... loading ...
ب نقاب/ایم آر ملک
ہم تاریخ کے ایک مضحکہ خیز دور میں ہیں ،تاحد نظر نظریاتی اور اخلاقی دبائو کا زوال ہے ،سچ کا قحط ہے ،ضمیر اور احساسات کی ارزانی ہے میڈیا کی صفوں میں ”آئیڈیالوجی ” کا چہرہ مسخ ہورہا ہے ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس بابر ستار ،جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی جارہی ہے،ویڈیوز کے مذموم دھندہ کے بعد اب ن لیگ کے تنخواہ دار لوگ یہ مہم چلارہے ہیں۔ پاکستان میں ٹی وی چینلز کی ریٹنگ 77فیصد کم ہو چکی ہے اور روز بروز اس میں کمی بڑھتی جارہی ہے ،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کے لائسنس ان افراد کے پاس ہیں جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں،بڑے بڑے صنعتکاروں نے اپنے دو نمبر دھندے کو چھپانے کیلئے ٹی وی چینلز کے لائسنس لیکر صحافت کی نفی کردی ہے ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی گدھا شیر کی کھال پہن کر شیر بننے کی ناکام سعی کرے ،ان مالکان میں لینڈ مافیاز ،تعلیم کے نام پر تجارت گاہیں اور صحافت کے نام پر صنعت کاری کرنے والے شامل ہیں۔ یہ مافیاز صحافتی استحصال میں مصروف ہیں ،عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ان کو دبانے میں صنعتی ادارے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ تاہم پی ڈی ایم ٹولہ کی پہلی حکمرانی سے لیکر موجودہ فا رم 47کی حکمرانی تک عوام دشمن پالیسیوں ،انسانی حقوق کی پامالیوں ،بجلی ،گیس اور آئل کی قیمتوں پر ،روپے کی نا قدری پر اس نام نہاد میڈیا کی آنکھیں بند ہیں ، وہ چینلز اور ان میں بیٹھے لفافہ اینکرز جب اپوزیشن کے ساتھ ،عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر لٹیرے حکمرانوں اور استحصالی قوتوں کے میراثی بن جائیں تو ایسے میڈیا کی ”چرب زبانی ”کو صحافت کہنا صحافتی اقدار کی توہین ہے ،یہی وجہ ہے عوام کی نظروں میں ایسے چینلزکی کوئی وقعت نہیں ہوتی ، کیا ہم اس حقیقت سے فرار حاصل کر سکتے ہیں چند چینلز کے پالشیئے افراد میراثی بن کر ن لیگ کا بیانیہ لیکر معزز ججز کے خلاف برسر ِ پیکار ہیں ۔
مفادات کے آزادانہ کھیل میں حب الوطنی ہار رہی ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداربکائو اور ضمیر فروش تنگ نظر تعصبات قوم کے شعور پر زبردستی مسلط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ نظریاتی طبقہ میں بد گمانیانیوں اور انحرافی رحجانات کو تقویت دینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔کیا پاک فوج کے ادارے کے خلاف ڈان لیکس کے آئینہ میں اُبھرنے والے چہروں کو بھلایا جاسکتا ہے ۔اسکرپٹ لکھنے والوں سے ہر محب وطن آشنا ہے تیز رفتار تبدیلیاں کسی پر رحم نہیں کھاتیں ،جمہوریت میںتو عوامی شمولیت نظر آتی ہے کیا ہمارے ہاں ایسا ہے ؟
