وجود

... loading ...

وجود

اسرائیل کو بھارتی اسلحہ کی فراہمی

جمعه 09 اگست 2024 اسرائیل کو بھارتی اسلحہ کی فراہمی

ریاض احمدچودھری

بھارت عالمی امن و امن کی صورتحال کو خراب کرنے کے لیے دہشت گردی میں پیش پیش رہا ہے ، جس کے شواہد اور رپورٹس مختلف اوقات میں منظرعام پر آتے رہتے ہیں جب کہ بھارت اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھی براہ راست شامل ہے۔جنوری 2024 میں بھارتی دفاعی کمپنی میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کی جانب سے اسرائیل کو گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد فراہم کیا گیا۔بھارتی وزارت دفاع کے تحت ایک پبلک سیکٹر انٹرپرائز میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کو جنوری2024 تک اپنی مصنوعات اسرائیل بھیجنے کی اجازت دی گئی۔اڈانی ڈیفنس اور اسرائیل کے ایلبٹ سسٹمز کے درمیان مشترکہ منصوبے میں واقع اڈانی ایلبٹ ایڈوانسڈ سسٹمز انڈیا لمیٹڈ نے 2019ء سے 2023ء کے درمیان اسرائیل کو بھارتی ایرو اسٹرکچرز اور سب سسٹمز کی شکل میں 20 Hermes اور 900 سے زائد ڈرونز اور گولہ بارودفراہم کیا۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ کے تحت ایک نجی بھارتی کمپنی پریمیئر ایکسپلوسیوز لمیٹڈ کو گزشتہ سال غزہ پر اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے دو بار ہ جنگی ہتھیاروں کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔18 اپریل 2024 کو میونیشنز انڈیا لمیٹڈ نے اسرائیل سے دوسرے مرحلے میں گولہ بارود اور دیگر ہتھیار برآمد کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔ بھارتی کمپنی میونیشنز انڈیا لمیٹڈ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی دوسری برآمد کی منظوری بھی زیر غور ہے۔
مودی سرکار نے اسرائیل کے ساتھ بہت سے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق بھارت نے گزشتہ برسوں کے دوران اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر مالیت کا ملٹری ہارڈ ویئر درآمد کیا جس میں ریڈار، نگرانی اور جنگی ڈرونز اور میزائل شامل تھے۔ رواں سال بھی اڈانی گروپ کے ڈرون بھارت سے اسرائیل بھیجے گئے تھے جو غزہ میں نہتے مسلمانوں پر استعمال کیے گئے۔مودی سرکار کی جانب سے اسرائیل کو فلسطین کے خلاف استعمال کے لیے ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی اور نسل کشی کے فروغ کا حامی ہے۔
بھارت انسانی حقوق کے کارکنوں، ججوں، مصنفوں اور دیگر نے مودی حکومت کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں تحریر ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو فوجی سازو سامان کی فراہمی میں اپنا تعاون فوری طور پر معطل کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اسرائیل کو فراہم کئے گئے ہتھیار نسل کشی یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے استعمال نہ ہوں۔ وزارت دفاع بھارتی کمپنیوں کی طرف سے اسرائیل کو فوجی ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی کے تمام موجودہ لائسنسوں کا جائزہ لیں اور انہیں منسوخ کرے۔
بھارت اسرائیل کی ہر طرح مدد کے بدلے میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف اسرائیل کی مدد حاصل کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں1990ء سے ہی اسرائیل فورسز کی تربیت ، سراغرساں امور میں تعاون اور کشمیری حریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیلئے بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اپنے اس تعاون کو اب مزید مضبوط اور موثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت اوراسرائیل کے ایک مشترکہ وفد کی مقبوضہ کشمیر آمد اور بعض لوگوں سے ملاقاتیںاسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کشمیری عوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارتی حکمران اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کو بے بس اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جسطرح اسرائیل نے فلسطین میں کیا ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر یوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے اور اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی سے دستبردار کرنے کیلئے مکمل طور پراسرائیل کی رہنمائی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھارت بھی چاہتاہے کہ کشمیر میں اسرائیل کی موجودگی کو تعلیم، طب، کلچر اور تجارت کی شکل میں مضبوط اور موثر بنایا جائے۔
بھارت اور اسرائیل جموں و کشمیر اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اپنااپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کے لئے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کا خون بہانے میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور انتہا پسند ہنود و یہود کے اس ظالمانہ کھیل میں انہیں امریکہ کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ غزہ میں جدید ترین اور مہلک ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے پرامن مارچ پر آتش و آہن کی بارش کر کے ہزاروں کو خون میں نہلا دیا تو اس سے شہہ پا کر بھارتی فو ج نے مقبوضہ کشمیر میں سرچ آپریشن کے نام پر ضلع شوپیاں اور اسلام آباد میں حملے کر کے کشمیری نوجوانوں کو شہید اور دو سو سے زائد کو لہولہان کر دیا جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کا خون پانی کی طرح بہانا شروع کردیا اور گزشتہ دنوں مختلف علاقوں میں 20نوجوانوں ریاستی طاقت کے استعمال سے ابدی نیند سلادیا اور اب انکشاف ہوا ہے کہ پیلٹ گنز اور دیگر ہتھیاروں کے بعد اب بھارت نے مقبوضہ وادی میں اسرائیل ساختہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا جو گھروں کو سیکنڈز میں جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پلوامہ میں تین نوجوانوں جہانگیر خاندے، کفایت احمد اورفیصل احمد کی لاشیں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں جلے ہوئے گھروں کے ملبے سے ملی ہیں، جو جلنے کی وجہ سے شناخت کے قابل بھی نہ رہیں۔
بی جے پی بظاہر قوم پرست جماعت ہے’ مگر اس کے بیشتر رہنما انتہا پسند ہندو تنظیم” آر ایس ایس” (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی مثلاً دمودر ساورکر’ ڈاکٹر مونجے’ ڈاکٹر کیشوہیڈ گوار’ ایم ایس گوالکر وغیرہ ان یہودی رہنماؤں کے خیالات و نظریات سے متاثر تھے جنہوںنے صہیونیت کی بنیاد رکھی۔ جس طرح صہیونیت کے بانیوں نے یہ وکالت کی کہ فلسطین صرف یہود کا ہے’ چنانچہ عربوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اسی طرح آر ایس ایس کے رہنماؤں کی بھی خواہش چلی آ رہی ہے کہ مسلمان بھارت سے نکل جائیں یا ”ہندوسپرمیسی” قبول کر لیں۔ یہی نظریاتی مطابقت اسرائیلی اور بی جے پی حکومتوں کو قریب لے آئی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر