... loading ...
عمران یات
علی عمران جونیئر
دوستو،ایک وقت تھا جب ملک میں مفادات اور نظریات کی سیاست ہوتی تھی، لیکن ہائی ٹیک دورہے، اب سیاست مفادات سے نکل کر ”مستورات” تک جاپہنچی ہے، چونکہ یہ کالم غیرسیاسی ہوتا ہے اس لئے سیاست کے نئے”یوٹرن” سے گریز کرتے ہوئے، ہم اپنی باتیں کرینگے،ہمارے ایک بینکار دوست کہتے ہیں کہ، خوبصورت عورتوں اور مقتدر مردوں کے تعلقات ”باہمی فائدے” پر مبنی ہوتے ہیں۔۔تربوز والا تربوز بیچتے ہوئے آواز لگا رہا تھا ”جیہڑا پنہو،لال اے، جیہڑا پنہو لال اے”۔۔ یعنی میرے جس تربوز کو بھی کاٹ کر دیکھ لو وہ اندر سے شرطیہ لال ہی نکلے گا۔یہی حال ملکِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی ہے۔ اس کے جس موضوع اور جس مسئلہ پر بھی بات کرواندر سے لال یعنی لہو لہان ہی نکلے گا۔۔
تاریخ سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا،یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ بننے میں وقت نہیں لگتا۔۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ دل چسپ انکشاف سامنے آتا ہے کہ جب سلطنتیں اور کلچر ارتقا کی منازل طے کرتے ہیں تو ان کے جلو میں خوبصورت عورتوں کا رول ضرور ہوتاہے۔۔ہمارے معاشرے کی معاشرت کچھ ایسی ہے کہ یہاں عورت کو” کھلنے” ہی نہیں دیا جاتا۔ یہاں لفظ ”کْھلنا”ہر اْس معنی میں استعمال کیا گیا ہے جوپڑھنے والے کے ذہن میں آسکتا ہے۔ ہمارے ہاںکے حضرات ،عورت کے کھلنے سے قبل لفظ ”عورت” کو ہی ایسا ”کْھول ” کے رکھ دیتے ہیں کہ تمام مائیں اپنے بیٹوں ، خاوندوں یا کسی دیگر مرد کی دخل اندازی کے بغیر ہی بچی کی ابتدائی تربیت میں ہزار ہا قدغنیں لگا دیتی ہیں۔۔۔ ”تم نے زیادہ کھلکھلا کر ہنسنا نہیں، اپنے ستواں بدن کو یوں چھپا کر رکھنا ہے ۔۔ زیادہ فری نہیں ہونا۔مردوں سے پرے رہنا ہے۔۔تمہیں اْٹھنا کیسے ہے اور بیٹھنا کیسے ہے۔۔تم نے مرد کی عزت کرنی ہے۔۔عورت کمزور ہوتی ہے۔۔۔ مرد عورت پر حکمرانی کیلئے ہوتا ہے۔۔وغیرہ،وغیرہ” ۔۔ہمارے معاشرے میں عورت یعنی ”مستور” جس کا صیغہ جمع ”مستورات” ہے ،اپنے تمام معنی اور مفہوم میں ”ڈھکی چھپی” چیز ہے اس لئے خبردار اس کو کْھولنے اورکْھلا چھوڑنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس دنیا میں عورت کے ”کھْلنے” ، ”کْھولنے ” یا ”کھیلنے” یا ”کْھلاچھوڑے جانے” سے انہیں شدید چِڑہے۔ نچلے طبقے کی اکثر عورتیں نہ صرف ”کھلی ” ہوتی ہیں بلکہ ”کھلی ڈھلی ” ہوتی ہیں۔ وہ واقعی مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری بھی کرتی ہیں اور اپنے عورت پن کو کیش بھی نہیں کراتیں۔۔متوسط طبقے کے ثقافت اور تہذیب کے ٹھیکیدار اور ملکیت کی نفسیات کے حامل لوگوں کے ہاں زن، زر اور زمین ہی زندگی کی تین بنیادی حقیقتیں ہیں۔ لہٰذا ان کے ہاں عورت ایک ”شئے ”ہوتی ہے اوراپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور، یہ طبقہ عورت کے ساتھ بطور انسان رویہ روا رکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔اشرافیہ طبقے کی خواتین کی تربیت بھی ”انسان ”کی طرح کم اور” شے” کی طرح زیادہ کی جاتی ہے۔ ہاں البتہ ان خواتین کو دوسری خواتین کا استحصال کرنے کے لئے آلہِ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔۔
ہمارا خیال ہے ”مستورات” پر کافی سنجیدہ رنجیدہ باتیں کرلیں۔۔ آپ کو مزہ نہیں آرہا ہوگا کہ کیسی ”پھیکی،پھیکی” باتیں ہورہی ہیں آج۔۔ وہ کہتے ہیں نہ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے،چلیں اب کچھ ”روایتی” باتوں پرآجاتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔زندگی میں دو چیزوں سے بچ کر رہنا۔۔ایک ٹی وی،دوسرا بی وی۔۔اگر ”وی ”کو مشترک سمجھ کر نکال دیا جائے تو باقی بچتا ہے ٹی بی۔۔وہ مزید کہتے ہیں کہ۔۔