وجود

... loading ...

وجود

دار العلوم دیوبند سمیت 8ہزار اسلامی مدارس بند

هفته 03 اگست 2024 دار العلوم دیوبند سمیت 8ہزار اسلامی مدارس بند

ریاض احمدچودھری

بھارتی ریاست اتر پردیش ، مدھیہ پردیش اورآسام کی حکومتوں نے اسلامی مدارس کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا ہے۔ اتر پردیش حکومت نے دار العلوم دیوبند سمیت 8000 اسلامی مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان مدارس کو حکم دیا گیاہے کہ وہ اپنے طلبہ کو دوسرے ریگولر اسکولوں میں داخل کرائیں جس پر مدارس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔جن مدارس کو حکم نامہ جاری کیا گیا ہے ان میں عالمی شہرت یافتہ ادارے دار العلوم دیوبند، ندو العلما لکھن، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامع الفلاح بلریا گنج اور مدرس الاصلاح سرائے میر بھی شامل ہیں۔
مدھیہ پردیش کی حکومت نے شیو پور ضلع کے 56 مدارس کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مذکورہ ضلع میں 80 مدارس ہیں جن میں سے 56 بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے پہلے ان مدارس کو دی جانے والی امداد بند کی اور اب ان کو باضابطہ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔آسام حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں ریاست کے 1281 مدارس کو مڈل انگلش اسکول میں تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت نے تمام سرکاری اور حکومت کی امداد یافتہ مدارس کو جنرل اسکول میں بدل دیا ہے۔ مدارس کے خلاف کارروائی کے فیصلے پر مسلم تنظیموں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے چیف سیکریٹری درگا شنکر مشرا نے غیر تسلیم شدہ آٹھ ہزار سے زائد مدارس کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو ریگولر اسکولوں میں داخل کرائیں جس پر مدارس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔حکومت کا موقف ہے کہ چوں کہ مدارس میں جدید تعلیم نہیں دی جاتی اس لیے وہاں زیرِ تعلیم طلبہ کا مستقبل تاریک ہے۔ وہ طلبہ کو اسکولوں میں داخل کر کے ان کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتی ہے۔
مدارس کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے اداروں میں جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور وہاں کے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیز میں اعلی کورسز میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ متعدد طلبہ آج حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ضلع سدھارتھ نگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) راجہ گن پتی آر نے بھی مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگ کر کے چیف سیکریٹری کے حکم پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ اس حکم کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔ اس سے قبل حکومت نے بھارت نیپال سرحد سے متصل اضلاع کے مدارس پر الزام لگایا تھا کہ ان کو ملنے والا فنڈ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس نے ان مدارس کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔مدارس کے ذمے داروں کے مطابق ایس آئی ٹی کو اپنی تحقیقات میں فنڈ کے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے چیف سیکریٹری کے حکم نامے پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘حکم نامہ واپس نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کریں گے’بورڈ کے ایک وفد نے منگل کو لکھن میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی اور چیف سیکریٹری کے حکم نامے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر حکم نامہ واپس نہیں ہوا تو وہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا۔بورڈ کے وفد نے وزیر اعلی کو بتایا کہ یہ حکم نامہ آئین کی دفعات 14، 21، 26، 28، 29 اور 30 کی حلاف ورزی ہے۔ آئین نے اقلیتوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان کا انتظام و انصرام کر سکتے ہیں۔بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ انتظامیہ نے اتر پردیش اور نیپال کی سرحد سے متصل اضلاع سدھارتھ نگر، سنت کبیر نگر، بستی اور کشی نگر وغیرہ میں مدارس کے خلاف کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔اس سلسلے میں مختلف اضلاع میں مدارس کے ذمے داروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں انتظامیہ اور مدارس کے ذمہ داروں کے درمیان تلخ کلامی تک کی نوبت آ رہی ہے۔
ملک کا دستور تمام اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہے لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ مدرسوں کو بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب وہ دستور کو نہیں مانتے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہندوتوا کی پالیسی کے تحت کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کو ماننے والے آئین و دستور میں یقین نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ بولنا، احتجاج کرنا اور لکھنا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق چھینا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے رواں سال مارچ میں اپنے ایک فیصلے میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو ریگولر تعلیمی اداروں میں داخل کرائے۔ریاست کے مدرسہ ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے سماعت کرتے ہوئے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سیکولرازم اور دستور کی دفعہ 14 میں دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا تھا۔ اس نے مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قرار دینے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ وہ جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے وہ ریگولیٹری ہے۔مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار والی ریاستوں میں مدارس کے خلاف کارروائی کا آغاز آسام میں ہوا اس کے بعد اترپردیش میں کارروائی شروع ہوئی اور اب یہ سلسلہ بی جے پی اقتدار والی ایک اور ریاست مدھیہ پردیش تک جا پہنچا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر وجود پیر 23 ستمبر 2024
کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر

21ستمبر ، ایک نئے پاکستان کی تعمیر ،امید سحر کی بات سنو وجود پیر 23 ستمبر 2024
21ستمبر ، ایک نئے پاکستان کی تعمیر ،امید سحر کی بات سنو

مت سمجھو ہم نے بھلا دیا ! وجود پیر 23 ستمبر 2024
مت سمجھو ہم نے بھلا دیا !

ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی یاد میں وجود پیر 23 ستمبر 2024
ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی یاد میں

بلوچ سرداروں کی پشت پر وطن دشمن قوتیں وجود پیر 23 ستمبر 2024
بلوچ سرداروں کی پشت پر وطن دشمن قوتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر