... loading ...
ریاض احمدچودھری
بنگلہ دیش کی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت خصوصی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی جس کا اطلاق اُس کے ا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی چھاترو شنگھو اور دوسرے ایسوسی ایٹ اداروں پر بھی ہو گا۔حکومت نے جماعت اسلامی کو ایک ”عسکریت پسند اور دہشت گرد” تنظیم سے تعبیر کیا ہے،یہ فیصلہ14 رکنی حکومتی اتحاد کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
بنگلہ حکومت کے اِس اقدام کا مقصد ملک میں طلبہ تحریک کے نام پر حالات خراب کرنے کی کوششوں کو روکنا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے سیاسی شراکت داروں نے جماعت اسلامی، اس کے اسٹوڈنٹ ونگ اور ساتھی تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طالب علموں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی تھی۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ شفیق الرحمن نے کہا کہ وہ اِس پابندی کے غیر قانونی، غیر مجاز اور غیر آئینی فیصلے کی سختی سے مذمت اور مخالفت کرتے ہیں، کوئی سیاسی پارٹی یا اتحاد دوسری سیاسی پارٹی کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش کے قوانین اور آئین اس طرح کے اختیار کی اجازت نہیں دیتے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے دن اور رات کے مختلف اوقات میں کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اگر کسی ایک پارٹی پر کسی دوسری پارٹی یا اتحاد کی طرف سے پابندی لگانے کا رجحان شروع ہوتا ہے، تو یہ افراتفری اور ریاستی نظام کے خاتمے کا باعث بنے گا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کی کارروائیوں کو دہشت گردانہ قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، دسمبر 1971ء میں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد، شیخ مجیب الرحمان کے عہد میں اس پر پابندی لگی جو کہ 1976ء تک برقرار رہی،اس کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور کئی لوگوں کو پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں سزائے موت بھی سنائی گئی۔ 2013ء میں ہائی کورٹ نے پارٹی کو یہ کہتے ہوئے انتخابات میں شرکت کے لیے نااہل قرار دے دیا کہ اس کے آئین نے سیکولرازم کی مخالفت کرکے قومی آئین کی خلاف ورزی کی ہے تاہم اسے سیاسی سرگرمیوں مثلاً جلسوں، ریلیز اور بیانات سے نہیں روکا گیا۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی پرالیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی رجسٹریشن کی منسوخی کے بعد 2014ء سے تین قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 2023ء میں سپریم کورٹ نے طویل قانونی جنگ کو ختم کرتے ہوئے،پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے یا پارٹی کے علامتی نشانات کے استعمال سے روکتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا لیکن مکمل پابندی نہیں لگائی تھی۔اب گزشتہ دو ماہ سے بنگلہ دیش میں ہنگامے جاری ہیں جس کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ٹھہراتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی گئی ہے حالانکہ طلبہ قائدین کا کہنا تھا کہ صورتحال وزیراعظم کی سیاسی جماعت عوامی لیگ پارٹی کے طلباء ونگ (بنگلہ دیش چھاترو لیگ) کے کارکنوں کے حملے کی وجہ سے خراب ہوئی۔
بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم رائج تھا جس کے تحت 56 فیصد اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر کوٹے کے تحت بھرتی کی جاتی تھی، اس میں سے 30 فیصد ”ویٹیرنز کوٹہ” ایسے افراد کے لیے مختص تھا، جن کے والد یا دادا نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ 2018ء میں ہونے والے احتجاج کی وجہ سے حکومت نے پہلے اور دوسرے درجے کی سرکاری ملازمت کی بھرتی کے عمل میں کوٹہ نظام ختم کر دیا تھا۔اِس سے قبل 1997ء میں طلباء نے پہلی بار کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز بلند کی تھی،اس کے بعد 2007ء اور 2013ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج ہوا لیکن حکومت نے اس پر کان نہیں دھرے تھے۔ رواں سال پانچ جون کو ہائیکورٹ نے حکومت کی طرف سے 2018ء میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کوٹہ بحال کر دیا تھا جس پر طلباء نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج شروع کر دیا جو کہ کشیدگی میں بدل گیا۔وہاں کی حکومت نے انہیں ”رضا کار” کے نام سے پکارا،یہ اصطلاح وہاں 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اِسے اچھا نہیں سمجھا جاتا، اس پر مظاہرین کے جذبات مجروح ہوئے اور وہ مزید بپھر گئے۔
اب حکومت نے ان سارے ہنگاموں کے لئے جماعت اسلامی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے جو کہ کسی طور مناسب نہیں ہے،اس رویے کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا بلکہ اِس سے تو آمریت کی بْو آ رہی ہے۔بنگلہ دیش کے اپنے حالیہ انتخابات بھی متنازعہ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوے کرنا آسان ہے لیکن اس کے اصولوں کا پاس رکھنا مشکل ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بنگلہ دیشی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لینی چاہئے، اس کے بجائے وہ اپنے عوام کے دْکھوں کا مداوا کرے اور ان کی داد رسائی کرے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مذاکرات اور بات چیت کے علاوہ اختیار کیا گیا کوئی بھی راستہ امن و سلامتی کی طرف نہیں جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