وجود

... loading ...

وجود

بہار کو آنے سے نہیں روک سکتے!

جمعه 19 جولائی 2024 بہار کو آنے سے نہیں روک سکتے!

۔
ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلی کے مشہور شاعر پابلو نروداکی تاریخ ولادت 12 جولائی ہے۔ کیااس تاریخ کو مخصوص نشستوںکے عدالتی فیصلے سے کو ئی مناسبت ہے۔ جی ہاں! سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ 12 جولائی کو سنایا۔ پابلو نرودا نے کہا تھا:آپ تمام پھولوں کو کاٹ سکتے ہیں لیکن بہار کو آنے سے نہیں روک سکتے ”۔پھول کاٹ لیے گئے ، باقی جو بچ رہے ، وہ بھی خزاں رسیدہ موسم کے لوزدہ تھپیڑوں کی زد پر تھے۔ رات اندیشوں کے ساتھ سونے والے صبح دم بیدار ہوئے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کی صبح آئندہ کے ہیرو آٹھ منصفیں ہیں، پانچ وہ بھی نکلے جو تاریکیوں کے چمگاڈروں سے چمٹے رہے۔ پاکستان پر طاری شب، تیرہ تر، طویل تراورمحیط تر ہے۔ سو چمگاڈروں کی زندگی بھی کچھ بڑھ جاتی ہے۔ مگر پھر کیا!رات نے کبھی تو سمٹنا ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے آٹھ منصفین کے سرشار کردینے والے فیصلے کے بعد ایک ہڑبونگ مچی ہے۔ تخویف ، تادیب اور تعذیب کے ہتھکنڈے کام نہیں کر رہے۔ چمگاڈروں کے متعلقین نت نئے حربے آزما رہے ہیں۔
پہلا وار فیصلے پر ہی کیا گیا۔ فیصلے کے اندر فیصلہ سنانے کی کوشش ایوان عدل کی چار دیواری میں ہوئی۔ سپریم کورٹ کی نو سماعتوں کے بعد فیصلہ سنانے میں حتی المقدور تاخیر کی گئی۔ اس دوران صف آرائی سے محاذ آرائی تک کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ دباؤ اندر وباہر موثر نہ رہا۔ فیصلہ سنانا ہی پڑا۔ پھر وہی ہوا۔ جو گزشتہ چار دہائیوں سے شریفوں کا دستر خوانی قبیلہ کرتا آرہا ہے۔ خوب کو ناخوب ثابت کرنے کی پوری مشق شروع کر دی گئی۔ الفاظ کے تاجر حرکت میںآئے۔ سچ کے سوداگروں نے بھاؤ تاؤ شروع کیے۔ نظریۂ ضرورت کی دیوی کو ایوانِ عدل سے دھکے مارنے والے منصفوں کے خلاف ابلاغی مچھندروں کو زور آزمائی پر اُتارا۔عدالتی، سیاسی، صحافتی اور انتظامی برہمنوں نے بھید بھاؤ کی نفسیات سے ملک کی سب سے مقبول جماعت کے ساتھ اچھوتوں والا رویہ اختیار کرلیا۔ عدالتی فیصلے کو” آئینی اور قانونی موشگافیوں میں پڑنے اور بے ثمر دماغ سوزی” میں کھپنے سے عاری ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ابھی تفصیلی فیصلہ آیا بھی نہیں کہ اسے تنقید کی زد میں لیتے ہوئے آئین میں مکمل انصاف کے تصور کو طعنے کے نرغے میں لے لیا۔ آرٹیکل 187مکمل انصاف کے جس ہمہ گیر تصور کی حمایت کر تا ہے، اُسے مخالفت کی زد میں رکھتے ہوئے عورتوں کی طرح کوسنے شروع کر دیے گئے۔ پھر اِ س میں’ نظریہ ضرورت سے نظریہ سہولت تک’ کی پیوند کاری کی گئی۔ حیرت ہے کہ نظریۂ ضرورت کی دیوی کو بارگاہ عدل سے بے دخل کرنے والے فیصلے پریہ تعبیر چسپاں کی جارہی ہے۔ یہ دلیل نون لیگی دانشوروں کی پرانی واردات کی حقیقی چھاپ رکھتی ہے۔ یعنی جو کرتے ہیں وہ مانتے نہیں۔لمحۂ موجودکی اپنی وارداتیں حریف کے کندھوں پر انڈیلتے ہیں۔