وجود

... loading ...

وجود

تبدیلی کی دستک

هفته 13 جولائی 2024 تبدیلی کی دستک

حمیداللہ بھٹی

کیابھارت،برطانیہ اور فرانس کے بعد امریکی انتخابات بھی تبدیلی کا باعث بنیں گے؟ اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے نہ صرف سیاسی نبض شناس اندازوں کے تیر چلا نے میں مصروف ہیں بلکہ مختلف اِدارے بھی عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے سروے کررہے ہیں بھارتی انتخابات سے وقتی طورپر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور تیسری مدت کے لیے مودی چاہے کمزور سی حکومت بنانے میں کامیا ب ہو گئے ہیں مگراِس میں کوئی شائبہ نہیں رہا کہ ہندوتواکی علمبرداربی جے پی کانشہ اب اُترنے لگاہے برطانیہ میں کنزرویٹوکا چودہ سالہ اقتدار تو ایسے تحلیل ہوا ہے کہ لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے ایک مضبوط حکومت بناچکی ہے یہ تبدیلی کچھ زیادہ حیران کُن نہیں کیونکہ سبکدوش وزیرِ اعظم رشی سوناک کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف امیر برطانوی اپناسرمایہ محفوظ کرنے کے لیے دوسرے ممالک کا رُخ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ مسلم ووٹرنے اسرائیلی حمایت پر نفرت ظاہرکی جبکہ فرانس تبدیلی کے ایسے دوراہے پر کھڑاہے جہاں معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے سے کسی ایک جماعت کے لیے حکومت بنانا مشکل ہوگیا ہے جس سے ترقی کا عمل سبوتاژ ہونے کے ساتھ فسادات ہونے کاخدشہ جنم لے چکا ہے دنیا کے تین ممالک میں عوامی مزاج میں آنے والی یہ تبدیلی ایک ایسی دستک ہے جو دنیا کے منظرنامے میں کسی حدتک تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے رواں برس نومبر کے آغازپر امریکہ میں صدارتی انتخابات کامعرکہ متوقع ہیں اگر یہاں بھی تبدیلی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے توعالمی منظرنامے میں کسی حدتک تبدیلی کوخارج از امکان قرارنہیں دیا جا سکتا ۔
صدارتی انتخابات کے دونوں امیدواروںکے لیے وائٹ ہائوں(صدرکا گھر)اجنبی نہیں البتہ اِتنا فرق ضرورہے کہ جوبائیڈن موجودہ صدر ہونے کی وجہ سے ابھی تک یہاں مقیم ہیں جبکہ گزشتہ صدارتی انتخابی نتائج جنھیں ابھی تک ملک کا ایک مکتبہ فکر متنازع تصورکرتاہے جن میں ٹرمپ کو ہزیمت ہوئی جس کی پاداش میں وائٹ ہائوس کوخیرباد کہنا پڑامگر اب وہ ایک بارپھر نئے عزم و اِرادے سے دوبارہ صدارتی منصب حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اگر موجودہ حالات کی روشنی میں قیافہ لگایاجائے تو ڈونلڈٹرمپ کو جوبائیڈن پر سبقت حاصل ہے اُن کی حکمتِ عملی جارحانہ ہے وہ تابڑتوڑحملوں سے حریف بائیڈن کوزچ کررہے ہیں ایک زوردار صدارتی مباحثے میں ثابت کر چکے کہ اگر امریکہ نے کھویا وقار دوبارہ حاصل کرنا ہے تو کمزور فیصلے نہیں بلکہ دوٹوک اندازاپنانا ہوگا اور یہ کام بائیڈن کے بس سے باہر ہے بائیڈن اپنی جماعت کی طرف سے بھی دھچکوں کی زد میں ہیںڈیموکریٹ فنڈریزر اورمعرف اداکار جارج کلونی نے صدربائیڈن کو انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کامشورہ دیاہے اسی طرح سرتوڑ کوششوں کے باوجود سابق امریکی اسپیکرپارلیمنٹ اور بائیڈن کی سب سے بڑی حمایتی نینسی پیلوسی کو ہنوز حمایت کرنے پربھی قائل نہیں کیا جا سکا اسی لیے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چاہے تین ماہ باقی ہیں لیکن ابھی سے ہی حالات و واقعات سے ماہرین تبدیلی کی دستک محسوس کرنے لگے ہیں۔
