانہ کی معلومات کے بغیر حراست میں لیا ہو گا جسے وہ ‘جبری گمشدگی’ قرار دیتے ہیں۔یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ غزہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کو آئی ڈی ایف نے ان کے اہلخانہ کو بتائے بغیر حراست میں لیا ہوا ہے۔ جنیوا کنونشن جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت اور مقام کی اطلاع دینی ہو گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اقوام متحدہ جو دو ملکوں کے درمیان تصفیہ طلب معاملات طے کرانے کا پابند ہے اور اسی مقصد کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ امریکہ اور جنونی اسرائیل کے سامنے انتہائی بے بس نظر آرہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق فلسطین میں جنگ بندی کے سخت احکامات جاری کرے اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے، وہ اس جنگ بندی کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد لانے پر ہی اکتفا کر رہا ہے جسے امریکا مسلسل تیسری بار ویٹو کر چکا ہے جس سے دہشت گرد اسرائیل کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر