وجود

... loading ...

وجود

بنگلہ جماعت اسلامی کے طلباء ونگ پر پابندی عائد

پیر 05 اگست 2024 بنگلہ جماعت اسلامی کے طلباء ونگ پر پابندی عائد

ریاض احمدچودھری

بنگلہ دیش کی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت خصوصی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی جس کا اطلاق اُس کے ا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی چھاترو شنگھو اور دوسرے ایسوسی ایٹ اداروں پر بھی ہو گا۔حکومت نے جماعت اسلامی کو ایک ”عسکریت پسند اور دہشت گرد” تنظیم سے تعبیر کیا ہے،یہ فیصلہ14 رکنی حکومتی اتحاد کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
بنگلہ حکومت کے اِس اقدام کا مقصد ملک میں طلبہ تحریک کے نام پر حالات خراب کرنے کی کوششوں کو روکنا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے سیاسی شراکت داروں نے جماعت اسلامی، اس کے اسٹوڈنٹ ونگ اور ساتھی تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طالب علموں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی تھی۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ شفیق الرحمن نے کہا کہ وہ اِس پابندی کے غیر قانونی، غیر مجاز اور غیر آئینی فیصلے کی سختی سے مذمت اور مخالفت کرتے ہیں، کوئی سیاسی پارٹی یا اتحاد دوسری سیاسی پارٹی کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش کے قوانین اور آئین اس طرح کے اختیار کی اجازت نہیں دیتے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے دن اور رات کے مختلف اوقات میں کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اگر کسی ایک پارٹی پر کسی دوسری پارٹی یا اتحاد کی طرف سے پابندی لگانے کا رجحان شروع ہوتا ہے، تو یہ افراتفری اور ریاستی نظام کے خاتمے کا باعث بنے گا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کی کارروائیوں کو دہشت گردانہ قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، دسمبر 1971ء میں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد، شیخ مجیب الرحمان کے عہد میں اس پر پابندی لگی جو کہ 1976ء تک برقرار رہی،اس کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور کئی لوگوں کو پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں سزائے موت بھی سنائی گئی۔ 2013ء میں ہائی کورٹ نے پارٹی کو یہ کہتے ہوئے انتخابات میں شرکت کے لیے نااہل قرار دے دیا کہ اس کے آئین نے سیکولرازم کی مخالفت کرکے قومی آئین کی خلاف ورزی کی ہے تاہم اسے سیاسی سرگرمیوں مثلاً جلسوں، ریلیز اور بیانات سے نہیں روکا گیا۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی پرالیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی رجسٹریشن کی منسوخی کے بعد 2014ء سے تین قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 2023ء میں سپریم کورٹ نے طویل قانونی جنگ کو ختم کرتے ہوئے،پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے یا پارٹی کے علامتی نشانات کے استعمال سے روکتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا لیکن مکمل پابندی نہیں لگائی تھی۔اب گزشتہ دو ماہ سے بنگلہ دیش میں ہنگامے جاری ہیں جس کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ٹھہراتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی گئی ہے حالانکہ طلبہ قائدین کا کہنا تھا کہ صورتحال وزیراعظم کی سیاسی جماعت عوامی لیگ پارٹی کے طلباء ونگ (بنگلہ دیش چھاترو لیگ) کے کارکنوں کے حملے کی وجہ سے خراب ہوئی۔
بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم رائج تھا جس کے تحت 56 فیصد اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر کوٹے کے تحت بھرتی کی جاتی تھی، اس میں سے 30 فیصد ”ویٹیرنز کوٹہ” ایسے افراد کے لیے مختص تھا، جن کے والد یا دادا نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ 2018ء میں ہونے والے احتجاج کی وجہ سے حکومت نے پہلے اور دوسرے درجے کی سرکاری ملازمت کی بھرتی کے عمل میں کوٹہ نظام ختم کر دیا تھا۔اِس سے قبل 1997ء میں طلباء نے پہلی بار کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز بلند کی تھی،اس کے بعد 2007ء اور 2013ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج ہوا لیکن حکومت نے اس پر کان نہیں دھرے تھے۔ رواں سال پانچ جون کو ہائیکورٹ نے حکومت کی طرف سے 2018ء میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کوٹہ بحال کر دیا تھا جس پر طلباء نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج شروع کر دیا جو کہ کشیدگی میں بدل گیا۔وہاں کی حکومت نے انہیں ”رضا کار” کے نام سے پکارا،یہ اصطلاح وہاں 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اِسے اچھا نہیں سمجھا جاتا، اس پر مظاہرین کے جذبات مجروح ہوئے اور وہ مزید بپھر گئے۔
اب حکومت نے ان سارے ہنگاموں کے لئے جماعت اسلامی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے جو کہ کسی طور مناسب نہیں ہے،اس رویے کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا بلکہ اِس سے تو آمریت کی بْو آ رہی ہے۔بنگلہ دیش کے اپنے حالیہ انتخابات بھی متنازعہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوے کرنا آسان ہے لیکن اس کے اصولوں کا پاس رکھنا مشکل ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بنگلہ دیشی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لینی چاہئے، اس کے بجائے وہ اپنے عوام کے دْکھوں کا مداوا کرے اور ان کی داد رسائی کرے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مذاکرات اور بات چیت کے علاوہ اختیار کیا گیا کوئی بھی راستہ امن و سلامتی کی طرف نہیں جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر