... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بنگلادیش کی نئی کروٹ کوکچھ حلقے انقلاب کا نام دیتے ہیں مگرکچھ حلقے ایسے کسی خیال سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ نفی کرتے ہوئے محض اقتدار کی تبدیلی کہتے ہیں ۔اُن کا کہناہے بنگلہ دیش کا نوجوان دراصل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو گیا ہے اور تین سو سے زائد انسانی جانیں دے کر بھی ملک سے ظلم وناانصافی ختم نہیں کراسکا اور اقتدار کی تبدیلی یسی محدودکامیابی کے لیے اتنی خونریز ی کی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی اوریہ کہ بنگلہ دیش کی نئی کروٹ سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے بظاہرکرفیوکے باوجودجشن منانے کے لیے لوگ سڑکوں پر ہیں مگر جانی ومالی قربانیاں دینے کے بعدیہی جشن مناتے نوجوان جمہوریت کی بحالی کی تحریک کاآغازکرسکتے ہیں۔ وقتی طورپر 2008 سے مسلسل برسرِ اقتدار 77سالہ حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اب وہ کبھی دوبارہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گی ۔ایسی اطلاعات کی اُن کے صاحبزادے صجیب واجد نے بھی تصدیق کردی ہے ،جس سے یہ تو طے ہو گیا ہے کہ حسینہ کی سیاست کاخاتمہ ہونے کے ساتھ عوامی لیگ بھی ایک طویل عرصے کے لیے اقتدار سے باہر جبکہ بی این پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اقتدارمیں آنے کا امکان بڑھ گیاہے۔ نیز جماعت ِ اسلامی پر لگائی گئی پابندی کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔
حسینہ واجد خوش قسمت ہیں کہ بدترین حالات کے باجود محفوظ ہیں۔ اگست 1975میں جب اُن کے والد شیخ مجیب کوایک فوجی بغاوت کے دوران بیوی ، بچوں اور بہو سمیت قتل کردیا گیا تو جو دوصاحبزادیا ں بیرونِ ملک ہونے کی بناپر قتل ہونے سے بچ گئیں اُن میں سے ایک حسینہ واجد تھیں ۔اب بھی جب مظاہرین وزیرِ اعظم ہائوس پر قبضے کے قریب تھے تو وہ بڑے آرام سے فوجی ہیلی کاپٹر پرسوارہو کر ملک سے نکل گئیں۔ ممکن ہے ملک سے نکلنے سے قبل انھیں آخری تقریر نہ ہونے کا قلق ہو مگر اپنے ہی ملک کے لوگوں کو دہشت گرد کہنے اور تین سو سے زائد افراد کو گولیوں سے مروا کراپنی جان بچالینا اُن کی شاطرانہ جبلت کی عکاس ہے۔ وگرنہ ملک کے بانی کو تین برس بعد ہی قتل کرنے والوں کے لیے حسینہ واجد کی جان لیناکو ئی مشکل نہ تھا۔ ممکن ہے نرمی کی ایک وجہ یہ ہو کہ اٹھاون سالہ آرمی چیف وقار الزمان کوایک ماہ قبل 23جون کو وہی اِس عہدے پر لیکر آئیں تھیں جودیگر عہدوں کے ساتھ حسینہ واجد کی براہ راست ماتحتی میں بھی کام کرچکے ہیں۔ اسی بناپر اقتدار سے الگ ہونے کے لیے 45منٹ کا وقت دینے اور پھرملک سے محفوظ انخلا کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر پیش کرنے کو آرمی چیف وقار الزمان کی نوازش کہہ سکتے ہیں ۔
