... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کے اسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے 45 امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں پر مشتمل ایک طبی گروپ نے امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کولکھے گئے خط میں انکشاف کیا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 7 اکتوبر سے اب تک اموات ممکنہ طور پر 92 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ اسرائیلی حملوں سے غزہ کا ہر شخص زخمی یا بیمار یا دونوں حالتوں میں ہے، غزہ میں بچوں کوجان بوجھ کر زخمی کیا گیا۔غزہ میں سرکاری طور پر 7 اکتوبر سے اب تک فلسطینی شہدا کی تعداد 39 ہزارسے زیادہ بتائی ہے جن میں بڑی تعداد میں بچے شامل ہیں۔امریکی ڈاکٹر نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے، حکومت امریکی اوربین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنے کی پابند ہے۔امریکی ڈاکٹروں نے مزید مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پرپابندی لگائی جائے، فوجی،اقتصادی اور سفارتی مدد روکی جائے۔اگرچہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر لاپتہ ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اکثر افراد کو مبینہ طور پر ‘جبری گمشدگی’ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ تعداد صرف ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی ہے۔جنیوا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان اعداد و شمار میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان افراد میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حماس کے اہلکار ہیں۔غزہ کے شہری دفاع جو فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کا حصہ ہے کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ممکنہ طور پر 10 ہزار سے زیادہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 37 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کے نیچے بہت سی لاشیں ہیں اور تقریباً 7500 ٹن ایسے بم موجود ہیں جو ابھی تک پھٹے نہیں ہیں۔ یہ امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کے لیے ایک اضافی خطرہ ہو سکتا ہے۔سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اس کا عملہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کا کام کرتا ہے لیکن ان کے پاس صرف سادہ اوزار ہیں اور اکثر مرنے والوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ جب غزہ اپنے گرم ترین مہینوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو لاشوں کو مناسب انداز میں دفن نہ کرنے کی وجہ سے اْن کے گل سڑ جانے کی وجہ سے صحت کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔سول ڈیفنس نے لاشیں نکالنے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ اور اس حوالے سے تجربہ رکھنے والے ممالک سے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا خیال ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ان کے اہل خانہ کی معلومات کے بغیر حراست میں لیا ہو گا جسے وہ ‘جبری گمشدگی’ قرار دیتے ہیں۔یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ غزہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کو آئی ڈی ایف نے ان کے اہلخانہ کو بتائے بغیر حراست میں لیا ہوا ہے۔ جنیوا کنونشن جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت اور مقام کی اطلاع دینی ہو گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اقوام متحدہ جو دو ملکوں کے درمیان تصفیہ طلب معاملات طے کرانے کا پابند ہے اور اسی مقصد کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ امریکہ اور جنونی اسرائیل کے سامنے انتہائی بے بس نظر آرہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق فلسطین میں جنگ بندی کے سخت احکامات جاری کرے اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے، وہ اس جنگ بندی کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد لانے پر ہی اکتفا کر رہا ہے جسے امریکا مسلسل تیسری بار ویٹو کر چکا ہے جس سے دہشت گرد اسرائیل کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