انتخابات کوعوامی رائے جاننے اور سیاسی استحکام کازریعہ تصور کیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ سے ایسے ممالک میں بھی نتائج کی شفافیت پر اعتراضات ہونے لگے ہیں جو اپنے انتخابی نظام اور طریقہ کار کو قابلِ فخر قراردیتے ہیں گزشتہ انتخابی نتائج سے ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک ناخوش ہیں اور شکوک و شبہات کاجاری صدارتی انتخابی مُہم میں بھی اظہار کرتے رہتے ہیں واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ اگر وہ نومبرکے انتخاب میں کامیاب نہ ہوئے تویہ فیصلہ ملک کے لیے خونریز ثابت ہو سکتا ہے نیز اُن کے نہ جتنے سے ملک میں دوبارہ انتخابات نہیں ہو ں گے یادرہے کہ گزشتہ انتخابی نتائج کی روشنی میں اقتدار کی تبدیلی کامرحلہ آسان نہیں رہا تھابلکہ انتشاروافراتفری کے سائے میں تکمیل کو پہنچااب بھی رواں برس نومبرکے صدارتی انتخابی نتائج جو بھی ہوں ایسے خدشات کومکمل طورپررَد نہیں کیا جا سکتا ۔ امریکی ریاست اوہائیو میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ٹرمپ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقیدسمجھا جارہا ہے ٹرمپ نے تو2020میں بھی ڈیموکریٹس پر دھاندلی کا الزام لگایا مگراب 2024میں پُرعزم اور پُرامید ہیں کہ ماضی کی طرح وہ کسی کو دھاندلی نہیں کرنے دیں گے۔
بائیڈن خود کو کُھلے عام اسرائیل کا حمایتی قرار دیتے ہیں غزہ پر حملوں کے لیے مسلسل دفاعی امدادبھی دے رہے ہیں جو جارحیت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اِس وجہ سے ملک بھر میں تنقید کی زدمیں ہیں مسلمان اور امریکی دونوں ہی صدرکی موجودہ پالیسی کو افسوسناک قرار دیتے ہیں لیکن بائیڈن کواِس پر کوئی پشیمانی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ اِس پالیسی کے خلاف ہیں اسرائیلی رویے اور فلسطینیوںپر مظالم کی ہدفِ تنقیدبناتے ہیں یادرہے کہ بھارت،برطانیہ اور اب فرانس میںغیر مقبول ہونے والی قیادت بھی غزہ پر ہونے والی جارحیت میں اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش رہی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی صدارتی انتخابی نتائج پر اسرائیل کی حمایت اور مخالفت اثرانداز ہو سکتی ہے یہ اِس بنا پر ایک خوشگوار دستک ہے کہ دنیامیں ظالم اور مظلوم کے حوالے سے ایک مشترکہ سوچ پنپ رہی ہے جسے امن کے حوالے سے ایک اہم تبدیلی کہہ سکتے ہیں دوچارممالک میں مزید ایسی عوامی رائے سامنے آئی تو جارحیت کی اندھا دھند حمایت سے عالمی طاقتوں کو باز رکھناآسان ہوجائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے نتائج کیا ہوتے ہیں اگر بھارت،برطانیہ اور فرانس کے بعد امریکی ووٹربھی اسرائیل کی حمایتی قیادت کو رَد کردیتا ہے تو یہ عمل امن کے حوالے سے بہت اہم ثابت ہو سکتاہے۔
دنیا اِس وقت تبدیلی کے ایک ایسے دوراہے پر ہے جو امریکہ سے ایک متوازن ،امن پسند اورماحول دوست پالیسی کی متقاضی ہے نومبر میں ٹرمپ صدر منتخب ہوں یابائیڈن، انھیں درپیش خارجی مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنا ہوگا روس اور یوکرین جنگ،چین کی طرف سے اقتصادی وتجارتی چیلنجز،تشددوخونریزی کا شکارمشرقِ وسطٰی،بھارت میں پرورش پاتی جنونیت، افغانستان ،کشمیر ،برما اور تائیوان جیسے مسائل کا ایساحل تلاش کرنا ہوگا جس سے امن قائم کرنے میں مدد ملے اُسے اختلافِ رائے رکھنے والے ممالک کو جھکانے کے لیے پابندیوں جیسے ہتھیارسے دستبردارہوناگا البتہ یہ جوکچھ جذباتی لوگوں میںخوش فہمی پائی جاتی ہے کہ فلسطین بارے امریکہ پالیسی بدل سکتاہے میں صداقت نہیںبلکہ اسرائیل بارے ٹرمپ اور بائیڈن کے کردار میں کچھ زیادہ فرق کی توقع نہیںکیونکہ صدر جو بھی منتخب ہو اُسے دنیاکے امن سے زیادہ اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر