... loading ...
بے لگام / ستارچوہدری
واقعہ کربلا، دو راستے۔حق کا،باطل کا۔ سچائی کا،جھوٹ کا۔مظلومیت کا، بربریت کا۔ حسینیت کا،یزیدیت کا۔۔۔ محبت اورعشق قربانی کا نام ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے درمیان جو مکالمہ ہوا،جو قربانی پیش کی گئی،وہ سب محبت اورعشق کی داستان ہے۔
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
جنگ بدرسے پہلے ہونے والے اجتماع میں قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ انور دیکھ کرکیا کہا تھا، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،خدا کی قسم! ہم وہ جاں نثار ہیں اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں، آگ میں کود جائیں۔ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ یہ سب کیا تھا محبت اور عشق کی داستانیں۔
محبت کا تقاضا کیا ہے؟ جس کو آپ چاہتے ہیں،اس کا ہرحکم بجا لانا،قربان ہوجانا۔ آگے سے کوئی سوال نہ دلیل، بس سرتسلیم خم۔ یہاں تو لوگ مجازی عشق میں داستانیں رقم کرگئے،عشق حقیقی ہوتو۔۔۔ جسم کاٹ دیئے گئے،پھانسی پر لٹکا دیئے گئے،بچے ذبح کردیئے گئے، گھربدر کردیئے گئے۔۔۔ اُف تک نہ کی۔ یہی لوگ میرے رب کومعتبر ٹھہرے۔یہ وہی لوگ ہیں، جن کا سورة فاتحہ میں ذکر، اورہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں۔”اے میرے رب،ہمیں سیدھا راستہ دکھا،ان لوگوں کا راستہ جن پرتونے انعام فرمایا۔
ہم آسان راستوں کے مسافر،علی ہجویری کے مزار پر لنگر تقسیم کرتے ہیں،کھاتے بھی ہیں، حاضری بھی دیتے ہیں،فاتحہ بھی پڑھتے ہیں، لیکن ان کی تعلیمات پر کتنا عمل؟ شیخ عبدالقادرجیلانی کے نام پرباقاعدگی سے گیارہویں دیتے ہیں، لیکن انکی تعلیمات۔۔۔؟ ہر مسلمان کا نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کا دعویٰ لیکن تعلیمات پرعمل۔۔۔؟ قران مجید کو ہم سینے سے لگائے پھرتے،لیکن اللہ تعالیٰ کے احکامات پر کتنا عمل کررہے ہیں۔۔۔؟ سچائی یہی ہے ان سوالوں کے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہیں لیکن منافقت یہ ہے ہمارے پاس ان سوالوں کی لاکھوں دلیلیں ہیں،لاکھوں جواز ہیں،لاکھوں کہانیاں ہیں،لاکھوں روایات ہیں۔۔۔ ہم قصے،کہانیاں سننے والے لوگ، روایات میں کھوچکے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے،جنت بھی،جہنم بھی
محبت میں انسان محبوب کو مانتا ہے جبکہ عشق کے رموز ذرا مختلف ہوتے ہیں اس میں عاشق اپنی محبوب ہستی کی مانتا ہے۔ عشق اگر سمندر ہے تو محبت ایک دریا ہے جس کا پانی کئی مراحل طے کرکے گرتا آخر میں سمندر کے اندر ہی ہے۔ اپنے خالق کی خلق سے محبت درحقیقت عشق حقیقی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
واقعہ کربلا، دو راستے،حق کا،باطل کا۔ سچائی کا،جھوٹ کا۔مظلومیت کا، بربریت کا۔ حسینیت کا،یزیدیت کا۔۔۔ کربلا کا سب سے اہم درس یہی تو ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حق و باطل میں فرق جاننا۔۔۔ خمینی کا قول!! کیا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمارے آنسوؤں کی ضرورت۔۔؟ انکے کردار کو اپنایا جائے۔
حضرت امام حسین فرماتے ہیں!!
جب تمہاری زندگی میں دو ایسے راستے آ جائیں کہ ظالم تمہیں گردن نہ اٹھانے دے اور دین تمہیں گردن نہ جھکانے دے تو تیسرا راستہ گردن کٹانے کا راستہ ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا!!
”ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ قربانی دینا پڑے گی”۔
صرف انسان مرتے ہیں،کردار کب مرتے ہیں۔۔۔؟ کیا آج ”فرعون،نمرود،یزید” زندہ نہیں ہیں۔۔۔؟ زندہ ہیں،ہردور میں زندہ رہیں گے۔۔۔کیا آج ظلم وبربریت،ظلم وستم،جبر،نا انصافی کے بازار گرم نہیں۔۔۔؟ کیا فاشسٹ حکومتیں نہیں چل رہیں۔۔؟ دنیا کے نقشے پر ذرا نظر دوڑائیں۔پاکستان سمیت اسلامی ممالک کے ہی حالات دیکھ لیں۔
ہم لاکھ آنسو بہائیں،ماتم کریں،سبیلیں لگائیں،لنگر تقسیم کریں،محافلیں منعقد کریں،جلوس نکالیں،شاعری کریں،کتابیں لکھیں،اگر ہم ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے،حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے،باطل کا راستہ نہیں روکتے،سچائی کا پرچارنہیں کرتے،جھوٹ سے نفرت نہیں کرتے، جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق نہیں کہتے،سچے لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے،ظالموں کا ہاتھ نہیں روکتے،جابروں کے راستے بند نہیں کرتے،ناانصافی کے خلاف جدوجہد نہیں کرتے۔۔۔ تو پھر۔۔۔سچائی تویہی ہے۔۔۔کسی کو بھلا لگے یا برا۔۔۔ہم حسینی نہیں،یزیدی ہیں۔