... loading ...
سمیع اللہ ملک
ایک بزرگ نے نصیحت کی،تمہارے سامنے کوئی ہاتھ پھیلائے تویہ ہاتھ خالی نہ جانے دو۔حضوراکرمۖنے تویہ بھی فرمایاکہ پاس کچھ نہ ہوتومسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے اورپھر بات ان مانگنے والوں کی شروع ہوئی جوپیشہ ورگداگرہیں یاصحت مند اورتندرست وتواناہیں مگر گلیوں بازاروں میں مانگتے پھرتے ہیں۔پیشہ ورگداگروں کے بارے میں کون نہیں جانتاکہ کچھ لوگ ان کاکاروباربھی کرتے ہیں اورکچھ مانگنے والے جعلی معذوربن جاتے ہیں لیکن اس کے باوجودان بزرگ نے یہی کہاکہ کوئی کیابھی ہو،اس کاصرف پھیلاہواہاتھ دیکھواوراسے خالی واپس نہ جانے دو۔ایسی بحث مت کروکہ ہٹے کٹے ہو،نوکری مزدوری کیوں نہیں کرتے۔تم نہیں جانتے کہ اس صحت مندی کے باوجود اس کی کیامجبوری ہے۔اس کواللہ تعالی پرچھوڑدو اورتم اپنافرض اداکردو۔
میں نے جب اس بات پرغورکیاتومیرے دل نے ان بزرگ کی بھرپورتائیدمیں یہ گواہی دی کہ کیاواقعی ہم اپنے سینے پرہاتھ رکھ کریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں جواللہ نے دے رکھاہے ہم اس کے حق دارہیں؟ہماری حالت تویہ ہے کہ دن رات اللہ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں،زبانی کلامی ایمان لاتے ہیں مگرعمل اس کے مطابق نہیں کرتے۔ہماری حالت تو اس ملازم جیسی ہے جومالک کے ہرحکم پر حاضر جناب توکہے مگراس کے حکم کوبجانہ لائے!زبان سے اللہ کورازق تسلیم کرتے ہیں مگردرحقیقت اپنی کوششوں کواپنارازق سمجھتے ہیں،نوکری کو، کاروبار کویاکسی دوسرے قسم کے معاشی حربے کو۔ربِ کریم نے جوصفات اپنی ذاتِ برترکیلئے مخصوص کررکھی ہیں،وہ ہم اپنے رویے میں پیداکرکے اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں جوناقابلِ معافی ہے۔
افسوس کہ اللہ کے مجبوربندوں سے بحث کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کوبھول جاتے ہیں کہ ہماراکریم رب ہماری کتنی ہی کوتاہیوں سے درگزرکرکے ہمیں روزی دیتاہے اوراس دنیا کے عیش کراتاہے۔کیاہم اللہ کے ان بندوں میں شامل ہیں جوایک وقت کی روٹی جتنی بھی اطاعت کرتے ہیں؟کیاہم کسی عمل کے معاوضے میں اپناکچھ حق جتاسکتے ہیں؟کیاہم اپنے رب کی اتنی مزدوری کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جوکچھ موجودہے اس کوجائزقراردے سکیں؟سچی بات تویہ ہے کہ صبح جب ناشتہ کرنے لگتاہوں توکبھی یہ سوچتاہوں کہ مجھے یہ کیوں مل رہا ہے؟ میری ضرورت کے مطابق سب کچھ موجود ہے مگرکس عمل اورکس محنت کے عوض میں؟مجھے اپنے لیل ونہارمیں کوئی ایساعمل دکھا ئی نہیں دیتاکہ میں ایک لقمے کا حقدار بھی کہلاسکوں۔ہم توایک بے دین اورعملاًاللہ کے منکروں کی زندگی بسرکررہے ہیں۔
میراایک دوست کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں کپڑے کے دُکانداروں کے گزچھوٹے ہیں،ناپ تول کے دوسرے پیمانے بھی معیار کے مطابق نہیں۔شائدہی کوئی ایسا پٹرول پمپ ہوجس کے میٹردرست ہوں اورتیل خالص ہو۔عام خیال تھاکہ موٹروے کے پیٹرول پمپ درست ہوتے ہیں،میں اکثردوران سفرپاکستان انہی پیٹرول پمپوں سے تیل لیتاتھالیکن ایک دن یہ خبرچھپی کہ یہاں کے کئی پیٹرول پمپوں کی جانچ پڑتال کی گئی توان میں سے آدھے سے زیادہ غلط نکلے۔ایک مستند حدیث ہے جوقوم ناپ تول میں بد دیانتی کرتی ہے اس کا رزق روک لیاجاتاہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ایک قوم پرعذاب اسی لئے نازل ہوا،اوروہ ناپ تول میں بدعنوانی کی سزامیں تباہ و برباد کر دی گئی مگرعبرت کون پکڑے؟ ہمارے ہاں جن کواس ملک کے خزانے کاامین ہونا چاہئے تھاوہ کروڑوں اربوں ملک وقوم کالوٹ کراپنے بیرونی بینک اکاؤنٹس میں محفوظ کرلیتے ہیں اورایک این آراوکے طفیل پھر سے اس ملک کے خزانے پر خوب ہاتھ صاف کئے بلکہ ہرآنے والی حکومت سابقہ حکمرانوں کے ملکی خزانے لوٹنے کے تاریخی ریکارڈجب قوم کے سامنے رکھتی ہے توسانس بندہونا شروع ہوجاتاہے۔
میں جب کبھی ملک کی موجودہ صورتحال پرنظردوڑاتاہوں جہاںحاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبر پراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبرپر ہے جبکہ دنیابھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا 160نمبر ہے،ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کوقانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر 139 ممالک میں سے130ویں نمبرپررکھاگیاہے۔1500یونٹ کو500یونٹ لکہنے والارشوت خورمیٹرریڈر، خالص گوشت کے پیسے وصول کر کہ ہڈیاں بہی ساتھ تول دینے والا قصائی دھڑلے سے کام کررہے ہیں۔
