... loading ...
جاوید محمود
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے ٹھیک ایک دن بعد اسرائیلی فوج نے انکشاف کیا ہے کہ حماس کی عسکری سرگرمیوں کے سربراہ محمد الضیف کی گزشتہ ماہ غزہ کی پٹی میں ایک فضائی حملے میں ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ محمدالضیف کو حماس کے حلقوں میں اسماعیل ہنیہ کا جانشین سمجھا جاتا تھا ۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد محمد الضیف کی شہادت کی خبر حماس کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ الاقسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ الضیف جنوبی اسرائیل میں سات اکتوبر کو ہونے والے ان حملوں کے منصوبہ ساز افراد میں سے ایک تھے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بگڑتی ہوئی صورتحال ان عرب حکومتوں کے لیے خاصی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے جو حال ہی میں اسرائیل سے اپنے تعلقات کو معمول پر لائی ہیں۔ ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ اسرائیل کے ساتھ کیے جانے والے وہ ابراہم اکارڈ یا ابراہیمی معاہدے جنہیں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے بڑے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ طے کیا تھا۔ انہیں ایک نہ ایک دن زمینی حالات و واقعات کا اسیر ہونا ہی تھا۔ اب جب کہ یہ زمینی صورتحال بگڑتے بگڑتے ایک مہلک لڑائی کی شکل اختیار کر چکی ہے ،عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی گرم جوشی کے کھلے عام اظہار کو بھی لگام ڈال دی گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے آخری مہینوں میں ابراہیمی معاہدوں کے نام کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جن منصوبوں کو بڑے طمطراق سے حتمی شکل دی گئی تھی ان کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ کئی عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل سے اپنے تعلقات کو باقاعدہ تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا بلکہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سمیت بہت سے دوسرے شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ باہمی تعاون کے ایسے منصوبوں کو عملی شکل دینا شروع کر دی تھی جن کی مثال ماضی میں نہیں دکھائی دیتی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ ہنگامی اجلاس محض نشستند گفتندو برخاستند ثابت ہوا اور ان کی او آئی سی سے وابستہ تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔ یہ مشترکہ اجلاس غزہ اسرائیل جنگ کے 35روز بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں ریاض میں منعقد ہوا جس میں پاکستان سمیت اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی لیکن تمام رہنما غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی معاشی و سیاسی کارروائی یا کوئی سخت فیصلہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کے درمیان تقسیم کا عنصر غالب رہا ۔بعد ازاں مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کیا گیا کہ وہ اپنے دفاع میں غزہ پر حملے کر رہا ہے جبکہ امریکہ یورپ سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کی جاریت روکنے کے لیے فیصلہ کن قرارداد منظور کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ او ائی سی کے بے نتیجہ اجلاس پر مایوسی کا اندازہ حماس کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد زہری کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ او ائی سی اورعرب لیگ کے ہنگامی اجلاسوں سے انہیں کوئی توقع نہیں تھی اور نہ ہی ہم ان اجلاسوں سے کوئی امید لگائے بیٹھے تھے کیونکہ ہم ایسے اجلاسوں کے نتائج کئی برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ اجلاس میں اسلامی ممالک کے رہنماؤں میں ترکی کے صدر طیب اردگان اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی تقریر کو مسلمانوں نے سراہا تھا۔ ترک صدر طیب اردگان نے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس ہماری ریڈ لائن ہے اسرائیلی فورسز نہتے فلسطینیوں اور معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہی ہیں مگر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے ۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جو مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب پہنچے تھے نے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں دنیا کی تاریخ کے بدترین جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ عالم اسلام کو مسئلے کے فوری حل کے لیے متحد ہونا چاہیے ۔اس موقع پر فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ میں جنگ بندی کی ناکامی کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا اور کہا کہ امریکی شہ پر اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام اور نسل کشی کر رہا ہے۔ ایسے میں جب عالم اسلام کے سربراہان او ائی سی اجلاس میں محض تقاریر کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اسی دوران لندن میں لاکھوں افراد فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اورغزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیلی بربریت فوری روکنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔ مظاہرے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں آرتھوڈکس یہودیوں نے بھی فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی اور فوری جنگ مندی کا مطالبہ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق مظاہرے میں لگ بھگ 10 لاکھ افراد نے شرکت کی جس میں برطانوی لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جریمی کوربن اور برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین بھی شریک تھے۔ برطانوی پولیس کے مطابق لندن میں ہونے والا یہ مظاہرہ تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ حالانکہ سابق برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے پوری کوشش کی کہ مظاہرے کی اجازت نہ دی جائے مگر لندن پولیس نے وزیراعظم کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔ غزہ پر او آئی سی کے بے نتیجہ اجلاس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے او ائی سی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے رد عمل میں برسلز میں تعینات پاکستان سمیت آو ائی سی سے تعلق رکھنے والے 20 سفیروں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یورپی یونین سمیت دنیا بھر سے مطالبہ کیا کہ لوگوں کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے کے لیے انہیں بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے اور اسرائیل کو جنگ مندی پر مجبور کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا جائے۔
زیادہ اچھا ہوتا کہ یہ مطالبہ او آئی سی سربراہی اجلاس کے پلیٹ فارم سے کیا جاتا اور وہ اسلامی اور عرب ممالک جنہوں نے حالیہ دنوں میں اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے امریکہ اور یورپ خود انسانی حقوق کا علمبردار کہلواتے ہیں مگر غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی پر امریکی اور یورپی ممالک کی خاموشی نے ان کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم اور تیل کی سپلائی فوری طور پر بند کریں تاکہ خلیجی ممالک کے تیل پر چلنے والے اسرائیلی ٹینک بکتربند گاڑیاں اور طیارے جو نہتے فلسطینیوں پر بمباری کر کے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں، ایندھن کی عدم فراہمی پر قابل استعمال نہ رہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ خلیجی ممالک کو اسرائیل سے تجارت اور پیٹرول ڈالر فلسطینی مسلمانوں کے خون سے زیادہ عزیز ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ او آئی سی کی ناک کے نیچے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اور غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