... loading ...
سمیع اللہ ملک
بہت عجیب ہیں ہم۔میں توبدنصیب کہنے والاتھابلکہ سچ تویہ ہے کہ یہی کہناچاہتاہوں۔اندرمجھے روکتاہے کہ نہیں اتناآگے نہ جا۔ ہمارے رویے،ہمارابرتاؤ،ہماری بودوباش،ہماری خواہشات سب کچھ عجیب ہے۔خواب بھی،ہم تضادات کامجموعہ ہیں۔جواہم ہے اسے نظرانداز کردیتے ہیں،جوثانوی ہے اسے اولیت دیتے ہیں۔میں بندہ نفس ہوں،مجھے بندہ رب بنناتھااور بندہ رب وہ ہے جواس کی چلتی پھرتی،جیتی جاگتی،ہنستی گاتی تصویروں سے محبت کرے۔لیکن ٹھہرئیے!مشروط محبت نہیں۔۔۔بس محبت،جس میں اخلاص ہو،طلب نہ ہو۔بس دیناہی دینا،لیناکچھ نہیں،کھلے بازواورکھلادل،تنگ دلی کاگزربھی نہ ہو۔طمع اورلالچ چھوبھی نہ سکیں۔۔بس خالص محبت۔میرارب تو اس سے محبت کرتاہے جواس کی مخلوق سے محبت کرے۔کتناعجیب ہے یہ رویہ کہ میں کسی سے محبت کرتاہوں اوراس کی تخلیق سے صرف نظر!وہ وقت آج بھی مجھے یادہے۔۔۔جنا ب حسن مطہرکے ہاں مکہ مکرمہ میں،عمرہ سے ابھی لوٹے تھے اورمدینہ منورہ کی تیاری تھی، بڑا سا ڈرائنگ روم اورسفیدبالوں والے باباجی۔۔۔ اور کچھ دوستوں کی بحث پران کی مسکراہٹ۔میں نے انسا نی شکل میں بہت فرشتے دیکھے ہیں، وہ بھی ایسے ہیں،بہت تحمل اور بہت صبروا لے۔۔۔اورمجھے تودونوں چھوکربھی نہیں گزرے۔جب بہت دیرہوگئی توانہوں نے مجھ سے کہا”توسمجھ گیاہے ناں،ویسے ہی یہ بحث کررہے ہیں”!تومیں بہت ہنسااورکہا”نہیں باباجی مجھے کچھ کچھ توسمجھ آگیا،پوری طرح نہیں”۔”اوپگلے جب تجھے کسی کی بری عادتیں بھی اچھی لگیں،اس کے غصے پربھی پیارآئے،تواس کی جھڑکی سن کربھی سرشارہو،اس کی ڈانٹ سنناچاہے بلکہ خودایسی حرکت کرے کہ وہ تجھے ڈانٹ دے،تجھ میں سے”تو”نکل جائے اور”وہ”بس جائے،اناصرف دم نہیں توڑے بلکہ فناہو جائے،جب وہ دھتکاردے اورتواورقریب آئے۔۔۔۔جب تجھ میں،تیری رگ وپے میں،تیری نس نس میں،لہوکی ہربوندمیں وہ سماجائے توسمجھ لیناہاں!اب ہے محبت،اگرایسانہیں توعبث ہے،سب عبث،سب کارعبث ہے۔
ہاں مجھے سمجھ آگیاتھا،تجربہ توکوئی بھی نہیں جھٹلاسکتا۔با لکل ایساہی ہے۔مجھے عجیب لگتاہے۔ہم سب اللہ کی محبت کے طلبگارہیں اورمخلوق سے بیزار۔نجانے کیاہے یہ۔میں اسے قید کرناچاہتاہوں جبکہ محبت آزادی ہے۔وہ سارے عالم کا رب ہے،ساری کا ئنات کارب ہے اورمیں اسے صرف رب المسلمین سمجھ بیٹھاہوں۔وہ لامحدودہے اورمیں اسے محدودکر کے اپنی بوتل میں بندکرناچاہتاہوں۔میں اس کے بندوں کوتقسیم کرتاہوں خانوں میں،وہ سب کودیتاہواورمیں سب سے روکتا ہوں۔وہ وسیع ہے اورمیں تنگ دل۔میں بندوں کا حساب کتاب اس پرنہیں چھوڑتا،خودکوتوال بن گیاہوں۔میں محبت توکیا کروں نفرت کابیج بوتارہتاہوں۔میں کون ہوتاہوں اس کے اوراس کی مخلوق کے درمیان آنے والا!میں!میں ڈنڈے اوربندوقیں لے کر انسان پرٹوٹ پڑاہوں۔وہ جبرسے منع کرتاہے اورمیں اپنی بات طاقت سے منواناچاہتاہوں۔میں اس کی کوئی بات نہیں سنتااوراس کاخلیفہ بناپھرتاہوں۔ مجھے میرے نفس نے بربادکردیاہے،میں اس کی مخلوق کیلیے آزاربن چکاہوں اوررب سے تقاضا کرتاہوں کہ مجھے محبت سے دیکھے!میں خودظالم ہوں اوررب سے طلب کرتاہوں اس کارحم!میں کسی کو بھی معاف کر نے کے لیے تیارنہیں ہوں اورہردم اس کوکہتاہوں کہ مجھے معاف کردے!میں خودپیٹ بھرکرکھاتاہوں اوراپنے آس پاس خاک بسرلوگوں سے بے خبر ہوں!میں عجیب ہوں،میرے رب نے جوحقوق دیے ہیں سب کو،میں وہ سلب کرکے بیٹھ گیاہوں،میں اپنی بات محبت سے نہیں بلکہ دھونس دھاندلی اوردھمکی سے منواتاہوں۔ میں اتناظالم ہوں کہ میرے گھروالے جنہیں میں نے اتنی محنت کرکے،سچ جھوٹ بول کر،ہلکان ہوکرہرجائزوناجائزکی پرواہ کیے بغیرانہیں پالاہے،جب وہ اپنے حقوق جومیرے رب نے ا نہیں دیے ہیں،طلب کربیٹھیں تومیں ڈنڈالے کر کودپڑتاہوں۔اس وقت تومجھے رب یادنہیں آتا۔میں بہت ظالم ہوں،جورب نے حقوق دیے ہیں میں نے وہ بھی چھین لیے ہیں اوردعوی کرتاہوں محبت کا اپنے رب سے!
ہربندے کارب سے ایک خاص تعلق ہے اورایساکوئی آلہ ایجادنہیں ہواجومجھے بتائے کہ کون رب کے کتناقریب ہے۔۔۔وہ جوتسبیح لیے گھوم رہاہے یاوہ جوسڑک پرتارکول بچھارہا ہے،وہ جوموٹرمیں گھوم رہاہے یاوہ جوبرہنہ پاہے،ہاں موٹر توکیاہے جہازمیں بیٹھنے والابھی اس کے قریب ہوسکتاہے۔مجھے کیاپڑی ہے کہ میں رب اورمخلوق کے درمیان آؤں! میں خودکوکیوں نہیں دیکھتاکہ میراکیاتعلق ہے رب سے! میں اگرنمازپڑھتاہوں توبے نمازیوں کوحقارت سے دیکھتاہوں۔میں اگرروزہ رکھتاہوں تودوسروں سے خودکواعلیٰ سمجھ بیٹھتا ہوں۔مجھے کیا معلوم ہے کیامجبوری ہے کسی کی۔وہ جانے اوراس کارب۔۔۔مجھے تواپناکام کرناہے۔جومجھے کرناچاہئے وہ نہیں کرتااورجونہیں کرناچاہئے وہ کرتاچلاجارہاہوں۔میں اپنے رب سے محبت کے جھوٹے وعدے سے کب بازآؤں گا! مخلوق سے نفرت اوررب سے محبت۔مجھے توکچھ پلے نہیں پڑتا،آپ کوسمجھ آگیاہوتوبراہ مہربانی مجھے بھی سمجھائیے ۔
میاں شہبازشریف صاحب جب بھی کیمرے اورمائیک کے سامنے آتے ہیں تواب بھی اپوزیشن لیڈربن کرقوم کے غریبوں کے دردکابڑی دلسوزی سے ذکرکرناشروع کردیتے ہیں کہ مہنگائی نے ان کی زندگی اجیرن کردی ہے،بھول جاتے ہیں کہ بطوروزیراعظم انہی کے حکم سے بجٹ میں ٹیکس بڑھائے گئے ہیں جس کے ردعمل میں مہنگائی کے طوفان نے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں،انہی کے حکم سے بجلی اورگیس کے نرخوں میں اس قدراضافہ کردیاگیاہے کہ قوم پرفاقوں کی نوبت آگئی ہے لیکن دوسری طرف انہی کے حکم سے ہمارے ووٹوں سے منتخب ارکانِ اسمبلی کواب سالانہ20کی جگہ30فری ہوائی جہازکی ٹکٹیں ملا کریں گی اورعوام کواس مدمیں سالانہ ساڑھے بارہ ہزاراضافی ٹیکس دیناپڑے گا۔یہ وہ تمام افرادہیں جنہوں نے ووٹ سے قبل اپنے اپنے حلقے میں عوام کواس مشکل سے نکالنے کی قسمیں کھائی تھیں۔
ایک طرف عوام کاجینامشکل کردیاگیاہے اوردوسری طرف صدرپاکستان آصف علی زرداری کے پروٹوکول گاڑیوں کے قافلے کے بجٹ کوچارگنابڑھاکر44ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔قوم سرپیٹ رہی ہے کہ ان تمام اشرافیہ نے تو بغیرتنخواہ کام کرنے کااعلان کرکے قوم پراحسان کیاتھالیکن دوسری طرف ایوانِ صدرکے باغ کی آرائش کابجٹ دوگنا کرکے6کروڑروپے کردیاگیاہے۔اکیلے صدرزرداری کی خدمت کے لیے ایوان صدرمیں 85ملازمین کی فوج موجودہے اورروزانہ کی بنیادپردوسوسے زائدافرادکاکھانابھی تیارکیا جاتاہے جبکہ شنیدتویہ بھی ہے کہ اپنے پچھلے دورِ صدارت میں فرانس میں بیٹھے اچانک بھنڈی کھانے کودل للچایاتوفرانس میں بھنڈی کی عدم دستیابی کی بنا پرخصوصی جہازکو اس خدمت پرمامورکردیاگیالیکن قوم کویہ بتایاجارہاہے کہ آئی ایم ایف کی مرضی سے بجٹ بناناہماری مجبوری ہے لیکن کیاآئی ایم ایف کویہ عیاشیاں نظرنہیں آتیں؟قوم کویہ کیوں نہیں بتایاجاتا کہ ملکی معیشت کابھٹہ بٹھانے کے لیے جوبجلی کے کارخانے آئی پی پی لگے ہیں،ان کے مالکان میں کتنے موجودہ اشرافیہ کے افرادشامل ہیں؟قوم جہاں پل پل تڑپ رہی ہے وہاں ان دوخاندانوں اوراشرافیہ کی شاہ خرچیوں میں دن بدن اضافہ ہورہاہے جس سے خاکم بدہن ملک ڈوب رہاہے!
غیرملکی قرضوں کابوجھ اس قدربڑھ گیاہے کہ صرف ان کے سودکی ادائیگی کے لیے قرض جیسی لعنت کاسہارالیناپڑ رہاہے اورملک کے وزیراعظم قوم کویہ نویدسنارہے ہیں کہ اگرہم نے اب بھی آئی ایم ایف سے نجات حاصل نہ کی تو ہمارے لیے شرم سے ڈوب مرنے کامقام ہے۔آپ کوپتہ ہے کہ شرم کس احساس کانام ہے؟یہ تمام قرضے آپ نے لیے ہیں جس سے عوام کاکوئی تعلق نہیں۔وہ وقت بھی جلدآنے والاہے کہ مغرب کے بینکوں میں ملک سے لوٹی ہوئی تمام رقم کوضبط کرکے یہ ملکی قرض اداکیاجائے گا!
۔۔۔۔