اخلاقی گراوٹ کے پس منظر میں کالے دھن کو سفید بنا کر پیش کرنے والے نام نہاد بھی دو پارٹیوں کی لوٹ مار کو قانونی بنانے میں پیش پیش ہیں ،جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا اقتدار والوں کی تخلیق ہے مگر اب یہ تضاد مستقل نہیں چل سکتا تاریخی عمل امکانات کو جنم ضرور دیتا ہے مگر ان امکانات کو ٹھوس حقائق کی شکل خود انسان دیا کرتے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ عصر حاضر میں صفحہ قرطاس پر سچائی کا پرچار کرنے والی شعوری مداخلت بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور یہی تاریخ کی کایا پلٹنے کا نقطہ آغاز ہے۔ وہ طاقت اور فیصلہ سازی کو سماج کے رگ و پے کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔ ایک متروک نظام کی حتمی شکست پر وہ مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ سات بار پنجاب اور پانچ بار وفاق میں کرشماتی سیاسی اتھارٹی کا نشہ ٹوٹنے کا آغاز ہو ا چاہتا ہے آپ بیہودہ نقالی کو عوام کی خدمت کا نام نہیں دے سکتے۔ جرائم کا دفاع ہٹ دھرمی سے ہمیشہ نہیں کیا جاسکتا ،عمران کی عوامی حمایت اور پزیرائی ان قوتوں کیلئے اعصاب شکن کیفیت کا روپ دھار چکی ہے۔ جو اسٹیٹس کو ٹوٹتا دیکھ رہی ہیں مگر پابند ِ سلاسل قیدی نمبر804 کے عزم ،حوصلے اور مستقل مزاجی کے ساتھ جدو جہد کو داد دیے بغیر چارہ نہیں کہ وہ ایک تاریخی فریضے کی تکمیل کو ممکن بنانا چاہتا ہے ۔یہ کریڈٹ کپتان کو ہی جاتا ہے کہ عوام پر مسلط ا سٹیٹس کو کی قوتوں کاحقیقی چہرہ بتدریج سامنے آتا چلا گیا، ایک لمبے عرصے تک دو پارٹیوں کی فریب زدگی سے نکلنے کیلئے عرصہ درکار ہے۔ شعوری برتری ،جرأت مندانہ موقف ،بے لوث کمٹ منٹ آخری تجزیئے میں آبرو مندانہ فتح کی ضمانت ہوتی ہے۔ فیصلہ کن تاریخی لمحات میں مستعد اور دور اندیش افراد کبھی نہ دیکھی گئی ایسی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں جو تاریخی عمل کا رخ موڑ دیتی ہے،بنیادی انسانی حقوق کی پامالی تحریک انصاف کا ذاتی معاملہ نہیں ۔حکومتی حواریوں کے بے ہنگم اور لغو شور وغل میں 25کروڑ لوگوں کا سکتہ ٹوٹا تو لفظ جمہوریت گالی بن گیا ۔ پانامہ میں ایک قطری شہزادے کی ڈرامائی انٹری سچائی کے چہرے پر ایک رقیق اور زہریلا وار ہے ۔کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھوائے گئے چند الفاظ کو ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت تصور کر لیا گیا ۔
بھٹو کی پارٹی اب دو زرداریوں کے شکنجے میں ہے جہاں تاحد نظر باپ بیٹے نے مفادات کی بساط بچھا رکھی ہے۔ ایک جعلی قیادت کی بے بصیرتی ہے جس نے بھٹو کی پارٹی کو مفاہمت ،مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا پارٹیوں پر جب زوال آتا ہے تو اس زوال کی اپنی خصلتیں اور خصوصیات ہوا کرتی ہیں۔ یہی خصلتیں ،یہی خصوصیات اس زوال کی شدت اور اثرات کا تعین کرتی ہیں۔ فطرت کی طرح سیاست بھی خلا کو پسند نہیں کیا کرتی۔ دو پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست میں اُبھرنے والے خلا کو تحریک انصاف نے پر کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مفاہمت کے کچے دھاگے کو اکتاہٹ نے توڑ کر رکھ دیا ۔عوام خصوصاً نئی نسل مایوسیوں سے اُمید کی طرف سفر کرتے جمود کی آخری سطح کو کراس کرنے کی کوشش میں رواں دواں ہیں ۔ عوام ایک متحرک قوت کے طور پر روایت کو بدلنے کے خواہاں ہیں۔ فخر ایشیاء کی پارٹی ایک شاہانہ اور مطلق العنان سیاسی ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں ۔
عوامی تحرک کے سامنے کبھی بھی کوئی نہ ٹھہر سکا،کیا مریم کے پنڈال میں لے پالک پولیس اہلکاروں کے حصار میں متعلقہ شہر کے پٹواریوں ، اساتذہ ،درجہ چہارم کے اہلکاروں سے بھرے معدودے چند افراد کو جلسہ اور عوامی اجتماع کا نام دینا ایک مضحکہ سے کم نہیں ؟