خالص دودھ کانعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والادودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسند ایس ایچ او،گھربیٹھ کر حاضری لگواکرحکومت سے تنخواہ لینے والامستقبل کی نسل کامعماراستاد،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والا دُکاندار، 100روپے کی رشوت لینے والاعام معمولی ساسپاہی،معمولی سی رقم کیلئے سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنیوالا وکیل، سو روپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسرکیلئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والامعمولی سا چپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکے ملک کا نام بدنام کرنیوالا کھلاڑی بھی ہمارے ہاں ملے گا۔
ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اورجھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااورفجرکواللہ اکبرسنتے ہی سونے والا نوجوان، کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورایم این اے،لاکھوں غبن کرکے دس ہزار کے ہینڈ پمپ لگانے والاجابرٹھیکیدار،ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیرفروش کونسلر،غلہ اگانے کیلئے بھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودھری،زمین کے حساب کتاب وپیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کامالک بنانے والا پٹواری اور ریونیو آفیسرسینہ پھلائے اپنے دھندے میں مصروف ہیں۔
ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پرکمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی،منبررسول پربیٹھ کردین کے نام پرچندے اورنذرانے والے مولوی اور پیرصاحبان اورہر کوئی سوشل میڈیاکوبغیرتحقیق کے بے تحاشہ استعمال کرکے خودکوبری الذمہ سمجھتا ہے۔ اس دورمیں اگرہم پرنئے اورپرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں،ہمارے اعمال کی سزانہیں تو اور کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اب ان حالات میں ملک کی بہتری کیلئے کیاکرناچاہئے؟بالآخروہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہماراملک ایسے بے شمار ماہرین سے محروم ہوتاجارہاہے جوایمانداری سے ملک کی خدمت کاجذبہ دل میں رکھتے ہیں۔
سودی نظام کوفی الفورختم کئے بغیرہم کبھی بھی فلاحی ریاست بنانے کے خواب کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ہمارے ملکی آئین میں اسلام کے بارے میں شقیں موجودہیں مگرہمارے حکمران آج تک سیکولررہے ہیں اورسیکولرازم میں ملک کی نجات سمجھتے ہیں۔دنیا کے سیکولر لیڈر ہمارے آئیڈیل ہیں اورسودجوخدااوررسولۖکے خلاف جنگ ہے،اسے ہم نے جائز قرار دے رکھاہے اوراس پراصرارکرتے ہیں۔ یعنی ہم اپنے آپ کواللہ اوراس کے رسول سے زیادہ طاقتورسمجھتے ہیں(العیاذ باللہ)۔ حدتویہ ہے کہ بظاہرہمارے جوسیاسی لیڈراسلام کانام دن رات لیتے ہوئے نہیں تھکتے،ان کے اپنے سارے دھندے بینکوں کے ساتھ سودی کاروبارمیں ملوث ہیں اورقومی ٹیکس بچانے کیلئے اوراپنی سخاوت کے اظہارکیلئے انہی کاروبارسے کچھ خیراتی ادارے بھی رواں دواں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ شائداس طرح جہاں خلقِ خداکے دل جیتے جاسکتے ہیں اسی طرح خالق کوبھی راضی کرکے اس کی جنت کے حق دارٹھہریں گے۔
بات گداگرکی ہورہی تھی اورآپ کومعلوم نہیں کہ کوئی کیوں گداگرہے؟ایک عورت کیوں طوائف ہے؟ہم عورت کوطوائف بناتے ہیں، لطف اندوزہوتے ہیں اورپھراسے گرفتارکر لیتے ہیں کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے اوراس کی سزا سنگساری ہے۔میں جب بھی پاکستان جاتاہوں تومختلف ٹریفک لائٹس پرجولڑکااخباربیچ رہاہے،اس کی محنت سے خوش ہوکر اخبارلے لیتا ہوں۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھ کوخالی نہ جانے دیں۔کیایہی کچھ کم ہے کہ وہ ہاتھ آپ کانہیں،کسی دوسرے کاہے اورآپ دینے والے ہیں لینے والے نہیں!
نیااسلامی سال شروع ہوگیاہے،آیئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریزہوکرملک سے سودی نظام کے خاتمے کی نہ صرف دعامانگیں بلکہ اس قبیح فعل پرگڑگڑاکرتوبہ واستغفاربھی کریں ،نجانے کون سے پل کسی ایک کی دعاپاکستان کی تقدیربدل کررکھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