... loading ...
حمیداللہ بھٹی
اہداف حاصل کرنے کے لیے تنظیمیں بنائی جاتی ہیں۔ سرد جنگ کے ایام میں بھی کسی ایسے وسیع تر فوجی اتحاد کی ضرورت محسوس کی گئی جو نہ صرف رُکن ممالک کی دفاعی ضروریات پوری کرے بلکہ ر وس کے بڑھتے قدم روکنے کاکام لیا جا سکے۔ ایسے ہی اہداف کوذہن میں رکھ کر1949 میں امریکہ سمیت بارہ اتحادیوں نے(نیٹو) نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن جیسی تنظیم بنائی جس نے پچھتر سالہ تاریخ میں کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ اگر اہداف کے حوالے سے دیکھاجائے تو اِس تنظیم نے رُکن ممالک کی دفاعی ضرویات پوری کرنے کے ساتھ روس کے بڑھتے قدم روکنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے مگرسوویت یونین کے حصے بخروں میں تقسیم ہو نے کے باوجود نیٹو جیسا دفاعی اتحاد ختم نہیں کیا گیا نہ صرف نیٹواتحادپوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے بلکہ مزیدممالک کورُکنیت دیکرتنظیم کو وسعت دی جارہی ہے ۔ اِس تنظیم کے 75ویں یومِ تاسیس کی میزبانی رواں ماہ نوتاگیارہ جولائی امریکہ کے حصے میں آئی۔ وشنگٹن ڈی سی میں منعقدہونے والے سربراہی اجلاس میں روس سمیت دیگرلاحق خطرات کاہر پہلوسے جائزہ لیا اور اہداف میں کچھ ترمیم کی گئی ہے جس سے اذہان میں ایسے خدشات نے جنم لیا کہ نیٹوکاروس ہی نہیں اور بھی کئی ا ہداف ہیں جو نئی سرد جنگ کا موجب بن سکتے ہیں ۔
نیٹوکے75ویں سربراہی اجلاس میں روس کی طرح پہلی بارچین اور ایران کو خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ سربراہی اعلامیے میں نئے خطرات کی نشاندہی بہت سنجیدہ بات ہے۔ ماضی میں صرف روس کو خطرہ تصورکیاجاتا تھا لیکن ایسے حالات میں جب چین ایک سے زائد بار کہہ چکا کہ کہ اُس کے کسی کے خلاف جاحانہ عزائم نہیں اور وہ پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے ۔پھر کیونکر اُسے نیٹو کے مفاد و سلامتی کے لیے خطرہ تصورکیا جارہاہے؟ ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یہ نیاخطرہ امریکی فرمائش ہے جبکہ اصل حالات یہ ہیں کہ کئی یورپی ممالک براہ راست چینی سرمایہ کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔ امریکی معیشت بھی چینی سرمایہ کاری کے بغیر ادھوری ہے۔ اسی لیے چین کو خطرہ قرار دینے پر ماہرین متفکر ہیں اور یورپی وسائل چین سے بے مقصد مقابلہ بازی اورتنائومیں ضائع ہوتے دیکھتے ہیں۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ کچھ عرصہ سے روس اور چین کی تزویراتی شراکت داری میں مضبوطی اور فعالیت آئی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ تزویراتی شراکت داری کسی عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ چین کی تو ساری توجہ معیشت مضبوط بنانے پرہے۔ اسی بناپر نئے خطرات کی نشاندہی کو تشویش کی نظر سے دیکھنے اوراہداف میں اِس ترمیم کوغیر حقیقی قراردیاجارہا ہے۔ البتہ روس اور چین کاباہمی تعاون ڈالر کی بالادستی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے ممکن اِسی بناپر دشمن کی تعدادبڑھالی گئی ہو ۔
رواں ماہ جولائی کادوروزہ نیٹو اجلاس رسمی نہیںبلکہ اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس میں تنظیم کے نہ صرف تمام بتیس ممبران ممالک کے سربراہان شامل ہوئے بلکہ ایشیا پیسفک سے جنوبی کوریا،نیوزی لینڈ،آسڑیلیااور جاپان جیسی طاقتور معیشتوں سے بھی درپیش خطرات کے حوالے سے مشاورت کی گئی تنظیم کے سبکدوش ہونے والے سیکرٹری جنرل ینس اسٹولٹن برگ کااظہار ِ خیال کافی معنی خیز ہے جس میں انھوں نے نہ صرف یوکرین کی رُکنیت کو ناقابلِ واپسی راستہ قرار دیابلکہ روسی حملے کوپسپا کرنے تک یوکرین کو حمایت کا یقین دلایا ۔