... loading ...
جاوید محمود
فلسطینیوں کی 1948ء سے لے کر اب تک جب بھی اسرائیل سے جنگ ہوئی تو انہوں نے عربوں سے زیادہ پاکستان سے حمایت کی توقع لگائی ہے۔ آج کل غزہ کی جو گمبھیر صورتحال ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے مغربی اخبارات میں یہ سرخیاں لگ رہی ہیں کہ کیا پاکستان واقعی فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ فلسطینیوں کی جان بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یہ واقعہ تقریبا 50برس قبل اپریل 1974کو پیش آیا تھا جب پاکستانی فضائیہ کے پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ ستار علوی نے شامی فضائیہ کا مگ لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی لڑاکا طیارے کو مار گرایا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ اس لیے بھی تھا کہ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس ایک دوسرے ملک کی فضائیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف لڑے جسے پاکستان سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن پاکستانی پائلٹ شام پہنچے کیسے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں پانچ دہائیاںقبل جانا ہوگا۔
اکتوبر 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو نوجوان پائلٹ ستار علوی رسال پور میں ٹریننگ کورس کا حصہ تھے۔ تربیت حاصل کرنے والے پائلٹس شام کے وقت عرب اسرائیل جنگ کے موضوع پر اکثر بات چیت کرتے تھے، جب ایک دن یہ سوال اٹھا کہ وہ خود کیا کر سکتے ہیں، ستار علوی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں نے کہا کہ ہم فائٹر پائلٹ ہیں، ہم رضاکارانہ طور پر جانے کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ کیا تم واقعی جا کر لڑو گے ،میں نے کہا ہاں۔ میرے روم میٹ نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔ابھی اٹھو سر تار عربی کے مطابق آدھی رات کا وقت تھا جب ہم اکیڈمی کے کمانڈنٹ کے گھر جا پہنچے وہ باہر نکلے تو ان کو ہم نے ساری بات بتائی اور انہوں نے پوچھا کہ کیا بار سے آرہے ہو۔ ہم نے کہا نہیں تو انہوں نے کہا کہ صبح آفس میں ملو۔ اگلے دن کمانڈنٹ کے دفتر میں رضاکارانہ طور پر شام جانے والے پاکستانی پائلٹ سے ایک بار پھر سوال ہوا کہ کیا وہ اپنی پیشکش میں سنجیدہ ہیں۔ ستار علوی بتاتے ہیں کہ ہم نے کہا بالکل۔ انہوں نے ہمیں 10 منٹ انتظار کرنے کو کہا اور پھر کہا کہ پشاور پہنچو۔ وہاں سے طیارہ تم لوگوں کو لے جائے گا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ فضائیہ کے ایئر چیف نے بھٹو صاحب سے بات کی جنہوں نے شام کے صدرحافظ الاسد سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہامی بھر لی۔ ستار علوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ایک شلوار قمیض اور فلائٹ گیئر لیا اور پشاور پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ 14 اور لوگ بھی رضاکارانہ طور پر جانے والوں میں شامل ہیں۔ ہمیں چیف کے فوکر جہاز میں بٹھا دیا گیا ۔تھوڑی دیر بعد چیف بھی آگئے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ اس دوران ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ پاکستانی پائلٹس کو ایک کاغذ دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس پر دستخط کر دیں۔ ستار علوی کے مطابق اس خط میں لکھا تھا کہ ہم بیرون پاکستان چھٹی پر جا رہے ہیں اور اگر اس دوران کوئی انہونی بات ہوئی تو حکومت پاکستان یا پاکستانی فضائیہ ہمارا ذمہ نہیں لے گی۔ یعنی اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو حکومت اور فضائیہ ہمیں پہچاننے سے انکار کر دیتی کہ ہم اس بندے کو نہیں جانتے ۔پاکستانی پائلٹس کو پہلے کراچی اور پھر ایک سی ون 30جہاز پر بغداد لے جایا گیا۔ بغداد سے ستار علوی اور دیگر پائلٹ پہلے اردن اور پھر بذریعہ سڑک گاڑیوں میں دمشق پہنچے۔ پاکستان پائلٹس کی مجموعی تعداد 16تھی جن میں سے آٹھ کو مصر روانہ کیا گیا جبکہ آٹھ کو شام میں رہنے کے لیے ہدایت دی گئی۔ ستار علوی شام میں رہ جانے والے 8پائلٹس میں شامل تھے ۔ستار علوی اور دیگر پائلٹس کو بعد میں دمشق سے 30منٹ دور دمیر ایر بیس پر لے جایا گیا جہاں ان کو 67اے یونٹ کا نام دیا گیا ۔پاکستانی پائلٹس کے لیے ایک مسئلہ زبان کا تھا ۔ستار علوی بتاتے ہیں کہ شامی ایئر فورس کے روسی ساختہ 21جہازوں میں روسی زبان درج تھی جبکہ ریڈار اور اے ٹی سی عربی میں بات کرتے تھے ہم نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ جو ضروری باتیں جہاز اڑانے کے لیے ہمیں درکار تھی وہ ہم نے لکھ لی اور ان کو ایک کاغذ پر اپنے فلائنگ سوٹ میں رکھ لیا جو ہم نے ہر وقت پہنا ہوتا تھا ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کے لیے درکار عربی زبان ہمیں ایک ہفتے میں یاد ہو گئی۔ پاکستانی پائلٹس کی شامی یونٹ کو ایئر ڈیفنس یعنی دفاع کا کردارسونپا گیا جس کے تحت اگر کوئی بھی اسرائیلی جہاز شام کی فضائی حدود میں داخل ہو تو اسے روکنے کی ذمہ داری پاکستانی پائلٹس کی ہوتی۔ اس دوران مصر نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کرنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ شام اور اسرائیل کے درمیان گولان کی پہاڑیوں پر جنگ کی صورتحال برقرار رہی۔ ستار علوی کے مطابق ہم روز صبح سحری سے پہلے تیار ہوتے اور فضائی اڈے پہنچ کر انتظار کرتے۔ یہ روٹین سات ماہ تک جاری رہی۔ اس دوران پاکستانی پائلٹس کو کئی بار فضا میں بھیجا گیا اور کئی بار ان کا اسرائیلی جہازوں سے آمنا سامنا تو ہوا لیکن مقابلہ نہیں ہوا ۔ستار علوی کے مطابق پاکستانی پائلٹس نے سوچ رکھا تھا کہ چاہے ہم کسی اسرائیلی طیارے کو گرائیں یا نہ گرائیں ۔کسی پاکستانی پائلٹ کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں نہیں گرنا چاہیے ۔ہماری فضائی حکمت عملی اسی نظریے کے تحت بنی ۔
26اپریل 1974 بھی کسی عام دن کی طرح ہی شروع ہوا۔ لیکن دوپہر کو ساڑھے تین بجے کے قریب پاکستانی پائلٹس کو معمول کا ایک دفاعی مشن سونپا گیا ۔ستار علوی کے مطابق جب ہم مشن مکمل کرنے کے بعد بیس کی جانب واپس لوٹ رہے تھے تو اچانک ریڈار نے اسرائیلی طیاروں کی موجودگی کے بارے میں مطلع کیا ۔اس وقت ستار علوی سمیت پاکستانی پائلٹس کے جہاز میں زیادہ ایندھن استعمال ہو چکا تھا جبکہ اچانک ہی ریڈار جام ہونے سے ان کے درمیان رابطے بھی منقطع ہو گئے۔ آٹھ پاکستانی پائلٹس شہباز ایک فارمیشن میں اڑ رہے تھے جس میں ستار علوی سب سے آخر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق رابطہ منقطع ہونے سے قبل فارمیشن کمانڈر کی جانب سے سب کو اس سمت میں مڑنے کی ہدایت کر دی گئی تھی جس طرف سے اسرائیلی طیاروں کی آمد کی اطلاع تھی۔ یہ لبنان کی فضا تھی جہاں اسی دوران ستار علوی کو زمین کی طرف ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آئی ۔ان کے مطابق یہ ایک اسرائیلی معراج جنگی جہاز تھا ۔ستار علوی نے اسی لمحے میں اپنی فارمیشن سے الگ ہوتے ہوئے اپنا رخ اس جہاز کی طرف موڑ لیا۔ ان کے مطابق اس دوران وہ جہاز میرے قریب سے گزر چکا تھا لیکن میری نظر اس کے پیچھے ایک دوسرے معراج لڑاکا جہاز پر پڑی جیسے ہی یہ دوسرا طیارہ میرے پاس سے گزرا تو میں نے اس کی جانب دوبارہ مڑنے کے لیے ایک ایسی فضائی ٹیکنیک کا استعمال کیا جس میں جہاز کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ مخالف جہاز نے بھی اسی تیکنیک کا استعمال شروع کر دیا تھا جسے ہم سیزرز یعنی قینچی کی طرح جہازاڑانا کہتے ہیں یعنی دونوں جہاز آگے پیچھے ہیں اور دائیں بائیں مڑتے ہیں تاکہ مخالف کے عقب میں پہنچ کر اسے نشانہ بنا سکیں۔ ستار علوی کے مطابق اسی دوران انہوں نے زیرو اسپیڈ پر اپنا جہاز ہوا میں ایک لمحے کو روکا تو اسرائیلی معراج ان کے آگے آگیا ۔ان کے مطابق وہ جہاز اتنا قریب تھا کہ اگر میں فورا فائر کرتا تو اس کا ملبہ میرے جہاز پر گرتا مجھے محفوظ فاصلہ اختیار کرنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑا لیکن وقت کم تھا کیونکہ ایک اور اسرائیلی لڑاکا طیارہ اب ستار علوی کا رخ کر رہا تھا جبکہ ستار علوی کے جہاز کا ایندھن بھی ختم ہونے کے قریب تھا اور ان کو جلد ہی فیصلہ کرنا تھا ستار علوی کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارہ کے پائلٹ کیپٹن لڈز نے اپنی کمزور پوزیشن دیکھتے ہوئے نیچے کی جانب فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اس کوشش نے ستارعلوی کو وہ محفوظ فاصلہ فراہم کر دیا جو ان کو فائر کرنے کے لیے درکار تھا ۔یوم کپور عرب ممالک کا وہ حملہ جس نے ناقابل تسخیر اسرائیل کی سا لمیت کو خطرے میں ڈالا۔ ستار علوی نے جہاز کا روسی ساختہ میزائل فائر کرنے کے لیے چنا اور بٹن دبا کر فائر کر دیا لیکن میزائل نہیں چلا وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم کا وقت تھا جس میں ستار علوی کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں نہ جانے کتنے خیال آئے کہ شاید میزائل پھنس گیا ہے یا کچھ اور ہو گیا ہے۔ حقیقت میں میزائل بٹن دبانے کے بعد ایک سیکنڈ کے وقفے کے بعد ہی فائر ہوتا ہے۔ ستار علوی کے لیے وہ ایک سیکنڈ ان کی زندگی کا طویل ترین لمحہ تھا ۔دو تین سیکنڈ اور لگے ہوں گے جب میزائل اسرائیلی معراج کو لگا اور میں نے اسے پھٹتے ہوئے دیکھا ۔یہ پوری جھڑپ تقریبا 30سیکنڈ میں ختم ہو چکی تھی جس کے بعد ستار علوی نے جہاز کو زمین کی جانب لے جا کر سپر سونک ا سپیڈ پر زمین سے صرف 50فٹ کے بلندی پر اپنے شامی فضائی اڈے کا رخ کیا۔ اس دوران جیمنگ ختم ہونے پر ستار علوی نے فارمیشن کمانڈر کو اسرائیلی جہازوں سے ہونے والی جھڑپ کے بارے میں آگاہ کیا اور رنوے کا رخ کیا ۔فیول گیج زیرو سے بین نیچے جا چکی تھی جب ستار علوی کے جہاز نے رن وے پر لینڈ کیا۔ ستار علوی کہتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے جہاز روک کر سوئچ آف کیا تو مجھے لگا کہ میری ٹانگوں میں سے جان نکل چکی ہے۔ زمین پر موجود عمل دیکھ چکا تھا کہ جہاز کا ایک میزائل غائب ہے لیکن ستار علوی نے کاک پٹ سے نکلتے ہی ایک کپ چائے کا مطالبہ کیا۔ ستار علوی نے شامی فوج کو اس مقام کے بارے میں بتایا جہاں ممکنہ طور پر جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد ایک ہیلی کاپٹرپر شامی فوجی اس مقام پر گئے جہاں ان کو زخمی اسرائیلی پائلٹ کیپٹن لٹس ملے جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ستار علوی اسرائیلی پائلٹ سے ملاقات کے خواہش مند تھے لیکن اس سے قبل ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیپٹن لٹس کی موت واقع ہو گئی۔ شامی حکومت نے ستار علوی کو ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا جبکہ اسرائیلی پائلٹ کیپٹن لٹس کا فلائنگ اوور ال بھی ان کو بطور ٹرافی دیا گیا۔ ستار علوی کے مطابق حکومت پاکستان نے کئی سال اس واقعے کا اعتراف نہیں کیا۔ میں بھی چپ رہا اگر کوئی مجھ سے پوچھتا تھا تو میں کہتا تھا کہ میں تو کبھی شام گیا ہی نہیں۔ تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے بھی ستارۂ جرات دیا گیا ۔
آج کل اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس پر پاکستان کی خاموشی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
(نوٹ: یہ تحریر ستار علوی کی جانب سے ماضی میں دیے جانے والے مختلف انٹرویوز پر مبنی ہے)۔