... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست اتر پردیش ، مدھیہ پردیش اورآسام کی حکومتوں نے اسلامی مدارس کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا ہے۔ اتر پردیش حکومت نے دار العلوم دیوبند سمیت 8000 اسلامی مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان مدارس کو حکم دیا گیاہے کہ وہ اپنے طلبہ کو دوسرے ریگولر اسکولوں میں داخل کرائیں جس پر مدارس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔جن مدارس کو حکم نامہ جاری کیا گیا ہے ان میں عالمی شہرت یافتہ ادارے دار العلوم دیوبند، ندو العلما لکھن، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامع الفلاح بلریا گنج اور مدرس الاصلاح سرائے میر بھی شامل ہیں۔
مدھیہ پردیش کی حکومت نے شیو پور ضلع کے 56 مدارس کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مذکورہ ضلع میں 80 مدارس ہیں جن میں سے 56 بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے پہلے ان مدارس کو دی جانے والی امداد بند کی اور اب ان کو باضابطہ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔آسام حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں ریاست کے 1281 مدارس کو مڈل انگلش اسکول میں تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت نے تمام سرکاری اور حکومت کی امداد یافتہ مدارس کو جنرل اسکول میں بدل دیا ہے۔ مدارس کے خلاف کارروائی کے فیصلے پر مسلم تنظیموں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے چیف سیکریٹری درگا شنکر مشرا نے غیر تسلیم شدہ آٹھ ہزار سے زائد مدارس کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو ریگولر اسکولوں میں داخل کرائیں جس پر مدارس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔حکومت کا موقف ہے کہ چوں کہ مدارس میں جدید تعلیم نہیں دی جاتی اس لیے وہاں زیرِ تعلیم طلبہ کا مستقبل تاریک ہے۔ وہ طلبہ کو اسکولوں میں داخل کر کے ان کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتی ہے۔
مدارس کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے اداروں میں جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور وہاں کے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیز میں اعلی کورسز میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ متعدد طلبہ آج حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ضلع سدھارتھ نگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) راجہ گن پتی آر نے بھی مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگ کر کے چیف سیکریٹری کے حکم پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ اس حکم کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔ اس سے قبل حکومت نے بھارت نیپال سرحد سے متصل اضلاع کے مدارس پر الزام لگایا تھا کہ ان کو ملنے والا فنڈ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس نے ان مدارس کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔مدارس کے ذمے داروں کے مطابق ایس آئی ٹی کو اپنی تحقیقات میں فنڈ کے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے چیف سیکریٹری کے حکم نامے پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘حکم نامہ واپس نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کریں گے’بورڈ کے ایک وفد نے منگل کو لکھن میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی اور چیف سیکریٹری کے حکم نامے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر حکم نامہ واپس نہیں ہوا تو وہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا۔بورڈ کے وفد نے وزیر اعلی کو بتایا کہ یہ حکم نامہ آئین کی دفعات 14، 21، 26، 28، 29 اور 30 کی حلاف ورزی ہے۔ آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان کا انتظام و انصرام کر سکتے ہیں۔بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ انتظامیہ نے اتر پردیش اور نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع سدھارتھ نگر، سنت کبیر نگر، بستی اور کشی نگر وغیرہ میں مدارس کے خلاف کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔اس سلسلے میں مختلف اضلاع میں مدارس کے ذمے داروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں انتظامیہ اور مدارس کے ذمہ داروں کے درمیان تلخ کلامی تک کی نوبت آ رہی ہے۔
ملک کا دستور تمام اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہے لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ مدرسوں کو بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب وہ دستور کو نہیں مانتے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہندوتوا کی پالیسی کے تحت کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کو ماننے والے آئین و دستور میں یقین نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ بولنا، احتجاج کرنا اور لکھنا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق چھینا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے رواں سال مارچ میں اپنے ایک فیصلے میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو ریگولر تعلیمی اداروں میں داخل کرائے۔ریاست کے مدرسہ ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے سماعت کرتے ہوئے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سیکولرازم اور دستور کی دفعہ 14 میں دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا تھا۔ اس نے مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قرار دینے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ وہ جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے وہ ریگولیٹری ہے۔مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار والی ریاستوں میں مدارس کے خلاف کارروائی کا آغاز آسام میں ہوا اس کے بعد اترپردیش میں کارروائی شروع ہوئی اور اب یہ سلسلہ بی جے پی اقتدار والی ایک اور ریاست مدھیہ پردیش تک جا پہنچا ہے۔