یادرہے کہ سبکدوش سیکریٹری جنرل کے خیالات اِس بناپربہت اہم ہیں کیونکہ وہ کوئی شخص نہیں بلکہ ایک سے زائدبار اِس عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں اور تنظیم میں انھیں تھنک ٹینک کادرجہ حاصل ہے مگر آگ سے کھیلنے کا عزم اِس بناپرباعثِ تعجب ہے کہ یوکرین تو مسلسل میدانِ جنگ ہے مگر نیٹو اراکین محض دھمکیاں دینے ،پابندیاں لگانے اور ہتھیار ومالی امداددینے تک محدود ہیں جبکہ نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5میں واضح ہے کہ نیٹو کے کسی رُکن پر حملہ سب ممبران پر حملہ سمجھا جائے گا۔چاہے یوکرین کو ابھی نیٹو رُکنیت نہیں ملی مگر جارحیت کا سامنا نیٹو میں شمولیت کی آرزو کاشاخسانہ ہے لیکن یوکرین کوبطورچارہ استعمال کرنے کے باوجود نیٹو ابھی تک کسی عملی کارروائی کی طرف نہیں آیا ۔
نیٹوکے پہلے جنرل سیکرٹری نے تنظیم کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ یہ دفاعی اتحاد یورپ سے روس کو باہر رکھنے، امریکیوں کو ساتھ رکھنے اور جرمنی کوزیرنگین بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے مگر موجودہ حالات میں یہ اتحاد جرمنی کے حوالہ سے اہداف میں ترمیم کر چکا ہے کیونکہ جرمنی یورپ کی ایک ایسی بڑی اقتصادی طاقت ہے جس کے بغیر یوروزون ادھوراہے صرف روس کے حوالے سے نیٹو اہداف برقرارہیں اوراُن میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔ البتہ جہاں تک تیسرے ہدف کی بات ہے توجرمنی کی جگہ چین نے لے لی ہے۔ امریکی قیادت میں نیٹوجرمنی کوبھلا کرچین پرتوجہ مرکوز کرچکا ہے۔ اہداف میں یہ ترمیم یورپ کے لیے معاشی نقصانات کاموجب بن سکتی ہے۔ اِس لیے تنظیم کو ترجیحات کے تعین اور اہداف میں ترمیم کے حوالہ سے سوجھ بوجھ اور حکمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ بڑھتی کسادبازاری اور توانائی کے بحران کا شکار یورپی اقوام کسی ایسے نئے چیلنج کا متحمل نہیں ہو سکتیں جس سے عالمی معیشت ہل کررہ جائے ۔
نیٹو میں توسیع روس پسند نہیں کرتا اور اِس عمل کووہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ فن لینڈ اور سوئیڈن کو ممبر بنانے پر سخت خفا ہے۔ واقفان حلقوں کا کہنا ہے کہ نیٹو میں نئی شمولیتیں ہی دراصل روس کی یوکرین پر جارحیت کا باعث بنی ہیں۔ مگر روسی جارحیت کوجوازبناکر نیٹو اپنی طاقت دوچندکررہا ہے۔ یہ بات مکمل سچ نہیں کیونکہ جب 1991میں سوویت یونین ٹوٹ گیاتو سرد جنگ کابھی خاتمہ ہوجاناچاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوابلکہ خطرات ختم ہوجانے کے باوجود نیٹو میں توسیع کا عمل بلا کسی جواز کے جاری رکھاگیا۔ 1999میں تین ممالک پولینڈ،ہنگری اورچیک ری پبلک کونیٹوکا حصہ بنایا گیا۔ اگلے برس 2020میںشمالی مقدونیہ کو رُکنیت دیدی گئی جبکہ گیارہ جولائی2023 کو لتھوانیا میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں سویڈن کوبھی رُکن بنالیا گیاجس سے نیٹوکے رُکن ممالک کی تعداد32ہوگئی۔ یہ توسیع روس کوکھٹکتی ہے ۔وہ اِس عمل کو گھیرائوکرنے اور دبانے کی کوشش قرار دیتا ہے۔ یوکرین پر فروری 2020میں روسی حملے کی ایک اہم وجہ سوئیڈن اور فن لینڈ کی نیٹومیں شمولیت ہی تھی ۔روس کی فن لینڈ سے 1340 کلومیٹرسرحدکی طرح یوکرین کے ساتھ بھی ایک طویل سرحد ی پٹی ہے۔ اسی لیے ہمسایہ ممالک کونیٹوکا رُکن بنانے کو خطرات سرپر آناسمجھا گیاکیونکہ اِس طرح نیٹوکونہ صرف روس پر نظر رکھنے بلکہ قریب ترین ہتھیارجمع کرنے اور اڈے بنانے کی سہولیات مل گئی ہیں اور وہ کسی بھی وقت روس پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آگیاہے اسی لیے یوکرین پر حملے سے نہ صرف پوٹن نے اپنی دانست میںاُس نے نیٹومیں توسیع کا عمل روکابلکہ یوکرین کی شمولیت کاجاری عمل بھی سبوتاژ کر دیا۔ صدرمیخائل گورباچوف کے دورمیںسوویت یونین ٹوٹنے کاعمل پایہ تکمیل کو پہنچا مگر صدرپوٹن نئے سرے سے روسی کردار بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ نیٹو میں توسیع اور صدرپوٹن کی کوششیں دونوں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں لیکن چین کو نیا ہدف قرار دیکرنیٹونے معاشی خطرات کی بھی بنیادرکھ دی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