دولت مند شخص جھاڑو دینے والی،برتن مانجھنے والی،کپڑے دھونے والی،بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی اور گھر کی جھاڑ پونجھ کرنے والی الگ الگ ملازمائیں رکھتا ہے۔اور غریب آدمی صرف شادی پر اکتفا کر لیتا ہے۔ ۔ویسے یہ حقیقت بھی ہے اور اس سچائی سے آپ کو بھی کبھی نہ کبھی واسطہ ضرور پڑا ہوگا کہ بلاوجہ الجھنا،یاتو ہیڈفون کی تاروں کو آتا ہے یا صرف بیویوں کو۔۔اور بھی تلخ حقیقت ہے کہ باپردہ بیوی آج کے دور میں ایسی بیوی کو کہا جاتا ہے جو شوہر کا دیگر تمام ”مستورات” سے پردہ کرادے۔۔ہمارے ایک دوست سے اس کے ممکنہ سسر نے پوچھا، اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم میری بیٹی سے پیار کرتے ہو؟؟۔۔ ہمارے دوست نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا۔۔میں” لڈواسٹار” میں اس کی گوٹی نہیں مارتا۔۔ایک سچ یہ بھی سن لیں کہ گرل فرینڈ صرف دو صورتوں میں آپ کی جان چھوڑتی ہے ،ایک تو یہ کہ خالق حقیقی کے پاس چلی جائے یا پھر خاوند حقیقی کے پاس۔۔دنیا کی نظر میں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ،لیکن ہماری نظر میں عورت ہاتھ ہی کامیاب مرد پر رکھتی ہے۔۔بیویوں کو چاہیئے کہ وہ شوہر کو کتاب کی طرح پڑھا کرے، یہ ایک اچھی عادت ہے، لیکن پڑھتے ہوئے آواز اتنی بلند نہ کیا کرے کہ روز سارا محلہ سْن رہا ہو۔۔کچھ لڑکیاں تو اتنا میک اپ کرکے گھرسے نکلتی ہیں جیسے گھر والوں سے کہہ کر آئی ہوں کہ آج میں گھر اکیلی نہیں آوں گی آپکا داماد لے کرواپس لوٹوں گی۔۔۔کچھ لڑکیاں انباکس میں اتنے اسلامی طریقے سے بات کرتی ہیں کہ سپارہ پڑھانے والی “آپا جی” یاد آ جاتی ہیں۔۔پانچویں کلاس میں جو لڑکیاں پاگل سی لگتی تھیں وہ آج کل لڑکے پاگل کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔۔اور خبردار ہوجائیں اگر آپ کا بیٹا کال آنے پرہیلو ہیلو کرتا کمرے یا گھر سے باہر نکل جائے تو سمجھ جائیں اس کی کسی” سہیلی ”کا فون آیا ہے۔۔انسان کو اس وقت سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے،جب وہ گرل فرینڈ کیساتھ ہو اور اسے پڑوس کی وہ حسین لڑکی دیکھ لے جس پر وہ آجکل ٹرائی مار رہا ہو۔۔آپ کبھی سودا لینے بازار جائیں تو وہاں سبزی اور فروٹ بیچنے والے باآواز بلند آپ کا”حساب” یعنی ” میتھ” ٹھیک کراتے نظرآتے ہیں، چونسہ امب لے لیو پچاس روپیہ کلو،سوروپے دے دو کلو،ڈیڑھ سو دا تین کلو۔۔
لوڈشیڈنگ کے ستائے ہمارے ایک دوست نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتی تو کم سے کم ڈبل روٹی کا پہلا پیس ہی ختم کرادے عوام کو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ہم سے اکثر دوست سوال کرتے ہیں کہ آپ زیادہ تر ذومعنی بات کیوں اپنے کالم میں لکھتے ہیں، جب ہم ان سے جواب میں پوچھتے ہیں کہ ”ذومعنی” سے آپ کی کیا مراد؟؟ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے کالم میں اکثر ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں جن کے دو مطلب نکلتے ہیں،جس پر ہم انہیں بتاتے ہیں کہ دومطلب کو چھوڑو، ہمارے تو بالوں کے بھی دو منہ ہیں۔۔سقراط کا کہنا تھا کہ ، اگر انسان بننے کی تمنا رکھتے ہوتو اپنے آپ کو پہچانو۔۔کنفیوشس نے کہا تھا دانا وہ ہے جو اپنے گریبان میں جھانکے۔۔بھگت کبیر نے کہا کہ دل جب پتھر بن جائیں توپھراس میں رحم کے چشمے نہیں پھوٹا کرتے۔۔ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ جبریت کی گھٹن اور غربت کی فضاوں میں تندرست نظر آنے والے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔۔اس لئے اس غیرسیاسی کالم کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ آپ کو گھٹن کی فضا سے باہر لانے کی کوشش کریں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پرانے وقتوں میں سزا کے طور پر ”گدھے” پہ بٹھا کر پورے گاؤں کا چکر لگواتے تھے۔ اب ”گاڑی” میں بٹھا کرچکرلگوائے جاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