اپنے والد کی طرح حسینہ واجد بھی ایک سفاک آمر تھیں۔ مظاہرے شروع ہونے پرمظاہرین کو رضاکاریعنی البدرکے کارکن کہنااُن کی فاش غلطی تھی۔ یہ فوج کو استعمال کرنے اور بے رحمی سے کچلنے کا حربہ تھا۔ یادرہے کہ البدرکو بنگلہ دیش میںپاکستان کا حامی کہا جاتا ہے اور عوامی لیگ انھیں غدار اور پاکستان کا ایجنٹ کہتی ہے مگر حکومت سے عوام کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں مظاہرین نے رضاکار ہونے کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ ملک کے طول وعرض میں ایک ہی نعرہ سب کی زبان پر تھا کہ ،توئی کے ،آمی کے؟۔رجاکاررجاکار(توکون میں کون ؟رضا کار رضاکار)شیخ حسینہ سے لوگوں کی نفرت میں سے مرجانے کے باجود باپ کو اب بھی حصہ ملا ہے۔ شیخ مجیب کے نہ صرف ملک میں لگے بڑے بڑے مجسموں کی توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ مزید تذلیل کرتے ہوئے چہرے پر کالک ملنے کے ساتھ منہ میں غلاظت بھی ٹھونسی گئی جو نفرت کی انتہا ہے۔ دراصل 1971کے واقعات کو جواز بناکر حکومت نے 2022سے لیکر 2024میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو پھانسیاں دیں جن جرائم اور درندگی کا ارکاب مکتی باہنی نے کیا تھا، انھیں البدراور الشمس کے کھاتے میں شمارکیا گیا۔55برس بعد بھی پاکستان کی محبت سے سرشارعمررسیدہ لوگوں نے بخوشی پھانسیاں قبول کر لیں۔ شیخ حسینہ نے ملک کوجمہوری ،لبرل اور فلاحی بنانے کے بجائے ایک مقتل گاہ بنا دیا تھا اور دوسری جماعتوں کو انتخابات میں شریک نہیں ہونے دیتی تھیں ۔ایسے حربے نفرت میں اضافے کا موجب بنے۔ اب میر جعفر کے دیس میں شیخ مجیب کا خاندان بھی غدار قرار پا چکا ہے اور غدارباپ کی حکمران بیٹی ملک سے بھاگ کر اگرتلہ پہنچ چکی ہے جو اگرتلہ سازش کیس کی تصدیق ہے۔ میر جعفر کی طرح شیخ مجیب خاندان بھی بنگلہ دیش کی نئی کروٹ میں غدار ثابت ہو گیا ہے۔ اب تو کوئی پاکستان پر الزام بھی نہیں لگا سکتا۔ ویسے بھی شیخ مجیب کو مغربی پاکستان نے نہیں مارابلکہ قید سے رہا کیا اور بنگلہ دیش پہنچایا لیکن بنگلہ دیش کے فوجیوں نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب شیخ حسینہ کو ملک سے نکالنے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ۔البتہ بھارت نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اقتدار سے الگ نہ ہوں مگر فوج قیادت کے تعاون سے اقتدار سے باہر ہوئیں اور ملک بدربھی۔
جب بندہ انصاف نہیں کرتا اور ظلم و ناانصافی کا پرچم تھام لیتا ہے تو قدرت کا قانون حرکت میں آتا ہے شیخ مجیب کے معتمد شیخ غلام مصطفی نے ایک بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کوزبردستی اٹھا یا جس پر فوجی دستوں نے مغوی خواتین کی بازیابی کے لیے ملک بھر میں سختی سے تلاش شروع کردی تو شیخ مجیب نے انڈرورلڈ مافیا کے سربراہ شیخ مصطفی سے فوجیوں کی اپنے گھر میں صلح کرادی۔ اِس واقعہ کاعجیب پہلویہ کہ اغواکار کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہوئی البتہ کئی فوجی افسران کوعہدوں سے برطرف کردیا گیا۔اسی رجمنٹ کے اہلکار شیخ مجیب کے قتل میں پیش پیش رہے۔ کچھ ایسا ہی ایک اور بھی دردناک واقعہ ہے جس کاتذکرہ بنگلہ دیش میں روا رکھے ظلم وسفاکیت کی تصویر کشی کے لیے بہتر ہوگا۔ عوامی لیگ کی ایک مقامی تنظیم کے صدرمزمل حسین نے بارات میں سے دُلہا اور دلہن کی کار کوروکااور دولہاکو تو وہیں قتل کردیا لیکن دلہن کی دوروزتک آبروریزی کرنے کے بعد مارکر لاش پھینک دی۔ اِس ظلم کی پاداش میں جب فوج نے مزمل حسین کو گرفتار کیاتو شیخ مجیب نے انصاف کرنے کے بجائے فوج کو حکم دیا کہ مزمل حسین کو فی الفوررہا کریں۔ شنید ہے کہ میجر فاروق نے ا یسے ہی واقعات کے ردِ عمل میں شیخ مجیب کے قاتلوں کا ساتھ دیا۔آج کل وہی غنڈہ مزمل حسین نہ صرف وفاقی وزیر ہے بلکہ عدالتی معامالات کی نگرانی بھی اسی کے ذمہ ہے۔ البدرکے نام پر گرفتاریوں اور پھانسیوں جیسے معاملات وہی دیکھتاہے جہاں ایسا ظلم و نا انصافی ہو وہاں سکون نہیں ہو سکتا ۔جب مکتی باہنی کے دہشت گردغنڈوں اور قاتلوںکے لیے کوٹہ مختص ہوگاتوبرآمدات بیالیس ارب ڈالر سے زائد ہو نے کے باجود عوامی بے چینی کم نہیں ہو سکتی۔
بنگلہ دیش کی نئی کروٹ سے خطے میں موجود بھارت کے خلاف لہر کو تقویت ملی ہے جس کا آغاز مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک جو چاروں طرف سے سمندرمیں گھرا ہواہے سے ہوا۔ دوسراشکارسری لنکا بنا۔اب یہ لہر بنگلہ دیش تک جا پہنچی ہے۔ بھارت جوبرما سے لیکر افغانستان تک کو اپنا حصہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے کونئی صورتحال نے انتہائی کمزور پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ دراصل جارحانہ طرزِ عمل کی وجہ سے تمام ہمسائے اُسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔مالدیپ کے دفاع کی ذمہ داری چین نے لے رکھی ہے لیکن سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بھارت اُس کی حفاظت کی ذمہ داری خودلیناچاہتا ہے مگر موجودہ صدر معیزو جنھوں نے بھارتی فوج کو نکالنے کے وعدے پرصدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی وہ ایسا کسی صورت نہیں چاہتے۔ وعدے کے مطابق انھوں نے صدر بنتے ہی بھارتی فوج کو ملک سے نکال باہرکیاہے کئی طرح کے جتن کے باوجود بھارت کو آج تک سری لنکا میں فوجی ٹھکانہ نہیں مل سکا۔ نیپال میں بھارت اور اُس کی فوج کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ خطے میں صرف بھوٹان ایسا ملک ہے جہاں بھارتی فوج ہے لیکن وہاں کے لوگ بھی حفاظت کے نام پر سکم پر قبضہ کرنے کی وجہ سے بھارت کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش جسے آزاد ملک بنانے میں بھارت کا مرکزی کردار ہے جس نے مکتی باہنی جیسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستانی فوج کی پہلے وردیاں پہنا کر قتل و غارت کرانے کے بعد تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کی جھوٹی کہانیاں پھیلائیں اور پھر عوامی لیگ کی درخواست پر اندراگاندھی نے مدد کے لیے فوج بھیج دی، وہاں بھارتی کردار کم ہونے کا قوی امکان ہو گیا ہے۔ حسینہ واجد کی بھارتی طرف داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس نے کمال نوازش کرتے ہوئے بھارت کو مشرقی ریاستوں تک آسان رسائی کے لیے اپنے ملک سے راہداری تک دے دی ۔اُن کااقتدار سے الگ ہونا بھارت کے لیے پریشان کُن ہو سکتا ہے لیکن معزول وزیرِ اعظم کو محفوظ راستہ دینا ثابت کرتا ہے کہ ملکی اِداروں میں ابھی اُن کے بہی خواہ موجود ہیں۔ اگرچہ فوجی قیادت کی طرف سے حسینہ حکومت کو چلتا کرنے میں نرمی کا تاثر ہے لیکن بھارت کے خلاف جتنی نفرت جنم لے چکی ہے اُسے کم کرنا اب فوجی قیادت کے بس کی بات بھی نہیں اور یہ اندازہ حقیقت پر مبنی لگتا ہے کہ شیخ حسینہ کے ساتھ بھارت کوبھی بنگلہ دیش کی نئی کروٹ سے دیس نکالا مل چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