شریفوں کے پالے دانشور بھول گئے کہ نظریۂ ضرورت ہو یا نظریۂ سہولت ، یہ اقتدار کی راہداریوں میںرینگتی حشرات الارض کی طرح سازشوں کو تحفظ دینے کے لیے حرکت میںآتا ہے۔ مزاحمت کی تقویت کے لیے نہیں۔ یہ تو اپنی صداقت سے زندگی پاتا ہے۔ اِ س کی پزیرائی تو اپنی حقیقتوں کے نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔یہ جاہ پرستوں کا ہتھیار ہے۔ مزاحمت پسندوں کا نہیں۔ دوسو مقدمے میں جسٹس منیر کے الفاظ بھی ذرا شاعرانہ اور نون لیگی دانشور کی طرح غاصبانہ ہیں۔ لکھا: انقلاب کامیاب ہو کر اپنے آپ کو موثر ثابت کردیتا ہے اس طرح وہ قانون سازی کا اختیار حاصل کرکے ایک ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے”۔ذرا ان الفاظ پر غور کیجیے پھر آٹھ منصفوں کے فیصلے پر بھی!! ان منصفین نے 8 فروری کے قومی انتخابات میں فارم 47 کی آمریت اور اس کے ذریعے مخصوص نشستوں کی بندربانٹ کا راستہ روکا۔ ذرا سوچئے! جعلی دوتہائی اکثریت کے مکمل جبر کو پید ا کرکے جس آئینی پیکیج کا طوفان پیدا کرکے جسٹس منیر کے الفاظ میں ”ناقابل تردید حقیقت” کی سازش تیار ہو رہی تھی اس کا راستہ روک لیا۔ آرٹیکل 187 کوئی پنچایتی فکر نہیں، انصاف کا ہمہ گیر تصور ہے۔ جس نے دستوری تاریخ میں بے شمار نقب زنی کی ان ہی آمرانہ اور عامیانہ وارداتوں کی مزاحمت کے آئینی شعور سے جنم لیا ہے۔ مگر نونی دانشوروں نے آٹھ منصفین کے فیصلے کو پنچایتی فکرقراردیا ۔ پھر اپنے ہی ارادوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہاکہ اس سے” مہم جوئی کو فروغ ملے گا”۔ وہ کون لوگ تھے جو آئینی پیکیج دینے کا عین مقدمے کے دوران اشارہ دے رہے تھے؟ آئین کے محافظ سب سے بڑے عدالتی ادارے کے سربراہ کی مدت ِ ملازمت بڑھانے کا منصوبہ کیا تھا؟ کیا اس کے ذریعے عدلیہ کو پنچایتی سطح سے بھی نیچے اتارنے کی سازش کروٹیں لیتے نظر نہ آتی تھی؟ عدلیہ پرحملے اور بریف کیسوں کے ذریعے منصفین کوقابو کرنے کی تاریخ رکھنے والی جماعت کے دانشوروں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عدلیہ کے مقام یا فیصلوں کی سطح پر بات کریں۔ اُنہیں اپنے گریبانوں کو ٹٹول کر خود سے پوچھنا چاہئے کہ اُنہوں نے عدالتوں کو کس سطح پر اُتارنے کی اب تک کیا کیا سازشیں کی ہیں؟
چمگاڈروں کی مخلوق نے آسمان سر پر اُٹھاتے ہوئے یہ پروپیگنڈا بھی شروع کر رکھا ہے کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔سوال یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ یہ سوال بار بار سپریم کورٹ میں اُٹھا۔ سب نے کھلی آنکھوں سے اس سماعت کو دیکھا، جس میں جب بھی الیکشن کمیشن کی بدنیتی یا بدعملی کی وضاحت کی کوشش کی جاتی تو بینچ کا ایک حصہ بے چین ہو جاتا۔ سہولت کار کون ہیں، یہ سمجھنے کے لیے نو سماعتوں کے ایسے احوال کا ایک بار پھر مشاہدہ کر لیا جائے تو کرسیوں پر مضطرب دکھائی دینے والے بے نقاب ہو جائیں گے، پھر یہ بھی دیکھ لیں وہ آٹھ میں ہیں، دو میں یا پھر تین میں۔ ساتھ یہ بھی دیکھ لیں کہ اُن کے اب تک کے تمام فیصلوں نے کس جماعت کو کیا دیا ہے اور کس سے کیا چھینا ہے؟ یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔ سلمان اکرم راجہ پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے کا ہی کیس لے کر عدالت عظمیٰ میں کھڑے تھے۔ چلیں یہ بھی نظر انداز کر دیں۔ چمگاڈروں کی مخلوق کو اگر کسی پر اعتراض نہیں تھا، تو وہ منصف ِاعلیٰ تھے۔ وہی آئین آئین کی رٹ لگانے والے، الفاظ پر روح سے زیادہ زور دینے والے۔ سوال یہ ہے کہ جسٹس جمال مندوخیل کے جس نوٹ پر منصف اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ نے اتفاق کیا، اس میں کیوں یہ مانا گیا کہ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کا حق تھا۔ آٹھ منصفین کے فیصلے اور ان دو منصفیں کے نوٹ میں اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ مخصوص نشستوں کی تعداد پر ہے ، پی ٹی آئی کے حق پر نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ میںایک باریک واردات بھی تھی کہ پی ٹی آئی کا رکن کون ہے، اس کا فیصلہ رکن کے بجائے الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا جائے۔ جبکہ پی ٹی آئی کو ایک جماعت کے طور پر ختم کرنے سے لے کر اُن کے ارکان کو ”آزاد کرانے” اور پھر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سنی اتحاد کونسل تک دھکیلنے کا سارا عمل اسی الیکشن کمیشن کے یکطرفہ فیصلوں کے باعث ہوا ۔ یوں ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے ذریعے اکثریتی کمبل ، پرانے مہروں اور نئی چالوں کے ذریعے اپنی گرفت میں رکھنے کا تھا۔ باقی منصفین اس نوٹ کے گردضرورت و سہولت کے نظریات کی سانپ سیڑھی کا کھیل دیکھ کر قریب نہ بھٹکے کہ یہ طرزِ عمل تو میر تقی میر کی یاد دلاتا ہے:۔
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
سازشیں اب بھی حشرات الارض کی طرح رینگ رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میںاکثریت برقرار رکھنے کے لیے ہر ہتھکنڈا اختیار کیا جارہا ہے۔ فارورڈ بلاک کی سوشا آرائی نے بھی کام نہیں کیا۔کچھ ارکان غائب ہیں، اب ان پر مقدمات قائم کیے جار ہے ہیں۔ نتائج پھر بھی نہیں مل رہے۔ اب اچانک سپریم کورٹ میں ”ایڈہاک ججز” کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ نظریۂ ضرورت یا نظریۂ سہولت کی پھبتی تو یہاں کسی جا سکتی ہے۔ مگر یہ تدبیر بھی موثر ثابت نہیں ہو رہی۔ ریٹائرڈ ججز عوامی غم و غصے کے تیوروں کو بھانپ کر اپنے مردے خراب کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت نے صورت حال بھانپ لی ہے۔اسی لیے بونوں نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ عمران خان پر آرٹیکل چھ لگایا جائے گا۔ ابھی تو مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ بھی نہیں آیا کہ نظرثانی کی درخواست بھی عدالت چلی گئی ۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں”۔ راجہ پورس کے ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا تھا جو حکومت خود کے ساتھ کرنے پر تُل گئی ہے۔ پابلو نرودا جھوم رہا ہو گا جب اُس نے کہا:آپ تمام پھولوں کو کاٹ سکتے ہیں لیکن بہار کو آنے سے نہیں روک سکتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر